0
Thursday 11 Feb 2010 09:59

اسلامی جمہوریہ ایران کا یوم تاسیس

اسلامی جمہوریہ ایران کا یوم تاسیس
 ڈاکٹر آفتاب اصغر 
ہمارے دیوار بدیوار ہمسایہ اور برادر ملک،ایران کے جشن دہۂ فجر یا جشن عشرۂ انقلاب سے مراد 12بہمن (یکم فروری) اور 22 بہمن(10فروری) 1979ء کے درمیان وہ دس روز ہیں جب ایران کے جمہوریت پسند عوام روز بروز پیشقدمی کرتے اور امریکی ایجنٹ شہنشاہ آریا مہر (ایرانیوں کے بقول شہنشاہِ بے مہر) پہلوی کی عساکرِ قاہرہ کے زر خرید جنرل پسپا ہوتے رہے۔ یکم فروری 1979ء وہ دن تھا جس کی صبح کو ایران میں اسلامی انقلاب کے رہبر عالی قدر آیت اللہ العظمیٰ، امام خمینی رہ، نے پندرہ سالہ جلاوطنی کے بعد ایران کے پایۂ تخت تہران کے فرودگاہ مہر آباد (مہر آباد ایئرپورٹ) پر قدم رکھا تھا۔
برطانیہ کا دست پروردہ رضا شاہ پہلوی اور امریکہ کا ساختہ و پرداختہ اس کا بیٹا محمدرضا شاہ پہلوی پچپن سال میں اپنی بے پناہ عسکری قوت کے باوجود ایرانی عوام کے دل نہ جیت سکے،لیکن زبردستی جلاوطن کئے جانے والے امام خمینی رہ نے محض اپنی اخلاقی قوت سے جمہور ایران کے دلوں کو مکمل طور پر فتح کر لیا۔ سارے ملک میں شاہ کی بجائے امام خمینی رہ کے احکام چلنے لگے۔آج سے 31 سال پہلے ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہر ’’مرگ بر شاہ‘‘ مرگ بر آمریکا، شاہ نمی خواھیم، قرآن کمی خواھیم، اللہ اکبر، خمینی رہبر‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھے۔تہران میں آیت اللہ طالقانی اور دیگر علمائے کرام کی قیادت میں کم و بیش بیس لاکھ افراد کا جلوس نکلا،جس نے شہنشاہ ایران کی سطوت و صولت کا جنازہ نکال دیا۔یہ جلوس نظم و ضبط کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھا۔
دسمبر 1978ء میں شاہ ایران اور امام خمینی رہ کے درمیان آخری معرکہ اس وقت شروع ہوا جب ایک سرکاری اخبار’’اطلاعات‘‘ نے امام کی کردار کشی کر کے جلتی پر تیل ڈالا۔شاہ اور اسکے کاسہ لیس ٹولے کیخلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔ایک بار پھر ظلم و ستم کی وہی 1963ء والی داستان دہرائی گئی جب شاہ کے حکم پر اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے پہلے تو انہیں سزائے موت سنائی اور پھر امریکہ اور شاہ کے ایماء پر زبردستی جلاوطن کر کے ہمسایہ ملک ترکی کا ’’مہمان‘‘ بنا دیا۔وہ دو سال بعد 1965ء میں ترکی سے عراق اور عراق سے فرانس میں مقیم ہو گئے۔اس پندرہ سالہ جلاوطنی کے دوران وہ ملک سے باہر بیٹھ کر مسلسل اپنے پیروکاروں کی راہنمائی کرتے رہے۔
ایران کے سرکاری روزنامہ ’’اطلاعات‘‘ میں امام خمینی رہ کیخلاف شائع ہونیوالے توہین آمیز مضمون کیخلاف احتجاج کرنے کیلئے لاکھوں مظاہرین سہ راہِ ژالہِ میں اکٹھے ہو گئے۔امریکہ اور شاہ کے وفادار بہائی جرنیلوں کے حکم پر فوج نے اپنے ہی ہموطنوں کا وہ حشر کیا جو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں محصور حریت پسندوں کا جنرل ڈائر نے یا برطانوی فوج نے 1912ء میں مسجد کانپور میں اور ماضی قریب میں ’’بے شرف‘‘ کے حکم پر اسلام آباد کی لال مسجد میں محصور ’’دہشت گردوں‘‘ کا کیا گیا تھا۔مظاہرین پر ٹینک چڑھا دیئے گئے اور ان کو تینوں اطراف سے گھیر کر مشین گنوں سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی جس کے نتیجہ میں اپنی ہی فوج کے ہاتھوں سینکڑوں شہید اور ہزاروں زخمی ہو گئے۔
اپنے خلاف عوامی سیلاب کو روکنے کیلئے شہنشاہ نے بطور سپریم کمانڈر جنرل اظہری کو چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ہی ساتھ وزارتِ عظمیٰ کا منصب بھی سونپ دیا۔ جنرل اظہری نے اسکے تاج و تخت کو بچانے کیلئے بڑے ہاتھ پائوں مارے لیکن ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘۔ اس نے مارشل لا لگانے کے بعد اعلان کیا کہ ایران پر میری حکومت ہے اور میں شہنشاہ کا آلۂ کار نہیں ہوں۔اس نے شہنشاہ کے دستِ راست اور سابق وزیراعظم ہویدا اور متعدد بدنام و بد کردار سیاستدانوں کو گرفتار کر لیا۔امام خمینی رہ کی منت خوشامد کر کے انہیں وطن واپس لانے کیلئے بار بار اپنے نمائندے پیرس بھیجے۔یہاں تک کہ انہیں اپنی جگہ وزیراعظم بنانے کا بھی لالچ دیا۔لیکن ان کی ایران واپس آنے کیلئے بس ایک ہی شرط تھی اور وہ یہ تھی کہ طاغوت (شہنشاہ) ایران سے چلا جائے۔ شہنشاہ کو نوشتۂ دیوار نظر آرہا تھا لیکن وہ بضد تھا کہ:’’ہم ایران نہیں چھوڑیں گے‘‘، جبکہ خمینی صاحب کا فرمانا تھا:’’ہم شہنشاہ کو ایران چھوڑنے پر مجبور کر دیں گے۔‘‘
علامہ اقبال کا فرمان ہے:’’چون پختہ شدی خود را بر سلطنتِ جم زن‘‘ (جب تو پختہ کار ہو جائے تو سطنتِ جم پر چڑھ دوڑ)۔ 1978ء کی یکم محرم کو امام خمینی رہ نے اپنے پختہ کار پیروکاروں کو انہدام پذیر نظام پادشاہی پر آخری ضرب لگانے کا فرمان صادر کر دیا۔ 10محرم کو شاہ مخالف مظاہروں کا سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔انہوں نے اس دن کو بادشاہت اور اسلامی جمہوریت کے مسئلہ پر ہمہ پرسی (ریفرنڈم) قرار دیا۔بیس پچیس لاکھ مظاہرین نے،جن میں ہزاروں باحجاب (باپردہ) خواتین بھی شامل تھیں،اسلام شاہ ندارد‘‘ (اسلام میں بادشاہت نہیں ہے) اور ’’زندہ باد جمہوری اسلامی‘‘ (اسلامی جمہوریہ زندہ باد) کے فلک شگاف نعرے لگا کر شہنشاہ کے خلاف اور امام خمینی کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا۔
یہ صورتحال دیکھ کر امریکی آلۂ کار شہنشاہ کو یقین ہو گیا کہ اب اسکے اقتدار کے دن گنے جا چکے ہیں اور اب اسکے پاس اسکے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح ایران سے فرار ہو کر اپنے آقا امریکہ کے سایۂ عاطفت میں پناہ لے لے۔ اس کا خفیہ ایجنسی کا سربراہ جنرل اویسی پہلے ہی فرار ہو چکا تھا۔جانے سے پہلے شہنشاہ نے ایک ارب ڈالر ایک امریکی بنک میں منتقل کئے اور جنرل غلام رضا اظہری کی جگہ سیکولر جماعت جبہۂ ملی (نیشنل فرنٹ) کے شاہ پور بختیار کو وزیراعظم بنا دیا تا کہ وہ اسکی ’’پالیسیوں(امریکہ کی اطاعت و فرماں برداری) کے تسلسل کو برقرار‘‘ رکھ سکے اور امریکی آلۂ کار بہائی جرنیلوں کی مدد سے تحریک انقلاب اسلامی کو ناکام بنا کر اپنی واپسی کی راہ ہم وار کرسکے۔ آخر کار 16 جنوری 1979ء کی صبح کو جب اسکے نامزد وزیراعظم شاہ پور بختیار نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا تو اس نے علاج کے بہانے امریکہ کی راہ لی اور جہاز میں سوار ہونے سے پہلے کہا:’’میری غیر موجودگی میں بادشاہت کی حفاظت کی جائے‘‘۔ اسکے فرار کی خبر نشر ہوتے ہی ایران کے طول و عرض میں مسرت و انبساط کی لہر دوڑ گئی۔ امام خمینی رہ نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:’’محمد رضا کا فرار پہلوی آمریت کیخلاف عوام کی کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ مناسب وقت پر میں ایران جا کر عبوری حکومت قائم کروں گا جو اسلامی بنیادوں پر کام کریگی‘‘
امام خمینی رہ نے پیرس سے اعلان کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو وہ یکم فروری 1979ء کو تہران پہنچ رہے ہیں۔ شاہ پور بختیار نے کہا کہ حکومت انکی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتی اس لئے وہ فی الحال ایران واپسی کا پروگرام ملتوی کر دیں۔ ایک روز پہلے تمام ہوائی اڈے بند کر دیئے گئے۔جنرل عباس نے طہران کے مہرآباد کے ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا لیکن اگلے ہی روز لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کی بازی لگا کر فوج کو ہوائی اڈہ خالی کرنے پر مجبور دیا۔
مذکورہ تاریخ کو پاکستانی وقت کیمطابق صبح دس بجکر بتیس منٹ پر طیارہ رن وے پر اترا۔ امام خمینی رہ طیارے سے باہر آئے تو فضا ’’اللہ اکبر،خمینی رہبر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔انہوں نے اعلان کیا کہ شاہ پور بختیار کی حکومت غیر قانونی ہے اور وہ بہت جلد اسلامی جمہوریۂ ایران کی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کرینگے۔شاہ پوربختیار نے کہا کہ ’’فوج میرے ساتھ ہے اور میں متوازی حکومت برداشت نہیں کروں گا۔‘‘ امام خمینی رہ نے انقلابی کونسل قائم کر کے مہدی بازرگان کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا۔عوام نے عبوری حکومت کی حمایت اور شاہ پور کی حکومت کی مخالفت میں جلوس نکالے۔8 فروری کو شاہ پور بختیار نے اپنے مخالفین کو پوری شدت سے کچل دینے کا حکم دیا۔ امام خمینی رہ نے اعلان کیا کہ تمام فوجی میرے بچے ہیں اور وہ میرے خلاف شاہ پور کی غیر قانونی حکومت کا ساتھ نہ دیں۔اس اعلان کے بعد فوجیوں نے بھی عوام کا ساتھ دیا اور عوامی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
11 فروری 1979ء کو امریکی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے والے شہنشاہ کے مجسمے سرنگوں کر دیئے گئے اور تمام فوجی تنصیبات اور سرکاری عمارات پر اسلامی جمہوریۂ ایران کے پرچم لہرا دیئے گئے۔شاہ پور بختیار روپوش ہو گیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل رحیمی کو دست بستہ امام خمینی رہ  کے حضور میں پیش کر دیا گیا۔سب سے پہلا ملک جس نے اسلامی جمہوریہ ایران کو تسلیم کیا پاکستان تھا۔جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کی مطلق پرواہ نہ کی اور پاکستانی قوم کے جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے ایران کے اسلامی انقلاب کے عظیم المرتبت راہبر کو تبریک و تہنیت اور خیرسگالی کا حسب ذیل پیغام ارسال کیا:
’’آپ کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کی تاریخی فتح پر میں انتہائی مسرت و احترام کے ساتھ اپنی حکومت اور…مسلمانانِ پاکستان کی طرف سے آپ کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔‘‘ 
draftabasghar@hotmail.com
خبر کا کوڈ : 20232
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش