0
Friday 31 Aug 2012 11:34

پی پی پی کی صوبائی صدارت

پی پی پی کی صوبائی صدارت
تحریر: رشید احمد صدیقی

پاکستان پیپلز پارٹی کی پالیسیوں اور طرز سیاست سے کوئی لاکھ اختلاف کرے، لیکن اس بات سے اتفاق ہی کرنا پڑتا ہے کہ یہ بڑی عوامی قوت ہے اور اس کے ووٹ بینک کو آسانی سے توڑا نہیں جا سکتا۔ 1997ء میں ایک بات ہوئی تھی کہ پی پی پی کا ووٹر ووٹ دینے گھروں سے نہیں نکلا تھا اور اسے شکست فاش ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں نواز لیگ کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ اس اکثریت کی بنیاد پر مسلم لیگ ن والے کہتے پھرتے تھے کہ ہمارے قائد کو قائداعظم سے بھی بڑھ کر مینڈیٹ ملا ہے اور غالباً یہی نشہ تھا جس نے پرویز مشرف کو سب کچھ ڈبونے کی ترغیب دی تھی۔
 
بات پی پی کی ہو رہی تھی۔ اس جماعت نے 1988ء اور 1993ء میں صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومتیں بنائیں تھیں۔ لیکن 97ء میں اس کے صرف چار ارکان صوبائی اسمبلی تھے۔ آفتاب شیر پائو صوبائی صدر تھے۔ پارٹی میں ان کی کلیدی حیثیت تھی۔ ان کا بے نظیر بھٹو سے اس بنا پر اختلاف پیدا ہوا تھا کہ شکست کی وجوہات معلوم کرکے سدباب کیا جائے۔ شکست کی وجوہات میں وہ آصف علی زرداری کی ذات کو شائد سب سے بڑی وجہ سمجھتے تھے۔ بے نظیر بھٹو اس بات کو بخوبی سمجھتی تھی چنانچہ پہلے آفتاب شیرپائو کو صوبائی صدارت سے اور بعد میں جماعت ہی سے نکال دیا۔ 

پارٹی کو اس کے بعد سے صوبہ خیبر پختونخوا میں اچھی قیادت میسر نہ آسکی۔ آفتاب شیرپائو کے بعد بیرسٹر مسعود کوثر صوبائی صدر بنے۔ ان کا عرصہ زیادہ نہیں تھا۔ پارٹی پر ان کی گرفت آفتاب شیر پائو کی طرح نہیں تھی۔ پی پی پی کی قیادت کرنے کے لئے جو سب سے بڑی خصوصیت درکار ہوتی ہے وہ سیاسی مقاصد اور سرگرمیوں کے لئے ذاتی دولت کا خرچ کرنا ہے۔ بیرسٹر مسعود کوثر اس سلسلے میں آفتاب شیر پائو کی روایات کو قائم نہ رکھ سکے۔ ان کے بعد خواجہ محمد خان ہوتی صوبائی صدر بنے۔ وہ جیالے نہیں تھے۔ اوسط درجے کے سیاسی فہم کے ساتھ ان کے لئے جیالوں کی قیادت کرنا آسان ثابت نہ ہوا۔

دوسری طرف آفتاب شیر پائو مرکزی سینیئر نائب صدر کی حیثیت سے مسلسل پارٹی قیادت پر تنقید کرتے رہے، جس پر بے نظیر بھٹو ان سے خوش نہ تھیں۔ خواجہ ہوتی خاندانی رکھ رکھائو والے آدمی بھی ہیں۔ وہ آفتاب شیر پائو کے ساتھ صوبائی جنرل سیکرٹری رہے تھے۔ ان کے خلاف خواجہ ہوتی کوئی بڑا قدم یا تو اٹھا نہیں رہے تھے یا اٹھانا نہیں چاہتے تھے، چنانچہ ان ہی کے دور میں جب وہ بیرون ملک تھے، قائم مقام صوبائی صدر نجم الدین خان نے پہلے آفتاب شیر پائو کو اظہار وجوہ کا نوٹس دیا، ظاہر ہے انھوں اسے توہین سمجھا اور کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اپنے آپ کو مرکزی سینئر نائب صدر کی حیثیت سے قائمقام صوبائی صدر کو جواب دہ نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ نجم الدین خان نے ان کو پارٹی ہی سے نکال دیا۔

ان کو بے نظیر بھٹو کی آشیر باد حاصل تھی۔ آفتاب شیر پائو کے نکالے جانے پر پارٹی کے بہت سارے مرکزی قائدین نے بھی سکھ کا سانس لیا، کیونکہ مرکز میں ان کا وزن خاصا زیادہ محسوس ہوتا تھا اور دوسرے قائدین ان کی موجودگی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے، بشمول بے نظیر بھٹو کے۔  پی پی پی بنیادی طور پر جیالوں اور بھٹو کی پارٹی ہے۔ وہاں اس کے سوا کوئی اصول اور دستور نہیں چلتا۔ خواجہ ہوتی اس معیار پر پورا نہ اتر سکے تو انھیں نکال کر رحیم داد خان کو صوبائی صدر بنایا گیا۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ اس جماعت میں آئین و دستور کے بجائے بھٹو ازم حاوی ہے، چنانچہ رحیم داد خان بھی پارٹی کارکنوں میں کوئی نظم و ضبط نہ لا سکے۔ لیکن ان کی سیاست کی بنیاد جیالا کلچر تھی، چنانچہ وہ خاصے عرصے تک اس عہدہ پر براجمان رہے۔

2002ء میں ایم ایم اے کے طوفان کے سامنے پی پی پی بھی نہ ٹھہر سکی۔ پارٹی میں کوئی تنظیم تو تھی نہیں۔ بے نظیر بھٹو ملک سے باہر تھیں۔ مرکز میں مشرف اور صوبہ میں ایم ایم اے کی حکومت میں پارٹی کارکن کافی مایوس تھا۔ لیکن 2007ء میں بی بی کی واپسی کے بعد ان میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا تھا۔ وہ خاصے پر جوش تھے۔ اس دوران بی بی کے قتل کا سانحہ ہوا۔ سندھ کی طرح پی پی کو خیبر پختونخوا میں ہمدردی کا ووٹ زیادہ نہ مل سکا۔ وہ جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کا فائدہ بھرپور طریقے سے نہ اٹھا سکی اور انتخابات میں پی پی پی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ 

پارٹی قیادت نے مرکز میں حکومت بنانے کو ترجیح دیتے ہوئے خیبر کی وزارت اعلٰی اے این پی کو دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں پر پارٹی قیادت سید ظاہر علی شاہ کے سپرد کی گئی۔ وہ ایک اچھے جیالے تو ثابت ہوئے، مگر جیالوں کو جاندار قیادت دینے میں ناکام رہے۔ دوسری طرف وہ پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کے مزاج سیاست کے قائل نہ تھے، چنانچہ وہ خود صوبائی صدارت سے دستبردار ہوئے۔ ان میں آفتاب شیر پائو کی طرح ایک خوبی تھی کہ اپنے وسائل کو پارٹی کے لئے خوب استعمال کیا۔ 

سید ظاہر علی شاہ کے بعد پارٹی قیادت کا ہما صدر آصف علی زداری کے دوست سردار علی کے سر پر بیٹھ گیا۔ وہ ایم این اے بھی رہے ہیں اور سینیٹر بھی۔ عوامی آدمی ہیں، لیکن تنظیم سے ان کا دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں۔ وہ جیالوں کو منظم انداز میں کسی راستے پر ڈالنے میں بری طرح ناکام رہے۔ ان کے دور میں صوبائی دفتر بھی اجڑا نظر آیا اور پارٹی سیاست کا مرکز پبی میں ان کی رہائش گاہ رہی۔ ان کی اور آصف علی زرداری کی سیاست میں ذاتی دوستی اور کاروباری سوچ مشترکہ اقدار ہیں، چنانچہ ان کی صدارت غیر مؤثر رہی۔ 

پارٹی کے قیام کے بعد سے تاحال اس میں انتخاب کے بجائے نامزدگیوں پر ہی کام چلایا جا رہا ہے۔ چنانچہ ایک بار پھر صوبائی صدر کے لئے کچھ نام گردش میں ہیں۔ میڈیا کو بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے لیکن سیاست کے اپنے دائو ہوتے ہیں۔ میڈیا میں جو دائو کھیلے جا رہے ہیں، ان میں مسلم لیگ ہم خیال کے صدر سلیم سیف اللہ خان کے بھائی انور سیف اللہ خان کا نام سب سے آگے ہے۔ وہ آزاد حیثیت میں لکی مروت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ ان کا ایک بھائی ہمایون سیف اللہ ق لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے بنا تھا جبکہ سلیم سیف اللہ خان سینٹر تھے۔ پاکستانی کی سیاست کی تاریخ میں یہ خاندان ہمیشہ اپنی پارٹی کے اندر اقتدار والی پارٹی کا اتحادی رہا ہے۔

ق لیگ سے سب سے پہلے سلیم سیف اللہ نے بغاوت کی اور ہم خیال گروپ بنایا۔ اس جماعت کے صدر ہوتے ہوئے وہ نواز شریف کے ہم خیال اور اتحادی بنے ہوئے ہیں، جبکہ انور سیف اللہ خان صدر زرداری کے پہلو میں جا کر پی پی پی کی صوبائی صدارت کی دوڑ میں سبقت لئے ہوئے ہیں۔ لیکن اس خاندان کی روایت کے مطابق نہیں لگتا کہ جیالے ان کو قبول کر لیں گے۔ انور سیف اللہ سیاست کی شطرنج میں بند دیواروں کے بہترین کھلاڑی ہیں، لیکن کھلے میدان میں شائد ہی انھوں نے لکی مروت کے باہر کسی جلسہ عام سے خطاب کیا ہو۔ 

پی پی پی کی صوبائی صدارت کی دوڑ میں دوسرے نمبر پر ضلع پشاور کے سابق ناظم اعظم آفریدی ہیں۔ ان کا شمار اب پی پی پی کے سینئر لیڈروں میں ہوتا ہے۔ پی ایس ایف سے ابھرے ہیں۔ اپنی ذات میں مکمل جیالے ہیں۔ کسی حد تک پارٹی تنظیم پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی چہ مہ گوئیاں جاری ہیں کہ اگلے صوبائی صدر وہی ہوں گے۔ پارٹی خدمات اور پارٹی کلچر کو دیکھتے ہوئے وہ زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں، اس منصب کے لیے۔۔۔۔ لیکن ایک اور دل چسپ نام بھی لیا جا رہا ہے پارٹی صدارت کے لیے۔ وہ ہے پرویز خٹک۔ بنیادی طور پر جیالے ہیں۔ آفتاب شیر پائو کے ساتھ پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی جماعت کے صوبائی صدر تھے۔ اس سے قبل جنرل مشرف کے لوکل نظام میں نوشہرہ کے ضلعی ناظم تھے۔ شیر پائو گروپ کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے۔ اسمبلی میں آفتاب شیر پائو کے صاحبزادے پارلیمانی لیڈر بنے تو پرویز خٹک اپنی پرانی جماعت میں شامل ہو کر صوبائی وزیر بن گئے۔

اے این پی کی وزارت اعلٰی میں پی پی پی کے وزراء کا وزن اتنا محسوس نہیں ہو رہا تھا تو وہ عمران خان کے سونامی میں بہہ گئے۔ وہاں عمران خان کے علاوہ کسی کا چراغ نہیں جلتا تو تقریباً ایک سال بعد صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو کر اپنی ہوا کا رخ تبدیل کرنے کا واضح اشارہ دے دیا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اپنی پرانی جماعت میں جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، صرف چھوٹی سی شرط ہے کہ ان کو صوبائی صدر بنایا جائے۔ سیاست کے میریٹ پر تو مکمل پورے اترتے ہیں اور صدر زرداری کی روایات پر بھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قبولیت پاتے ہیں یا نہیں۔ 

ایک اور نام ہے جو اب تک لیا نہیں جا رہا اور جو اپنے تئیں اس دوڑ سے دور ہیں۔ لیکن مکمل جیالے ہیں۔ ایک بار اصولوں کی بیناد پر بغاوت کرکے آفتاب شیر پائو کے ساتھ جا چکے تھے، لیکن بکنے جھکنے کی روایات سے دور اصولوں کی سیاست کرتے ہیں۔ احمد حسن خان ایم این اے، ضلع ناظم، صوبائی وزیر رہے ہیں اور اب سینیٹر۔ پارٹی کی صوبائی قیادت کے لئے انتہائی موزوں ہیں۔ ایسے مناصب کے لئے صدر زرداری کی قربت لازمی تصور کی جاتی ہے اور شائد اس میرٹ پر وہ پورے نہیں، لیکن اس وقت پی پی پی کی جو ضرورت ہے شائد وقت کا تقاضا ان کو آگے لے آئے۔ ان کی ایک اور کمی یہ بھی ہے کہ صوبائی صدر کے پاس جتنے مالی وسائل ہونے چاہییں وہ ان کے پاس نہیں، مالی طور پر مروجہ سیاست میں ان کو قلاشوں کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان کو ظاہر علی شاہ کے ساتھ صوبائی جنرل سیکرٹری بنایا گیا تھا، لیکن انھوں نے معذرت کی تھی۔ 

پی پی پی نے انتہائی نامناسب دور میں پانچ سال حکومت کر لی، جس میں تمام تر بدنامیاں، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بدامنی اس کے حصے میں آئی ہے۔ صدر زرداری کی ذات ہمیشہ پی پی پی کی مقبولیت میں سوالیہ نشان کے طور پر کھڑی رہی ہے۔ ایسے میں ایک بہت ہی جاندار اور معاملہ فہم صوبائی صدر نہ ہو تو اگلے الیکشن میں اس کا انجام 1997ء سے کم نظر نہیں آتا۔
خبر کا کوڈ : 191397
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش