0
Tuesday 9 Oct 2012 09:52

شام ترکی تناؤ

شام ترکی تناؤ
 تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
شام مغربی ایشاء کا ایک اہم ملک ہے جس کی سرحدیں لبنان، ترکی، عراق، اردن اور اسرائیل سے ملتی ہیں۔ اس کا دارالحکومت دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے، جو بنو اُمیہ کی خلافت میں دارالحکومت اور مصر کے مملوک سلطانیٹ کا صوبائی دارالخلافہ تھا۔ شام پہلی جنگ عظیم کے بعد فرانسیسی نو آبادی بنا اور اپریل 1946ء میں آزاد ہوا۔ 1949ء سے 1971ء تک شام میں بہت بغاوتیں ہوئیں، 1970ء میں حافظ الاسد شام کے صدر بنے اور 30 سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کی۔
 
2000ء میں صرف 34سال کی عمر میں بشار الاسد نے آئین میں صدر کے لئے چالیس سال عمر کی شرط کو ختم کرکے شام کا عنانِ حکومت خود سنبھال لیا اور اس طرح وہاں ایک آمرانہ وراثتی حکومت پھر قائم ہو گئی، لیکن جلد ہی دمشق سپرینگ نے جنم لیا اور بشار الاسد کے مخالف سیاسی دھڑے اکٹھے ہونا شروع ہوگئے۔ مشرقِ وسطٰی کی عرب سپرنگ کی وجہ سے شام میں حکومت کے خلاف سیاسی محاذ آرائی اور تیز ہوئی تو حکومت نے اس کو سختی سے کچلنے کی کارروائی کی۔ اس خانہ جنگی میں جہاں تقریباً 3500 فوجی مارے گئے وہاں تقریباً 15 ہزار سویلین مرد، عورتیں اور بچے بھی ہلاک ہوگئے اور 30 ہزار مہاجرین اس وقت صرف ترکی میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔
 
ایک وقت تھا کہ ترکی، شام اور اسرائیل میں معاملات سدھارنے پر لگا ہوا تھا، لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ اب ترکی اور شام دونوں مسلمان ممالک ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ترکی کے صدر اردگان نے کہا ہے ’’ہم شام سے جنگ نہیں چاہتے لیکن بدقسمتی سے ہم جنگ کے قریب ہیں، شام ہمارے صبر کو نہ آزمائے اور حالات کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش کرے۔‘‘
شام اسرائیل سے بھی کئی لڑائیاں لڑ چکا ہے۔1967ء میں اسرائیل نے گولان پہاڑی سلسلے کے دو تہائی حصہ پر قبضہ کر لیا جو ابھی تک جاری ہے۔ 1976ء میں شام نے لبنان پر قبضے کی بھی کوشش کی، لیکن 2006ء میں لبنانی سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد محاذ آرائی رک گئی۔
 
شام ایک زرعی ملک ہے، جہاں تیل، صنعت اور ٹورازم بھی حکومت کی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ شام کی آبادی تقریباً 2کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ ترکی ایک یور ایشین ملک ہے، جس کاتقریباً 3 فیصدی حصہ یورپ اور باقی 97 فیصدی رقبہ ایشاء میں ہے۔ اس کی آبادی کوئی ساڑھے سات کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ ترکی میں اسلامسٹ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے، جس کے رہنما ڈاکٹر طیب اردگان ہیں، جو اب تیسری بار پارلیمنٹ کی 550 نشستوں میں سے 326 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے وزیراعظم بنے ہیں اور پچھلے دس سالوں سے حکومت کر رہے ہیں۔
 
اردگان ایک بین الاقوامی سطح کے نڈر، اہل اور دیانتدار مدبر مانے جاتے ہیں، جو اپنے ملک میں بھی اپنی عوام دوست پالیسیوں اور عسکری قیادت کے اثرو و رسوخ کو آئین کے تابع کرنے کی وجہ سے ہر دل عزیز ہیں۔ سوچا یہ جا رہا تھا کہ مسلم دنیا کے وہ واحد رہنما ہیں جو اس مشکل گھڑی میں نہ صرف عرب دنیا بلکہ پوری مسلم اُمہ میں اتحاد پیدا کرسکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اُن کو شام کی خانہ جنگی میں الجھنا پڑ رہا ہے۔ جس سے اردگان کے تشخص کو مسلم دنیا میں نقصان پہنچ سکتا ہے۔
 
چونکہ اب جبکہ مسلم ریاستوں میں دو دھڑے بن چکے ہیں، جن میں ایک طرف ایران، شام اور لبنان ہیں، جن کو روس اور چین کی ہمدردیاں حاصل ہیں تو دوسری طرف سعودی عریبیہ، بحرین، قطر، اُردن، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک شامل ہیں، جن کو امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پاکستان، انڈونیشیا اور ملیشیاء جیسے بہت سے مسلمان ممالک کو شام میں بشارالاسد کی بعث پارٹی کی پالیسیوں سے شدید اختلافات کے باوجود یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ ترکی ان دھڑوں میں صلح کروانے کی بجائے شام کی حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ 

شام کی حکومت کے سیاسی مخالفین نے جو بیرون ملک اپنی حکومت بنائی ہوئی ہے، اس کا ہیڈ کوارٹر بھی استنبول میں ہے اور ترکی کے وزیراعظم اردگان نے اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے خطاب میں بھی شام کے مسئلے کا حل پیش کرنے اور شام میں بیرونی مداخلت کی مذمت کرنے کی بجائے، شام کی حکومت کو ہی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے یہ تاثر عام ہے کہ ترکی اب امریکہ اور یورپ کو خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ 

اسلامی دنیا کے دانشوروں کی رائے میں ترکی کی شام سے لڑائی بہت بڑی بدنصیبی ہوگی۔ امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں نے پہلے عراق اور ایران کو آپس میں دس سال تک لڑا کر اُن کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ پہلے امریکہ رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں ایران کو اس خطے میں اپنا قریب ترین اتحادی سمجھتا تھا، لیکن شہنشاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد امریکہ نے ایران، عراق جنگ میں زور و شور سے صدام حسین کی مدد کی، پھر صدام کو قتل کرکے کٹھ پتلی حکومت قائم کرلی۔
 
اب اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ امریکہ، ایران پر حملہ آور ہو۔ خوش قسمتی سے اُوباما کی امریکی حکومت افغانستان میں شکست سے دو چار ہونے کے بعد عجلت میں ایران پر یلغار کرنا نہیں چاہتی، لیکن بدقسمتی سے اگر شام اور ترکی کے درمیان محاذ آرائی نے جنگ کی شکل اختیار کر لی، تو اس سے مسلم دنیا کا بہت نقصان ہوگا اور یہ جنگ تیسری جنگِ عظیم میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس لئے جہاں شام کے حکمرانوں کو ہوش سے کام لیتے ہوئے اپنے ملک کے اندرونی حالات کو جمہوری انداز میں صبر و تحمل سے حل کرنا چاہیے، وہاں مغربی طاقتوں کو چاہیے کہ اپنی غیر قانونی بیرونی مداخلت کے ذریعے Regime Change کی پالیسی ترک کر دیں۔ 

شام کی سویلین آبادی کو حکومتی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو مار گرانے والے میزائل دے کر حالات پر قابو نہیں پایا جا سکتا، بلکہ مسائل اور گھمبیر ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی ترکی کو ایک مدبرانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے، جو جنگ کے شعلوں کو ہوا دے۔ ترکی کی پارلیمنٹ نے ابھی تک شام کے خلاف صرف ملٹری آپریشن کی اجازت دی ہے۔ اعلانِ جنگ نہیں کیا لیکن ترک عوام حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے’’NO WAR‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اس وقت ساری مسلم دنیا میں کوئی بھی بڑے قد کاٹھ والا ایسا مدبر، رہبر موجود نہیں، جو حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی بصیرت رکھتا ہو اور مسلم ریاستوں کے آپس میں ٹکراؤ کو روک سکے۔ یہ ذمہ داری ترکی کے وزیراعظم ڈاکٹر طیب اردگان کو پوری کرنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 201693
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش