0
Saturday 22 Sep 2012 23:29

یوم عشق رسول (ص)

یوم عشق رسول (ص)
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
 
ہر مسلمان کا دل عشق مصطفٰی (ص) سے منور ہے، لیکن نبی کریم (ص) کی شان میں گستاخی فقط ہماری دل آزاری تک محدود نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ آپ (ص) کا فرمان ہے کہ ’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ میری ذات سے اپنے ماں، باپ اور اولاد سے بڑھ کر محبت نہ کرتا ہو۔‘‘ ہمارے ماں باپ آپ (ص) پر فدا ہوں، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان آپ (ص) کی شان میں گستاخی کو ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت کرے۔ مسلمان تو دور کی بات، کوئی باضمیر انسان بھی ایسی حرکت برداشت نہیں کرسکتا، نہ کرے گا۔ یہ کائنات آپ (ص) کی خاطر تخلیق کی گئی اور آپ (ص) ہی تمام جہانوں کے لیے اللہ تعالٰی کی رحمت کا واسطہ اور ذریعہ ہیں۔

امریکی پادری کی توہین آمیز حرکت پر پاکستان میں ہونے والا عوامی ردعمل روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کو ایسی قیادت نصیب نہیں ہوسکی، جو پوری قوم کو متحد کرسکے اور ساری قوم کے جذبات کی ترجمانی کے قابل ہو۔ اس کے باوجود پاکستان کے مسلمان پورے ملک میں روزانہ صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اور اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کراچی اور اسلام آباد کے پرتشدد واقعات کے بعد پی پی حکومت نے یوم عشق رسول (ص) منانے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک روزہ تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ لیکن پاکستان کا عام آدمی ان اقدامات سے مطمئن نہیں اور راولپنڈی اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں تشدد کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ 

حکومت کی طرف سے تعطیل کا اعلان اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروانے کا فیصلہ اپنی جگہ مستحسن ہے، لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ امریکہ نے حکومت کے ان تمام اقدامات کو مشکوک بنا دیا ہے۔ حکومت کیا یہاں تو مذہبی جماعتیں بھی میڈیا کے ذریعے اور اپنے اپنے جھنڈوں کے ذریعے عوام کو یہ باور کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ فقط ہم ہی ہیں جو عشق رسول (ص) کے تقاضوں کو مانتے ہیں اور جانتے ہیں۔ ہر مذہبی گروہ اور جماعت کی کوشش ہے کہ دوسری جماعتوں کی نسبت اپنا جھنڈا نمایاں رکھے اور زیادہ سے زیادہ کوریج حاصل کرے۔

یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی وجہ سے پاکستان کے مسلمان عوام ورطہ حیرت میں مبتلا ہیں کہ جب یہ بات طے ہے ہر مسلمان کے ایمان پر حملہ ہوا ہے اور ہمارے احتجاج کا مقصد اور ہدف ایک ہی ہے تو پھر ہر پارٹی اور جماعت الگ الگ جلسوں، جلوسوں اور مظاہروں کی کال کیوں دے رہی ہے؟ ہر پارٹی اور جماعت کے نعروں اور جھنڈوں کا مقابلہ کس لیے؟ توڑ پھوڑ اور قوت کے اظہار کا مقابلہ کس لیے؟ تمام قائدین اور لیڈرز مشترکہ احتجاج کا فیصلہ کیوں نہیں کر پاتے؟

اسی طرح پاکستانی میڈیا کے ایک مقبول ترین ٹاک شو کے میزبان کنگ خان مسلمان ہونے کے ناطے حرمت رسول (ص) کی پائمالی پر اتنے رنجیدہ اور ملول نہیں جتنا انہیں یوٹیوب کی بندش سے مغربی دنیا سے کٹ جانے کا دکھ کھائے جا رہا ہے۔ وہی مغربی دنیا جہاں نہ کسی معصوم (ع) کی عصمت کا لحاظ رکھا جاتا ہے نہ اللہ کے نبیوں (ص) کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک ایسی تہذیب جسے بجا طور پر زمانہ قدیم کی جاہلیت کا احیاء کہا جا سکتا ہے۔ ان کی طرف داری کرنے والے لوگ وہی ہیں جو ہر قیمت پہ اپنے معاشی مفادات کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، ان کے نزدیک دین و ایمان کی کوئی قیمت نہیں۔ 

ان کے اذہان پاکستانی ہیں، لیکن ان کے افکار مغربی۔ یہ اخلاق سے عاری مغربی تہذیب کے دل دادہ اور عیش کوش لوگ ہیں، جن کی ڈکشنری میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ان کے دلوں میں کعبہ نہیں بلکہ وائٹ ہاوس کی محبت ہے، یہ انبیاء (ع) کی تعلیمات کو نہیں بلکہ مغربی عقلیت پسندی کو زندگی کی سرنوشت سمجھتے ہیں۔ یہ الفاظ کے کھیلنے والے ہر چیز کو فقط مادیت کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ جو معاشرے اپنے ہی مذہب اور دین کی توہین کے مرکب ہوں، وہ ہمارے دین کا کیا پاس رکھیں گے، ہمیں ان سے انسانی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے برتاو کرنا چاہے، لیکن حرمت رسول (ص) کی قیمت پر نہیں۔۔

حکومت کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کروانے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی عوام پرتشدد ہو رہے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں اپنے وطن اور قیمتی املاک کا پاس نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ امریکی حکومت سے اپنی ڈیل کو بہتر بنانے کی حکمت عملی کے پیش نظر ساز باز کرنے والی اسٹیبلشمنٹ مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کر اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حکومت بیورو کریسی کے مقابلے میں امریکیوں کے سامنے اپنا قد کاٹھ بڑھانے کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کرے، جو اسٹیبلشمنٹ کرسکتی ہے، بلکہ عوامی حکومت کو باایمان اور غیرت مند عوام کا ساتھ دینا چاہیے، جو عشق رسول (ص) کا تقاضا بھی ہے اور دینی فریضہ بھی۔ یہ وقت سیاست چمکانے کا نہیں بلکہ دنیا کا یہ بتانے کا ہے کہ مسلمان کسی قیمت پر شان رسول (ص) کے خلاف گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔

ان تمام توجہ طلب امور پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ بطور مسلمان ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حرمت رسول (ص) کے مقابلے میں ہماری جان، مال اور زندگی کی کوئی قیمت نہیں، لیکن عشق رسول (ص) کا تقاضا ہے کہ ہم ذاتی اور اجتماعی زندگی میں سیرت رسول (ص) اور تعلیمات قرآن کو عملی طور پر اپنائیں اور نبی کریم (ص) سے محبت کے اظہار کو فقط توڑ پھوڑ، جلاو گھیراو اور پولیس پر پتھراو تک محدود نہ سمجھیں۔ حرمت رسول (ص) کے لیے مسلمان عوام کے جذبات سو فیصد سچے ہیں، لیکن اس بات کو نطر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکیوں سے ہمارے جذبوں کی قیمت وصول کرنے والی قوتیں تمام تر مظاہروں کو فقط Emotional Game کی حد تک محدود رکھتے ہوئے کوئی عملی نتیجہ تو برآمد نہ ہونے دیں، لیکن سودے بازی میں کامیاب ہو جائیں۔ 

اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت اپنے اقدامات میں مخلص ہیں تو کاسمیٹکس، فوڈ جینز، فیشن اور سٹائل اور لگژریز کے نام پر ہماری معیشت کی کمر توڑنے والی امریکی مصنوعات پر سرکاری طور پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی۔ امریکی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ آخر کون سی طاقت امریکیوں کے خلاف ہونے والے اس احتجاج کو غلط رخ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

مسلمانوں کے سچے جذبات حقیقی زندگی کی مضبوط بنیاد ہیں اور ہر مسلمان کو احتجاج کرنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خیال رکھنا چاہیے کہ اہل اور مخلص قیادت کے فقدان کی وجہ سے نادیدہ قوتیں ہیجان انگیز صورتحال کی وجہ سے احتجاج کا رخ امریکہ کی بجائے فقط ملکی املاک کی تباہی اور پولیس پر پتھراو کی جانب موڑ کے دنیا کو مسلمانوں اور اسلام کا پرتشدد چہرہ پیش کرنے کے مذموم مقاصد کے تکمیل کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہمیں ان سازشوں کو ناکام بنانے کے اپنی اپنی جگہ پہ کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ نہ کوئی ٹیری جونز ایسی حرکت کی جرات کرسکے اور نہ ہی ہمارے مذہبی جذبات کی آڑ میں امریکہ کے لیے اپنے آپ کو قابل قبول بنانے والے ٹولے اپنی دکانیں چمکا سکیں۔
خبر کا کوڈ : 197681
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش