0
Monday 23 Mar 2009 10:56

امريکہ عراق سے پَر پُرزے سميٹنے لگا

امريکہ عراق سے پَر پُرزے سميٹنے لگا
 ثاقب اکبر
فروري دوہزارنوميں بي بي سي، اے بي سي، اين ايچ کے جيسے بڑے اداروں نے مشترکہ طور پر عراق ميں ايک سروے کيا جس ميں عراقي عوام سے پوچھا گيا کہ ان کي مشکلات کي وجہ کيا ہے؟ تو اکثريت نے عراق ميں بدامني کي اہم ترين وجہ غير ملکي افواج کي موجودگي کو قرارديا۔ يہ سروے ايک ماہ ميں مکمل ہوا ۔اس ميں دوہزار دوسو آٹھائیس عراقيوں سے سوالات کیے گئے، جن کا تعلق عراق کے آٹھارہ صوبوں سے تھا۔ عراقي اپنے ملک کے مستقبل کے بارے ميں پراميد تھے۔ انھوں نے اميد ظاہر کي کہ غير ملکي افواج کے انخلا کے بعد عراق کي حالت بہتر ہوجائے گي۔ ان ميں اکثر کي يہ رائے تھي کہ عراق پر امريکي فوجي قبضہ ايک غلط ا قدام تھا۔
دوسري طرف گذشتہ برس کے آخر ميں عراقي حکومت وامريکہ کے مابين طے پانے والے معاہدے کے مطابق امريکي افواج کوجون دوہزارنو تک عراقي شہروں کي سيکورٹي عراقي فورسز کے حوالے کرنا ہے۔ اس سلسلے ميں ماہ رواں (مارچ دوہزارنو) کے آغاز ميں امريکہ نے گيارہ فوجي اڈے خالي کر ديے ہيں اور ان کا انتظام عراق کے حوالے کرديا ہے۔ ان ميں بغداد کا بڑا فوجي اڈہ النصر بھي شامل ہے۔ يہ صورت حال امريکي حکومت ميں موجود سخت گير عناصر کے لئے بہت ناپسنديدہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق سے امريکي افواج کا انخلا امريکي مفاد ميں نہيں جبکہ معاہدے کے مطابق دوہزار گیارہ تک امريکي افواج کو عراق خالي کرنا ہے۔
عراق ميں فوج رکھنے کے حاميوں ميں وزير دفاع رابرٹ گيٹس اورعراق ميں موجود فوجي کمانڈر شامل ہيں۔ ان کي رائے ہے کہ عراق سے امريکي افواج کے انخلا سے خلفشار پيدا ہوجائے گا جس سے دہشت گردي کو تقويت ملے گي۔ البتہ وزيراعظم نوري المالکي ايسے عناصر کي رائے سے اتفاق نہيں کرتے۔ مارچ کے دوسرے ہفتے ميں اپنے دورہ آسٹريليا کے موقع پرانھوںنے يہ بات زور دے کر کہي کہ عراقي عوام دہشت گردي سے مقابلے کے لئے متحد ہيں۔عراق سے امريکہ اوراس کے اتحاديوں کے انخلا کے بعد عراق ميں دہشتگردوں کو ٹھہرنے کي اجازت نہيں دي جائے گي۔ اس سلسلے ميں عراق کے سيکورٹي اداروں اورعوام کے درميان مکمل ہم آہنگي پائي جاتي ہے۔ انھوں نے يہ بھي کہا کہ ہم نے ملک ميں جمہوريت کا بيج بو ديا ہے اورآج کا عراق دہشتگردي کے مقابلے ميں متحد ومنظم ہے۔ غير جانبدار مبصرين جناب نوري المالکي کي اس رائے سے اتفاق کرتے ہيں کيونکہ عراقي فورسز نے جہاں جہاں ذمہ داري سنبھالي ہے وہاں وہاں دہشتگردي ميں کمي آئي ہے اورعراق کے حالات پہلے کي نسبت قدرے بہترہوئے ہيں۔اس وقت حالات پر حکومتي گرفت بھي بہتر دکھائي ديتي ہے۔
شايد يہي وہ صورت حال ہے جو استعماري اذہان کے حامل امريکي عناصر کے لئے پسنديدہ نہيں ہے۔ يہاں يہ بات قابل ذکر ہے کہ امريکہ نے عراقي حکومت سے مطالبہ کيا ہے کہ سابق حکمران بعث پارٹي کو ملکي سياست ميں حصہ لينے کا موقع ديا جائے۔ يوں لگتا ہے کہ عراق ميں برسراقتدار جماعتوں کے مزاج سے امريکہ مطمئن نہيں ہے۔جہاں تک بعث پارٹي کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ امريکہ کے ديرينہ مراسم ہيں۔ اس پارٹي نے امريکہ کي سرپرستي ميں ايران کے خلاف جنگ لڑي ہے ۔اس کے چند بدنام زمانہ افراد سے امريکہ پہلے ہي گلو خلاصي حاصل کر چکا ہے۔ برسراقتدار حزب الدعوۃ اوراس کي اتحادي مجلس اعليٰ جيسي جماعتيں بالآخر امريکہ کے ساتھ زيادہ دير تک نہيںچل سکتيں۔ان جماعتوں ميں علما کا اثرورسوخ کسي سے پوشيدہ نہيں ہے۔ موجودہ حکومت نے ايران کے ساتھ بھي اچھے تعلقات قائم کيے ہوئے ہيں ۔ان پارٹيوں کے علاوہ کرد صدر جناب جلال طالباني کے بھي ايران کے ساتھ گہرے مراسم ہيں۔ ايران کے ساتھ اچھے مراسم ميں عراقي شيعہ ہي پيش پيش نہيں بلکہ متعدد اہل سنت علمائ بھي ايراني حکومت سے تعلقات رکھتے ہيں اوران کو بہتر بنانا چاہتے ہيں۔
عراقي پارليمان کے سابق سپيکر محمود المشہداني جو اہل سنت ہيں، نے حال ہي ميں ايران کا دورہ کياہے جہاں انھوںنے فلسطينيوں کي حمايت ميں منعقدہ بين الاقوامي کانفرنس ميں شرکت کي ہے ۔اس موقع پر انھوں نے کہا کہ عراق کے سني عربوں کے ايران کے ساتھ اچھے روابط ہيں۔ انھوں نے ان الزامات کي بھي ترديد کي کہ ايران عراق کے داخلي امور ميں مداخلت کرتا ہے۔
عراق کي برسراقتدار جماعتوں سے امريکہ کو ايک تشويش اسرائيل کے بارے ميں بھي ہے کيونکہ يہ جماعتيں فلسطيني کاز کي کھلم کھلا حامي ہے اورغزہ پر اسرائيلي جارحيت کي مذمت ميں وہ کسي سے پيچھے نہيں رہیں۔ جبکہ امريکہ کے علم ميں ہے کہ بعث پارٹي اور صدام کے اسرائيل کے بارے ميں بيانات زباني جمع خرچ سے زيادہ نہيں ہوتے تھے۔ موجودہ عراقي حکومت سے يہ توقع نہيں کي جاسکتي کہ وہ فلسطينيوں کي حمايت سے ہاٹھ اٹھا لے گي ۔بعض مبصرين يہ بھي کہہ رہے ہيں کہ عراق ميں شيعہ سني کے مابين مکمل تفريق پيدا کرنے کي کاوشيں تقريباً دم توڑ چکي ہيں۔ بعض اطلاعات کے مطابق تفريق وانتشار پيدا کرنے ميں بعث پارٹي اور القاعدہ کا ہاتھ رہا ہے اور يہ دونوں گروہ مل کر بھي کارروائياں کرتے رہے ہيں۔
عراق ميں پيدا ہونے والا انتشار عراقي عوام نہيں بلکہ قابض افواج کے حق ميں ہے۔ عراق ميں جوں جوں داخلي اتحاد فروغ پائے گا عراقي عوام قابض افواج کے خلاف متحد ہوتے چلے جائيں گے ۔ يہ متوقع صورت حال امريکيوں کے لئے ضرور تشويش کا باعث ہوگي۔
اسي سبب سے بعض امريکيوں نے يہ کہنا شروع کيا ہے کہ عراقي شہروں سے انخلا کا مطلب يہ نہيں کہ افواج پھر سے شہروں ميں داخل نہيں ہوسکتيں ،جبکہ امريکہ عراق معاہدے کے مطابق امريکي ايسا کوئي قدم عراقي حکومت کي خواہش يا اجازت کے بغير نہيں اٹھا سکتے ليکن امريکي جنھوں نے عراق پر فوجي چڑھائي کے لئے اقوام متحدہ کي سلامتي کونسل سے اجازت لينا بھي ضروري خيال نہيں کيا ،اسے کون سا معاہدہ زنجير پہنا سکتا ہے۔ بعض امريکي عہدیداروں نے ابھي سے يہ کہنا شروع کرديا ہے کہ امريکہ اپنے مفادات کي حفاظت کے لئے پینتیس ہزارسے پچاس ہزار تک فوج عراق ميں رکھے گا۔
تاہم ضروري نہيں کہ دنيا کے تمام ترحالات امريکہ کے قابو ميں رہيں اورامريکہ دنيا ميں من ماني کرتا پھرے۔ امريکہ کے اقتصادي حالات جس دگر گوني کا شکار ہيں اورسرمايہ داري نظام ان دنوں جس گرداب ميں ہے، وہ دنيا کوکيسے بدلتا ہے اس سلسلے ميں ماہرين پيش گوئياں کررہے ہيں، ہم اتنا کہہ سکتے ہيں کہ امريکہ کے لئے سب اچھا نہيں۔
مجموعي طورپر ديکھا جائے تو عراق پرامريکي مہم جوئي کے اہداف ميں سے شايد ہي کوئي ہدف حاصل ہوا ہو۔ نہ وہ عراقي عوام اورحکومت کو ايران کے خلاف کھڑا کرپايا اورنہ اسرائيل کو محفوظ تر بنا سکا۔ عراقي عوام اسے اپنا نجات دہندہ سمجھنے کے بجائے اپني مصيبتوں کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دينے لگے ہيں۔ بقول شاعر وہ کہہ رہے ہيں:
ہم پہ احساں جو نہ کرتے تو يہ احساں ہوتا
جہاں تک عراق کے اقتصادي مستقبل کا تعلق ہے تو اس کے لئے عراق کے ذمہ دار منصوبہ بندي کررہے ہيں ۔گذشتہ برس کے آخر تک عراق کے پاس ستر ارب ڈالر سرمايہ موجود تھا۔تيل کي گرتي ہوئي قيمتوں کي وجہ سے ايک پريشاني ضرور ہے ليکن وہ تيز رفتاري سے اپني آمدني کے لئے ديگر ذرائع دريافت کررہے ہيں۔ امريکہ کے چلے جانے کے بعد کا عراق ضرور ايک بہتر ملک ہوگا۔(انشائ اللہ)

خبر کا کوڈ : 1967
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش