0
Tuesday 11 Sep 2012 12:11

بلدیاتی انتخابات، ایک نیا تنازع

بلدیاتی انتخابات، ایک نیا تنازع
تحریر: ابن آدم راجپوت

اس میں شک نہیں کہ بلدیاتی ادارے جمہوری نرسریاں ہیں۔ جہاں سے ایک عام آدمی گلی محلے کی سیاست کا آغاز کرتا ہے اور اگر ہم قومی سیاست میں نظر دوڑائیں تو سابق اسپیکر قومی اسمبلی فخر امام، وفاقی وزیر منظور احمد وٹو، ڈپٹی وزیر اعظم پرویز الٰہی، سمیت متعدد سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بلدیات کی سطح سے شروع کیا۔ یونین کونسل، ضلع کونسل یا کسی شہر کی مئیر شپ، صوبائی اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی یا سینیٹ تک پہنچے۔

پھر اس میں بھی شک نہیں کہ بلدیاتی ادارے ہمیشہ عوامی حمایت سے عاری فوجی آمروں کے پسندیدہ اور عوام میں اپنی مضبوط جڑیں رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ناپسندیدہ رہے ہیں۔ فوجی حکومتوں نے اپنی نرسریاں تیار تو کیں، مگر ان کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ تتر بتر ہو گئیں اور جس فصلی بٹیرے کو جس پارٹی میں جگہ ملی، اس نے وہیں سر چھپا کر بیٹھ جانے کو غنیمت جانا۔ اسی ضرورت کے تحت فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت، جنرل ضیاءالحق نے شہری علاقوں میں میونسپلٹی اور دیہاتی علاقوں کے لئے ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کا نظام متعارف کروایا۔
 
اس طرح یہ فوجی حکمران گیارہ گیارہ سال تک پاکستان کے مطلق العنان حکمران بنے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے لیفٹینٹ جنرل (ر) تنویر حسین نقوی کا دیا گیا ناظمین کا نظام ملک میں نافذ کرکے لوگوں کے گلی محلے اور سڑکوں کے نظام کو درست کرنے میں لگا دیا اور قومی سطح پر سیاسی جماعتوں سے نبرد آزما رہا۔ اس نظام کی مخالفت تو تمام سیاسی جماعتوں نے کی، مگر اس کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ بھی لیا اور اپنا سیاسی ایجنڈا بھی چلاتے رہے۔

جونہی پرویز مشرف حکومت ختم ہوئی اور 18 فروری 2008ء کے اتنخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی وفاق اور صوبوں میں اپنے اتحادیوں کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو ان کے اتحاد کا سب سے اہم کام آئین میں ترامیم اور پرویز مشرف کے نظام کا خاتمہ تھا، لیکن افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ناظمیین کا نظام ختم کرکے اس کا متبادل نظام ان جمہوری حکومتوں نے دیا اور نہ ہی انتخابات کروائے گئے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد چونکہ یہ نظام صوبوں کے پاس چلا گیا ہے، اس لئے وفاق مقامی حکومتوں سے عملی طور پر لاتعلق رہا۔ لیکن کسی بھی صوبے نے نئے نظام کے بنانے پر توجہ نہ دی۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں ایم کیو ایم کی مشاورت سے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آر ڈیننس 2012ء بڑی مشکل سے جاری کر دیا۔ مگر پنجاب میں چونکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ اس نے اس مشاورت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور 1979ء اور 2001ء کے بلدیاتی نظاموں کا ملغوبہ تیار کرکے مسودہ پنجاب اسمبلی میں بحث کے لئے پیش کر دیا۔ جو ابھی تک مجلس قائمہ کے زیر بحث ہے اور اب نہیں لگتا ہے کہ یہ اسمبلی اسے منظور بھی کر پائے گی یا نہیں، چونکہ اس صوبائی حکومت نے الیکشن کروانے ہی نہیں، تو قانون منظور کیوں کروائے گی۔ اب تک منظر عام پر آنے والے بیانات اور پس منظر میں ہونے والی گفتگو سے تو لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی توجہ بلدیاتی انتخابات سے زیادہ عام انتخابات پر ہے۔

صدر آصف علی زرداری بھی کمال کے سیاستدان ہیں۔ جنہوں نے مسلم لیگ ن کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے کہ عدالت کا 90 دنوں کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانے کے حکم پر عملدر آمد کیا جائے۔ لیکن این آر او اور دیگر ایشوز پر عدالتی حکم پر عملدرآمد کے مطالبات کرنے والی مسلم لیگ (ن) کا اس حوالے سے کوئی ارادہ نہیں کہ وہ گلی محلے کے انتخابات میں جائے۔ لگتا ہے کہ تخت لاہور کی وارث جماعت عدالتی حکم پر عمل کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں کر سکے گی۔ اس سے صدر آصف علی زرداری نے عدلیہ کو پیغام دیا ہے کہ میرے پیچھے ہی کیوں پڑے ہو۔ اپنے اس حکم پر بھی عملدرآمد کرواو، ورنہ توہین عدالت قانون کے تحت انہیں بھی سزا دو جو پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کو دی گئی۔ دوسرا اس اعلان سے آصف زرداری نے مسلم لیگ ن کو بھی آئینہ دکھایا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل کرنا کس قدر ممکن ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف دیکھ لیں۔

عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے نعرے پر عمل خاصا مشکل لگتا ہے۔ چونکہ انتخابی فہرستوں کی غلطیاں درست کرنے کا عمل دسمبر 2012ء تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔ اب حکومت اگر ڈٹ جاتی ہے کہ عدالتی حکم پر عمل ہونا چاہیے اور عدلیہ بھی اپنے فیصلے پر عملدرآمد کروانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے، تو صوبوں کو انتخابات کروانا ہوں گے۔ لیکن بلدیاتی ادارے اگر تشکیل پاگئے تو ان کی عام انتخابات میں مداخلت کو روکنے کے لئے پہلے سے انہیں تحلیل کرنے کی روایت بھی موجود ہے کہ ہر پارٹی کا ناظم/چئیرمین یا میئر سرکاری وسائل کو اس سیاسی جماعت کے امیدواروں کی حمایت میں اپنے عہدے کے اثرو رسوخ سے استعمال کرے گا۔

اگر دیکھا جائے تو نئے بلدیاتی انتخاب کے انعقاد میں سب سے بڑی رکاوٹ پنجاب حکومت کی طرف سے پیدا کی جا رہی ہے۔ جس کا کہنا ہے کہ آصف زرداری انتخابات میں دھاندلی اور عام انتخابات کو روکنے کے لئے بلدیاتی الیکشن کروانا چاہتے ہیں۔ سندھ میں بھی اتحادی حکومت ایک بار پھر بکھری بکھری نظر آتی ہے۔ اس شک نہیں کہ نیا بلدیاتی آرڈیننس ایم کیو ایم کی مرضی سے آیا ہے اور اسی نے اپنا سیاسی موقف منوایا ہے۔ یہ کریڈٹ بہر حال پیپلز پارٹی کو جاتا ہے کہ اس نے اپنے اتحادیوں کو مذاکرات کے ذریعے قائل کر لیا یا خود قائل ہوگئی، لیکن ڈیڈ لاک کی سی پوزیشن نہیں آئی۔

مسلم لیگ فنکشنل اور عوامی نیشنل پارٹی کا احتجاج اپنی جگہ درست ہی سہی اور انہیں اس کا آئینی اور جمہوری حق بھی ہے۔ لگتا ہے کہ صدر آصف علی زرداری انہیں منانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر نہ بھی مانے تو حکومت کو اس آخری مرحلے میں وفاق اور صوبے میں کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ نئے نظام کو صوبائی اسمبلی سے قانون سازی مکمل کروا کر نافذ کرنے کی بجائے گورنر سے آرڈیننس جاری کروانے کا مقصد یہی ہے کہ عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔ اسمبلی میں اس کی منظوری سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال سے بچنے کے لئے اسے پیش نہیں کیا گیا۔

سندھی قوم پرست سڑکوں پر ہیں تو جماعت اسلامی بھی ایم کیو ایم کے نظام پر سیخ پا ہے۔ اب تک کی سیاسی صورت حال میں پیپلز پارٹی کے لئے سندھی قومی جذبات کے خلاف جانا بہت مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے اور پہلے اسی صوبے میں دو مختلف نظاموں کا آرڈیننس واپس لے چکی ہے۔ اب تک کی صورت حال میں لگتا یہی ہے کہ صوبائی حکومت تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لے گی یا اس آرڈیننس کو واپس لے کر ایک بل کی شکل میں اسمبلی میں بحث کروا کر منظور کروائے گی۔
خبر کا کوڈ : 194405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش