1
0
Friday 28 Sep 2012 00:39

حق ہی سرفراز ہوگا

حق ہی سرفراز ہوگا
تحریر: تصور حسین شہزاد

عباس سے میرا تعارف یونیورسٹی میں ہوا ۔۔۔۔ وہ مجھ سے کافی جونیئر تھا، میں آخری سمسٹر میں تھا اور وہ ابھی ابتدائی کلاسوں میں آیا تھا۔ ایک پروگرام میں ہماری ملاقات ہوئی، وہ میری باتوں سے کافی متاثر ہوا اور میرا فین بن گیا۔ پروگرام کے اختتام پر اس نے مجھ سے میرا موبائل نمبر لے لیا، اب روزانہ اس کے ایس ایم ایس آنے لگے۔ وہ ہر اچھا ایس ایم ایس مجھے ضرور فارورڈ کرتا۔ اس کے زیادہ تر ایس ایم ایس آئمہ (ع) کے فرامین پر مشتمل ہوتے۔

اکثر عباس مجھے فون کرکے وقت لے لیتا اور ہم دیر تک پنجاب یونیورسٹی کی نہر کے کنارے بیٹھے باتیں کرتے رہتے۔ اس کی گفتگو مذہب سے شروع ہوتی، سیاست، کلچر، ثقافت، صحافت سے ہوتی ہوئی مذہب پر آ کر ختم ہوتی۔ قومیات کا درد اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، اسے ہمیشہ یہ فکر کھائے جاتی کہ ہماری قوم کیساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، اس کی باگ ڈور کیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، موجودہ ناخدا کشتی کو کنارے بھی لگائیں گے یا بیچ منجدھار سفینہ ہی ڈبو دیں گے؟

میرا یونیورسٹی کا سیشن ختم ہو گیا، گویا عباس سے بالمشافہ رابطہ ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے ایس ایم ایس اسی تواتر کے ساتھ آ رہے تھے۔ میں نجی زندگی اور غم روزگار میں ایسا الجھا کہ پرانے دوستوں سے رابطے کے لئے وقت ہی نہ نکال پایا۔ بہت سے مخلص اور پیارے کرنے والے ساتھی بہت پیچھے رہ گئے۔ کبھی کبھار کسی سے سرراہ ملاقات ہو بھی جائے تو ان کی وہی گرمجوشی اور محبت دیکھ کر شرمندہ ہو جاتا ہوں کہ ایسے مخلص لوگوں کے لئے بھی وقت نہیں نکال سکتا۔

کافی عرصے بعد گزشتہ روز اچانک عباس کا فون آ گیا ۔۔۔۔ بھائی کدھر ہیں؟ ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔ بہت ضروری ہے ۔۔۔۔۔ مجھے اس دن دفتر سے چھٹی تھی، گھر میں بھی کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی۔ میں نے اسے اپنے گھر ہی بلا لیا۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد عباس میرے دروازے پر تھا۔۔۔۔ اس کے قدم کافی بوجھل لگ رہے تھے، چہرے پر اداسی عیاں تھی، آنکھوں کی حالت یہ تھی کہ جیسے برسوں کا رت جگا کاٹ رہا ہے، اس کا ہمیشہ کِھلا کِھلا رہنے والا چہرہ مُرجھایا ہوا تھا۔

عباس خیریت تو ہے۔۔۔؟ یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے تم نے اپنی؟ ۔۔۔۔ میں نے اس کے کندھے پکڑ کر پوچھا۔۔۔ جی بھائی ٹھیک ہوں۔۔۔۔ اس نے مختصر سا جواب دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ نوجوان اندر سے ٹوٹ چکا ہے یا ابھی ٹوٹ کر کرچیوں کی طرح فرش پر بکھر جائے گا۔ میں نے اسے گلے سے لگا لیا۔ اسے اندر کمرے میں لے آیا۔ ایک بے نام سا حوصلہ اور دلاسہ دیا اور پوچھا بات کیا ہے؟

عباس سے اپنی آنکھیں میرے چہرے پر گاڑ دیں، وہ مجھے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے دُور خلا کی وسعتوں میں کہیں کھویا ہوا ہو ۔۔۔ مجھے انداز ہو گیا کہ اس کے اندر کوئی طوفان ہے، اس طوفان کو باہر نکلنے کا راستہ نہ ملا تو عباس کا وجود پھٹ جائے گا۔ میں نے سوچ لیا کہ اس کو بچانے کے لئے اس کا کتھارسس ضروری ہے۔ میں نے اسے کریدنا شروع کر دیا کہ اس کے دل میں جتنی باتیں ہیں یہ ساری کی ساری مجھے بیان کر دے، اس کتھارسس سے ہی یہ بچ پائے گا۔

میں نے پوچھا، عباس کیا صورت حال ہے، مجھ سے آج اچانک یوں ملنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ میں نے اس کا کندھا پکڑ کر اسے ہلایا ۔۔۔۔ ہوں ۔۔۔ اس کے خیالوں کی ڈروری جیسے ٹوٹ گئی ہو ۔۔۔ جی بھائی ۔۔۔ وہ بات یہ ہے کہ ہمارے ساتھ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ اس نے ایک شعر پڑھا۔
جانے کب، کون، مار دے کافر کہہ کر
شہر  کا شہر  مسلمان بنا  پھرتا  ہے

بھائی میں شیعہ ہوں ۔۔۔ میرا جرم پاکستان سے محبت ہے ۔۔۔ اور اسی حب الوطنی کی سزا مجھے موت کی صورت میں دی جا رہی ہے ۔۔۔۔ میں اس کی ساری کیفیت پھانپ گیا۔ میں نے اب اس کے لئے راستہ بنانا شروع کر دیا کہ اس کے الفاظ کو راستہ ملتا جائے اور اس کی زبان لفظ اگلتی رہے۔ اس سے اس کے من کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔


وہ بولا، ہم نے یہ ملک بنایا تھا، جو آج خود کو اس کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں، انہوں نے 47ء میں اس کی مخالفت کی تھی اور آج اس کے استحکام کے بھی یہی لوگ مخالف ہیں۔ 80ء کی دہائی میں جب ضیاءالحق نے امریکا کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا تو سوویت یونین کے خلاف انہوں نے سب سے پہلے ہمارے ساتھ رابطہ کیا۔ ہم نے امریکی آلہ کار بننے سے انکار کر دیا۔

عباس رک گیا ۔۔۔۔ میں نے اسے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ وہ بولا، جب ہم نے انکار کر دیا تو انہوں نے دوسرے گروہ سے رابطہ کیا۔ ڈالروں کی چمک دیکھ کر وہ آلہ کار بننے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس انکار کی سزا ہمیں یوں دی گئی کہ ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، بیوروکریٹس، سیاست دان، پروفیسرز، سائنسدان، اساتذہ اور تاجروں سے لے کر امام بارگاہ کے عام متولی تک کو نشانہ بنایا گیا۔ امام بارگاہوں میں بم دھماکے اور مساجد پر گولیوں کے مینہ برسائے گئے۔

ہم نے ارض مقدس کی محبت میں یہ قرض بھی ادا کیا۔ ہم خون کی قسطیں دیتے رہے۔ ادھر سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ افغانستان میں نام نہاد اسلامی حکومت قائم ہو گئی ۔۔۔۔ عباس بولے جا رہا تھا اور میں اسے روکنا بھی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔ اسلامی حکومت نے اپنے پر پرزے نکالے تو عالم اسلام چیخ اٹھا کہ یہ تو اسلام محمدی کی تعلیمات نہیں، جو یہ پیش کر رہے ہیں۔ طالبان کا اسلام وہ اسلام نہیں، جس کی روشنی مکہ اور مدینہ کی وادیوں سے پھوٹی تھی۔ تب پوری دنیا کو پتہ چلا کہ ہم نے امریکہ کا آلہ کار بننے سے کیوں انکار کیا تھا۔

پھر امریکہ نے خود بھی اعتراف کر لیا کہ ہاں ہاں ان طالبان کو ہم نے ہی بنایا تھا اور آج یہ ہمارے کام کے نہیں رہے۔ امریکہ نے ہمیشہ دوہرا معیار اپنایا ہے۔ ایک طرف دوستی تو دوسری طرف دشمنی بھی ساتھ ساتھ۔ اب پوری دنیا میں القاعدہ کا تعاقب کیا جا رہا ہے، انہیں دہشت گرد تنظیم ڈکلیئر کیا جا چکا ہے لیکن وہی امریکہ اسی القاعدہ سے شام میں بشارالاسد کے خلاف کام لے رہا ہے۔ یہاں القاعدہ کو اسلحہ بھی دیا جا رہا ہے اور ڈالر بھی۔ دہشت گرد اب امریکہ کے دوست ہیں۔

یہی کچھ اب ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے۔ امریکہ نے یہاں طریقہ واردات تبدیل کر لیا ہے۔ ماضی میں ہمارے درجن درجن بندے شہید کرنے والا امریکہ اب یہاں نئی طرز کی واردات کر رہا ہے۔ اب ہمیں بسوں سے اتارا جاتا ہے، شناختی کارڈ اور ناموں سے شناخت کرکے قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ اس ظلم پر اب امریکہ بھی آنسو بہاتا ہے، انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں اور امریکہ کی نمک خوار این جی اوز بھی ہماری ہمدردی اور داد رسی کے لئے ہماری ڈھارس بندھاتی ہیں۔ ہم مظلوم ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ہم قائل ہو جائیں کہ امریکہ ہمارا مخلص اور ہمدرد ہے۔

امریکہ چاہتا ہے اب ہم اس کیساتھ دوستی کر لیں، اس سے اسلحہ لے کر اپنے مخالفین پر ٹوٹ پڑیں اور اپنے سارے بدلے چکا دیں، پاکستان کی دھرتی کو لہو رنگ کر دیں، پورے ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو جائے۔ امریکہ چاہتا ہے اس کے دشمنوں کو اب ہم ماریں، اس کی جنگ ہم لڑیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں مروا کر ہمارے جنازوں میں آنسو بہانے پہنچ جاتا ہے۔ ہمیں حوصلہ دیتا ہے اور کہتا ہے سارے سنی، شیعوں کے دشمن ہیں۔

عباس یہاں رک گیا ۔۔۔۔ اس کی سانس پھول چکی تھی ۔۔۔ پانی کا آدھا گلاس ایک ہی سانس میں اس نے اپنے حلق میں انڈیل لیا۔ میں نے موقع پا کرسوال داغ دیا۔۔ تو اب تم کیا سوچتے ہو۔۔؟؟ عباس نے گہری سانس لی، اور بولا، بھائی ہم جانتے ہیں ہمارے مجرم کون ہیں۔ ایک چھوٹا سا گروہ، جس کے چند افراد نے اس قتل وغارت کا بازار گرم کیا، ان چند افراد کی سزا ہم سارے سنیوں کو کیوں دیں؟ سنی تو ہمارے بھائی ہیں، انہوں نے بھی ہمارے ساتھ مل کر پاکستان بنایا تھا۔ وہ بھی اتنے ہی محب وطن ہیں، جتنے ہم ہیں۔ ہم تسلیوں کے دو بول سن کر امریکہ کے آلہ کار نہیں بن سکتے، ہم نے تو ماضی میں ڈالروں کو جوتے کی نوک پر رکھا تھا۔

نہیں بھائی میری قوم غیرت مند ہے، ہماری درس گاہ کربلا ہے، ہمارا راہبر حسین (ع) ہے، جو معیار حق ہے۔ ہم بھلا کیسے کربلا کو چھوڑ سکتے ہیں؟ ہم اپنے وطن کو بچائیں گے، یہاں سے اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کو نکال باہر کریں گے۔ ہم اسلام اور پاکستان کیلئے قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں۔ ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھکے ہیں نہ تھکیں گے ۔۔۔۔ عباس اٹھا اور باہر نکل گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، جن سے اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دمک گیا تھا۔ اس کے وجود میں نئے عزم کی بجلی کوند گئی تھی اور وہ پرجوش دکھائی دے رہا تھا۔

میرا اندازہ غلط نکلا تھا۔ میں سمجھا تھا کہ حالیہ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے تسلسل کے ساتھ ہونیوالے واقعات نے عباس جیسے نوجوانوں کو مایوس کر دیا ہے۔ لیکن عباس کی سوچ نے مجھے حوصلہ دیا کہ ہمارے نوجوان بیدار ہیں اور استعمار کی سازشوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ میرے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی کہ باطل یہاں بھی ہار گیا۔ حق یہاں بھی سرفراز ہوگیا اور بے شک حق نے ہی سرفراز و کامران ہونا ہے۔
خبر کا کوڈ : 199092
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
خون خرابے سے بہتر ہے کہ ہم گلے ملکر الگ ہوجائیں، ہمارے نکات کو 'شیخ مجیب' کے نکات سے الگ نہ سمجھا جائے، اختر مینگل

Is zaban main jab tak baat nahi ho gee hamara maslay bhi supreme courty nahi sunay gee, Mulk say wafadari ka ya matlab nahi k bhai marwa kay behnoon ko kaneez bana dya jae is naam nehad qaleel tadaad k hatoon, jo kay shioon ki ghalat fehmi hai k wo qaleel hain. Agha Murtaza Poya k saath honay wala waqea is baat ki khuli daleel hai.
ہماری پیشکش