0
Friday 28 Sep 2012 21:48

یو این میں پاکستانی و ایرانی صدور کی تقریروں کے مشترک نکات

یو این میں پاکستانی و ایرانی صدور کی تقریروں کے مشترک نکات
تحریر: ثاقب اکبر
 
گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سڑسٹھویں سالانہ سربراہی اجلاس سے دنیا بھر کے ریاستی اور حکومتی سربراہوں اور ان کے نمائندگان نے خطاب کیا۔ ان میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت آصف علی زرداری اور اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد بھی شامل تھے۔ دونوں صدور کی تقریریں نہایت اہم مطالب پر مشتمل تھیں، جن میں حیران کن حد تک بہت سے نکات مشترک تھے۔ بعض مشترکات بالکل ظاہر تھے اور بعض مشترکات بین السطور بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ 

تاہم ایرانی صدر احمدی نژاد کی تقریر نسبتاً طویل تھی، لہٰذا انھوں نے بہت سے مقامات پر اپنے مافی الضمیر کو زیادہ وضاحت سے پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے چونکہ اپنی قومی زبان میں خطاب کیا ہے اس لیے وہ زیادہ سہولت اور روانی سے اپنا نقطہ نظر پیش کر سکتے تھے، نیز انھوں نے خوبصورت ادبی پیرائے کو بھی اپنی ادائیگی میں پیش نظر رکھا ہے۔ البتہ پاکستانی موقف کو پیش کرتے ہوئے بعض مقامات پر صدر آصف علی زرداری نے بھی نسبتاً زیادہ وضاحت سے بات کی ہے۔ دونوں راہنماؤں کی تقاریر کے مشترک نکات کی ہم ذیل میں نشاندہی کر رہے ہیں:
 
دونوں راہنماؤں نے امریکہ میں بننے والی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی (نعوذباللہ) پر مبنی فلم کے حوالے سے بات کی اور اس فلم کی مذمت کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ صدر آصف علی زرداری نے تو اپنی تقریر ہی اسی موضوع سے شروع کی۔ صدر احمدی نژاد نے کہا کہ انبیاء اور آسمانی ادیان کے احترام کو قانونی شکل دی جائے، یوں تمام انسان آپس میں پیار و محبت سے زندگی گزار سکیں گے اور پوری دنیا میں امن وامان کا قیام ممکن ہو جائے گا۔
 
دونوں راہنماؤں نے فلسطین کے مظلوم عوام کی واضح طور پر حمایت کی۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم فلسطینی عوام کے حقوق اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں۔ صدر احمدی نژاد نے مسئلہ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سرزمین فلسطین پر ایک جعلی اور قابض ریاست مسلط کر دی گئی ہے، فلسطینی عوام کی نسل کشی کی گئی ہے اور کئی ملین فلسطینیوں کو آوارہ وطن کر دیا گیا ہے۔
 
پاکستان اور ایران کے صدور نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ صدر احمدی نژاد نے کہا کہ جنرل اسمبلی کو زیادہ اختیارات ملنے چاہئیں، جس میں دنیا بھر کے تمام ممالک کی نمائندگی موجود ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے موجودہ نظام میں سارے اختیارات سلامتی کونسل میں چند بڑی طاقتوں کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔ اس طرح سے دنیا کی بیشتر قومیں اقوام متحدہ کے فیصلوں میں عملاً شریک نہیں ہیں اور دن بدن اس ادارے پر قوموں کا اعتماد کم سے کم تر ہوتا چلا جارہا ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے اس ضمن میں کہا کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس کے نظام کو بیشتر جمہوری اور جوابدہی پر مبنی بنانے کے ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات اتفاق رائے سے اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کے موجودہ ڈھانچے سے مطمئن نہیں اور وہ اس ڈھانچے کو جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ نہیں سمجھتے۔
 
دنیا میں ماحولیات کے بگاڑ کے حوالے سے دونوں ممالک میں جو تشویش پائی جاتی ہے اس کا اظہار بھی دونوں ملکوں کے صدور نے اپنے اپنے انداز سے کیا۔ صدر احمدی نژاد نے اس مسئلے کو نسبتاً وضاحت سے ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماحولیات کے مسئلے کو سنگین کرنے میں دنیا کے بڑے سرمایہ داروں کا ہاتھ ہے اور ان کے طرز عمل سے پورا گلوب خطرات کی زد میں ہے اور اسی مسئلے کی بنیاد پر دنیا میں خشک سالی، سیلاب، زلزلوں اور طرح طرح ماحولیاتی آلودگی کے سلسلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، جس سے انسانی زندگی کو حقیقی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
 
ایرانی صدر نے غیر جانبدار تحریک کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی جنرل اسمبلی سے بات کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 120 ممالک سے زیادہ نمائندوں نے ایران کو غیر جانبدار تحریک کے سربراہ کے طور پر منتخب کرکے اس پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو حال ہی میں دنیا بھر کے ممالک کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کے لیے منتخب کیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے اس انتخاب کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ یہ عالمی امن کے لیے ہمارے عزم کو ظاہر کرتا ہے اور یہ عالمی برادری کی طرف سے پاکستان اور اس کے سفیر حسین ہارون کے لیے ایک اعتماد کا ووٹ ہے۔
 
دنیا میں امیر اور غریب میں بڑھتے ہوئے فاصلے پر اور غربت و فقر میں ہونے والے اضافے کا بھی دونوں راہنماؤں نے ذکر کیا۔ ڈاکٹر احمدی نژاد نے اس مسئلے کو اعداد و شمار کی روشنی میں بیان کیا۔ جس سے دنیا میں رائج بے انصافی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
 
دونوں راہنماؤں کی بعض باتیں روح مطلب کے لحاظ سے ہم آہنگی کی حامل تھیں۔ عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے منافقانہ کردار کا ذکر مختلف انداز سے دونوں کی تقریروں میں ملتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے بڑے اچھے انداز سے افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودگی میں ہیروئن کی سمگلنگ میں ریکارڈ اضافے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی افواج کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں ہیروئن کی سمگلنگ گذشتہ دہائی میں تین ہزار فیصد بڑھ چکی ہے اور ہیروئن کی صنعت نے پورے سماجی نظام اور ہمارے معاشروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
 
انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے خطے میں نیز پوری دنیا میں دہشت گردی پر مبنی کارروائیوں کے لیے فنڈ ہیروئن کی سمگلنگ کے پیسوں سے مہیا کیے جاتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی اس بات میں معانی کی ایک دنیا آباد ہے۔ گویا وہ کہہ رہے تھے کہ ہیروئن کی پیداوار، اس کی سمگلنگ، اس کی ناجائز تجارت اور اس کے ذریعے سے ناجائز اسلحوں کی خرید و فروخت اور نتیجتاً عالمی سطح پر دہشت گردی سب کو گویا افغانستان میں موجود عالمی افواج کی سرپرستی حاصل ہے۔ اگر کسی ’’ذہین آدمی‘‘ کے نزدیک ان کی بات کا کوئی اور مطلب نکلتا ہے تو وہ ہمیں بھی سمجھا دے۔ ان کی انگریزی میں کی گئی تقریر سے متعلقہ جملے ہم من وعن نقل کر رہے ہیں:
 
As we embark on this ambitious transformative experience, we are aware that there are threats and pitfalls. One of them is the spread and illegal trade of heroin.
Despite the presence of international forces in Afghanistan, the size of the heroin trade has increased by 3000% in the last decade. The heroin industry is eroding the social fabric of our societies.
Terrorist activities within our region and indeed all over the world are funded and fueled by the unrestricted production and sale of illegal drugs. 

اسی پر بس نہیں صدر آصف علی زرداری نے پاکستان سے ڈو مور کی تکرار کا سنجیدگی سے نوٹس لیا، نیز امریکی ڈرون حملوں کی بھی واشگاف الفاظ میں مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری سرزمین پر ڈرون حملوں اور شہری آبادی کی اموات نے دلوں اور ذہنوں کو جیتنے کی ہماری جنگ کو پیچیدہ تر بنا دیا ہے۔ صدر احمدی نژاد نے بھی دنیا میں دہشت گردی کی وجوہات کا جائزہ لیا اور اپنی تقریر میں مختلف مقامات پر ان کی نشاندہی کی۔
 
دونوں راہنماؤں نے دنیا کے مستقبل کے حوالے سے نیک توقعات کا اظہار کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے اس سلسلے میں پاکستان کی سابق وزیراعظم اور اپنی مرحومہ شریک حیات بے نظیر بھٹو کی اقوام متحدہ میں کی گئی 1996ء کی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں انھوں نے کہا کہ میں تیسرے ہزارے میں امید کرتی ہوں کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا، ناخواندگی، بھوک، کرپشن اور بیماریوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ انھوں نے ایک ایسے مستقبل کے خواب کا بھی ذکر کیا کہ جس میں برداشت اور مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی ہو گی اور جس میں لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں گے۔ قومیں ایک دوسرے کا احترام کریں گی اور مذاہب ایک دوسرے کا احترام کریں گے۔
 
صدر احمدی نژاد نے اپنی تقریر کے خاتمے پر کہا کہ پائیدار امن وآشتی اور ساری انسانیت کے لیے سعادت مند زندگی کا قیام اگرچہ ایک عظیم اور تاریخی ذمے داری ہے، تاہم اس کا حصول قابل عمل ہے۔ خداوند مہربان نے اس سلسلے میں ہمیں تنہا نہیں چھوڑا اور ایسا ہونے کو حتمی قرار دیا ہے، کیونکہ ایسا نہ ہونا حکمت کے خلاف ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ ایک مہربان انسان جو عوام سے محبت رکھتا ہوگا اور مطلق عدالت قائم کرے گا اور جو انسان کامل ہوگا یعنی حضرت مہدی (عج)، حضرت عیسٰی (ع) اور دیگر صالحین کے ہمراہ ظہور فرمائیں گے۔ گویا ان کے ظہور کی خبریں انسانیت کے روشن مستقبل کی ضمانت کی حیثیت رکھتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 199288
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش