0
Friday 28 Sep 2012 00:26

یوم عشق رسول (ص) پر تشدد کا ذمہ دار کون؟

یوم عشق رسول (ص) پر تشدد کا ذمہ دار کون؟
تحریر: رشید احمد صدیقی

امریکہ ملعون نے آزادی اظہار کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی دینی غیرت کو للکارا تو پاکستان میں سخت ترین ردعمل کی توقع تھی۔ حکمرانوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے یوم عشق رسول (ص) کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کر دیا اور پوری قوم کو اس احتجاج میں شمولیت کی بالواسطہ دعوت دے دی۔ جمعہ 21 ستمبر کو پاکستان کی ہر گلی سے جلوس برآمد ہوا، جس میں ہر عمر کے لوگ شریک تھے اور تمام افراد ہی ملعون فلمساز کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کے خلاف شدید جذبات سے لبریز تھے۔ حکومت نے احتجاج میں تنظیم پیدا کرنے کے لیے تو کچھ نہیں کیا، البتہ امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں کی خوب حفاظت کی گئی تھی۔ 

پورا دن فرزندان توحید عشق رسول (ص) سے سرشار تھے اور دن بھر سڑکوں پر گزارا۔ دن کے اختتام پر جب حساب کتاب کیا گیا تو دو درجن سے زائد افراد جان بحق ہو چکے تھے اور قومی و نجی املاک کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ چکا تھا۔ یہ تو یوم عشق رسول (ص) تھا، ایک دوسرے پر قربان ہونے کا دن، اتحاد کا دن، قربانی اور ایثار کا دن۔ باطل کے آگے ڈٹ جانے کے عزم کا دن تھا۔ عام تعطیل کا اعلان حکومت نے کیا تھا، چنانچہ اس دن کو اس کے مقاصد کے ساتھ منانے کا ذمہ بھی حکومت کا تھا۔ لیکن نکالے گئے جلوس کی قیادت کے لیے کوئی موجود نہ تھا۔

عوام و خواص ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر جتھوں کی شکل میں سڑکوں پر گھوم رہے تھے اور امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کر رہے تھے۔ وہ جذبات سے معمور تھے اور اس تلاش میں تھے کہ کسی طور اپنے جذبات کو ٹھنڈا کریں۔ چھوٹے نابالغ بچے بھی تھے اور مزدوری سے چھٹی کرنے والے ان پڑھ جوان بھی۔ جذباتی نعرے لگ رہے تھے اور تشدد کا راستہ اپنانے کا مکمل ماحول موجود تھا۔ کسی لڑکے بالے نے ایک پتھر پھینکا تو پھر پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ ملعون کے خلاف جہاد کے جذبے سے سرشار نوجوانوں کے راستے میں سینما آیا تو جہاد کا مفت موقع سمجھ کر اس پر غصہ ٹھنڈا کیا گیا۔ شیشے والی عمارت آئی تو اس پر پتھر پھینک دل ٹھنڈا کیا گیا۔ 

کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ پولیس نے اپنے طور پر کافی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ لیکن ذمہ داری لینے والا کوئی نہ تھا اور وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔ جو جانی نقصان ہوا وہ ناقابل تلافی تھا، لیکن جس غفلت کا مظاہرہ عام تعطیل کرنے والوں نے کیا تھا، نقصان اس کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہ تھا اور یہ محض اللہ کا احسان تھا۔ 

جب عام، غیر منظم آدمی کو سڑکوں پر آنے کے لیے موقع حکومت نے دیا تو اس کے غم و غصہ کو قابو میں رکھنا بھی حکومت کا کام تھا۔ ظاہر ہے یہ کام فوج اور پولیس سے نہیں لیا جا سکتا تھا اور نہ سرکاری ملازمین کے ذریعے اسے کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ اگر حکومت کو عشق رسول (ص) میں واقعی احتجاج کا شوق تھا تو عام تعطیل کا اعلان کیوں کیا۔ ہر سرکاری محکمہ کو ہدایت جاری کی جاتی کہ اپنے احاطہ سے ملازمین نکل کر سڑک پر آجائیں اور کوئی ذمہ دار آکر ان کے جذبات کی ترجمانی کرے۔
 
سکولوں اور کالجوں کے طلباء، اساتذہ کی نگرانی اور ہدایات میں عشق رسول (ص) کے مطابق مظاہرے کرتے۔ دوسرے دن بعض ذمہ دار لوگوں کے سکولوں میں اسمبلی میں امریکی پرچم جلا کر بچوں کو عشق رسول (ص) کے اظہار کا موقع فراہم کیا جاتا۔ مساجد کے آئمہ کی قیادت میں لوگ پیغمبرانہ اخلاق کے دائرے میں نکل کر اپنے نبی (ص) سے عشق و محبت کا اظہار کرتے۔ سیاسی جماعتوں کے اجلاس طلب کرکے ان سے درخواست کی جاتی کہ اپنے اپنے حامیوں کو لے کر طے شدہ روٹس پر جلوس نکالیں اور عشق رسول (ص) کا اظہار کریں۔ 

قومی یک جہتی کے اظہار کے لیے صدر مملکت صبح نو بجے قوم سے خطاب کرتے۔ وزیراعظم اسلام آباد میں ایک مظاہرہ کی قیادت کرتے، جس میں سپیکر قومی اسمبلی اور چئیرمین سینٹ کی قیادت میں عشق رسول (ص) کا اظہار کیا جاتا۔ ہر ضلعی ہیڈکوارٹر پر رکن قومی اسمبلی اور ڈی سی او کی قیادت میں مظاہرے ہوتے۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر میں اے سی او اور ایم پی ایز کی قیادت میں مظاہرے کیے جاتے۔ پولیس جلوسوں کی حفاظت کرتی اور یک جہتی کے طور پر وہ بھی بازئوں پر سیاہ پٹیاں باندھتی۔ 

ٹیلی ویژن اور میڈیا پر خصوصی مذاکروں کا اہتمام کیا جاتا۔ اہانت رسول و انبیاء کے اخلاقی اور انسانی پہلوں کو اجاگر کیا جاتا۔ اقلیتی رہنمائوں کو بلا کر دلائل کے ساتھ بات کی جاتی۔ امریکہ سے علامتی طور پر اپنے سفیر کو چند دن کے لیے بلا کر ایک جامع رپورٹ کے ساتھ واپس بھیجا جاتا، جس میں امریکی حکومت پر واضح کیا جاتا کہ پاکستانی قوم امریکی حکومت کے اس طرح کے رویہ کی موجودگی میں اس سے تعلقات کی اجازت نہیں دیتی۔ 

ہماری حکومت نے عشق رسول (ص) میں احتجاج کو منظم کرنے کی کوئی فکر نہیں کی اور نہ کسی قسم کے تکلف کو گوارا کیا۔ البتہ ہمارے فعال وزیر داخلہ نے جن کو سپریم کورٹ میں غلط بیانی اور جھوٹے حلف پر فوجداری مقدمے کا سامنا ہے، انھوں نے اس روز پورا دن موبائل فون بند کروا کر اپنے تئیں مظاہروں کے دوران دھماکوں کو روکا، لیکن مظاہرین کو کھل کر بدنظمی کی چھوٹ دیے رکھی۔ پاکستان میں احتجاجی سیاست تو کوئی دینی جماعتوں سے سیکھے۔ پیپلپز پارٹی کی جیالا سیاست احتجاج کی روادار نہیں۔ جیالے جب بھی نکلتے ہیں اپنا بھی سر پھوڑتے ہیں اور راستے میں آنے والے راہگیروں کی بھی خیر نہیں ہوتی۔

 اس احتجاج سے قبل دینی اور سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس طلب کی جاتی۔ یک نکاتی ایجنڈے پر بحث ہوتی اور یوم عشق رسول (ص) کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی تو پورے ملک میں کس خوب صورت انداز میں عشق رسول (ص) کا اظہار ہو جاتا اور گستاخ امریکہ اور اس کے ملعون فلم ساز کو کیا پیغام جاتا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے۔ 

لیکن پاکستانی قوم نے احتجاج کیا اور خوب کیا۔ امریکہ اور مغرب کو اس کا پیغام بھی خوب ملا۔ حاجی غلام احمد بلور کی دینی غیرت کو دنیا نے دیکھ لیا اور تو اور طالبان نے بھی ان کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ احتجاج جس انداز سے ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کے اثرات دنیا پر بہر حال اچھے مرتب ہوئے۔ جانی نقصان کی کوئی تلافی نہیں، لیکن بہت بڑے کاز کے لیے حکمرانوں کی بہت بڑی غفلت میں اس نقصان کو پاکستانی قومی نے صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ اس کی برکات ہماری قومی اور اجتماعی زندگی میں بہر حال ضرور دکھائی دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 198894
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش