0
Tuesday 11 Sep 2012 11:36

پاکستان بھارت کی طفیلی ریاست بننے جا رہا ہے؟

پاکستان بھارت کی طفیلی ریاست بننے جا رہا ہے؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے دورہ پاکستان کے بعد صورت حال میں کچھ تبدیلی نظر آئی ہے اور پاکستان اور بھارت نے دوطرفہ تجارت اور عوامی روابط کے فروغ کیلئے نئے ویزا قوانین پر دستخط کر دیئے ہیں، جن کے تحت ویزا سے متعلق قواعد کو آسان بناتے ہوئے دونوں ممالک کے شہریوں کو سفری سہولیات اور مراعات فراہم کی گئی ہیں، تاجروں کو دس شہروں کیلئے ایک سال کا ملٹی پل ویزا جاری ہوگا، بزرگ شہریوں کو واہگہ اٹاری بارڈر پہنچنے پر 45 دن کا ویزا جاری ہوگا، مسافر آمد اور روانگی کیلئے الگ الگ راستے استعمال کر سکیں گے، کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ممبئی، دہلی، چنائے کے درمیان فضائی، کراچی اور ممبئی کے درمیان بحری رابطے قائم ہوں گے۔

واہگہ اور کھوکھرا پار کے راستے زمینی سفر کیلئے استعمال ہوں گے، بزرگ شہریوں، دوسرے ملک کی شہریت کے حامل شہری سے شادی کرنے والے اور والدین کے ہمراہ بچوں کو 5 شہروں کیلئے دو سال کا ملٹی پل ویزا جاری ہوسکے گا، سیاحوں اور طلبہ کیلئے ٹورسٹ گروپ ویزا کی کیٹیگری قائم کر دی گئی۔ نئے قوانین کے تحت تاجروں کو ایک سال کا ملٹی پل انٹری ویزا جاری کیا جائے گا اور انہیں پولیس رپورٹ سے بھی چھوٹ حاصل ہوگی جبکہ تاجروں کیلئے دونوں ممالک کے شہروں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ نئے قانون کے تحت گروپ ٹورسٹ ویزا کی نئی کیٹیگری متعارف کرائی گئی ہے، جس کے تحت 10 سے 50 سیاحوں کو ایک ماہ کا ویزا جاری ہوسکے گا۔

سیاحتی گروپ کا انتظام رجسٹرڈ ٹور آپریٹرز کریں گے اور انہیں 45 دن قبل اس حوالہ سے تفصیلات جمع کرانا ہوں گی۔ ٹور آپریٹرز اپنے گروپ کی جانب سے پولیس رپورٹ کا ذمہ دار ہوگا۔ دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو بھی سیاحتی مقاصد کیلئے ویزا جاری ہوسکے گا۔ سفارتی ویزا 30 دن کے اندر جاری ہوگا اور اس کی مدت ایک سال کے بجائے متعلقہ سفارتکار کی ذمہ داریوں کے عرصہ تک ہو گی۔ پاکستان اور بھارت نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کا مل کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ بھار ت نے اپنے ملک میں کاروبار کو پروان چڑھانے کے تمام امور تو طے کر لئے ہیں لیکن کشمیر، سیاچن، سرکریک اور پاکستانی دریاؤں پر قائم ہونیوالے ڈیموں کے مسائل کو اپنی روایتی بےحسی کی نذر کر دیا ہے۔

ظاہر ہے کہ ہر ملک ا پنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور سفارتی طریقوں سے اپنے ملک کی عزت و توقیر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کے مفاد میں معاہدے کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے سفارتی محاذ پر کوئی ایک بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ڈوریں اغیار کے ہاتھوں میں ہیں، پاکستان کو امداد دینے والے ملک جس طرح چاہتے ہیں ہمیں کٹھ پتلی کی طرح نچاتے ہیں اور جو جو کہتے ہیں ہمارے حکمران کرتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزہ کے معاہدے سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ امریکہ پاکستان کو بھارت کا تابع کرکے خطے پر تسلط قائم کرنا چاہتا ہے

ہمیں یہ بات کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بھارت موجودہ معاہدات کی آڑ میں پاکستان کے بزنس کو مکمل طور پر ختم کرکے رکھ دے گا۔ چین کی پاکستان میں آنیوالی مصنوعات کو بھی بڑا دھچکا لگے گا، بھارت کے ذریعے سے امریکہ پاکستان میں جو چاہے گا وہی کریگا۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت نے اختلافات کو کم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو ماضی کے واقعات کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا چاہئے، پاکستان نے کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر بیک وقت پیش رفت پر زور دیا ہے، لیکن بھارت نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو مسائل کے حل کیلئے بتدریج آگے بڑھنا ہوگا۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے پینترا بدلتے ہوئے اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو ماضی کے واقعات کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا چاہئے۔ ہماری سمجھ سے تو یہ بالاتر ہے کہ کیونکر مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کیساتھ صرف تجارت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایسی کونسی مجبوری ہے کہ مسئلہ کشمیر تو حل نہیں ہو سکتا لیکن 40 سال کے بعد تجارتی معاہدے طے پاگئے ہیں۔ ہمارے حکمران یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل اور اختلافات کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے اور مسئلہ کشمیر کے بغیر دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آ سکیں گے۔

اسرائیل، امریکہ اور بھارت کی ملی بھگت سے پاکستانی قوم کو بہکانے کیلئے چلائی گئی ’’امن کی آشا‘‘ کی مہم کا پول کھل گیا ہے۔ نام نہاد ’’امن‘‘ اور بے سروپا ’’آشا‘‘ سے زیادہ قوم کو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ عزیز ہے۔ بھارت تجارت کے زور پر پاکستان کی منڈیوں سے چین کی چھٹی کرانا چاہتا ہے اور ہماری شہ رگ کو کاٹ کر غلام بنانا چاہتا ہے۔’’شیطان کی ٹرائیکا‘‘ پاکستان کو اپنے جال میں پھنسانے میں سو فیصد کامیاب ہوگئی ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیئے تو پھر پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔ یہ ساری کی ساری منصوبہ بندیاں صرف اور صرف پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے ہیں۔

ویزہ اور تجارتی معاہدوں کے بعد اب تو مجھے یقین کامل ہو چلا ہے کہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ حل نہیں ہوگا۔ صرف ہر سال یوم یکجہتی کشمیر ملی جوش و جذبے کیساتھ منایا جائیگا اور کشمیر ہمارا ہے، سارے کا سارا ہے، کشمیر جنت ہے اور جنت کافر کو نہیں ملتی، جیسے نعرے لگائے جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کے دریا مکمل طور پر خشک ہونے پر بھارت سے پاکستان پانی کی بھیک مانگے گا اور کہے گا کہ ہم پیسے دے کر پانی خریدنے کو تیار ہیں۔ ویسے بھی ایل پی جی بھی بھارت سے خریدنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ اگر اسی طرح بھارت کے ساتھ روایتی اختلافات بھلا کر اور دیرینہ مسائل کو پس پشت ڈال کر بے تکے اور ہندو بنئے کے من پسند معاہدے کئے جاتے رہے تو وہ دن دور نہیں، جب پاکستان خدانخواستہ بھارت کی طفیلی ریاست بن جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 194270
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش