2
0
Thursday 11 Oct 2012 09:41

خوش قسمت ملالہ یوسفزئی

خوش قسمت ملالہ یوسفزئی
تحریر: تصور حسین شہزاد

اس وقت پاکستان کے میڈیا کے پاس بالخصوص اور عالمی میڈیا کے پاس بالعموم ملالہ یوسفزئی پر حملے کے علاوہ کوئی بڑا ایشو نہیں۔ سوات کی 14 سالہ طالبہ ملالہ یوسفزئی، طالبان دور میں فرضی نام سے بی بی سی کو ڈائری بھیجتی رہی اور طالبان سے اختلاف کو اُس نے اپنے انداز میں پیش کیا۔ اس پر ملالہ کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی، اُسے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا اور طالبان کو بے نقاب کرنے پر پوری دنیا میں اس کی واہ واہ ہوگئی۔

نجانے یہ حملہ طالبان نے کیا بھی ہے یا نہیں، لیکن اس ’’کارنامے‘‘ کو بھی طالبان کے کھاتے میں ڈال کر انہیں وحشی، درندے، جنگلی، انسانیت کے دشمن، انتہا پسند اور نہ جانے کیا کیا القابات سے یاد کیا جا رہا ہے۔ یہ القابات طالبان کے لئے کون سے نئے ہیں۔ طالبان تو ان القابات سے بھی بہت آگے کی کوئی چیز ہیں، ان کے کردار کو ’’پورٹریٹ‘‘ کرنے کے لئے نئی اصطلاحات ایجاد کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کے مظالم کو آشکار کرنے کیلئے لغت کے موجودہ الفاظ بونے دکھائی دیتے ہیں۔

ملالہ پر حملہ کیا ہوا، پاکستانی میڈیا کی شہ سرخیوں میں اسے بھرپور سے بھی بڑھ کر کوریج دی گئی۔ اخبارات کی اکثریت نے اس کو ’’لیڈ نیوز‘‘ کے طور پر شائع کیا۔ ہر اخبار نے ملالہ یوسفزئی کو صفحہ اول پر نمایاں ترین کوریج سے نوازا۔ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے ملالہ پر حملے کی مذمت کی۔ تمام رہنماؤں نے ملالہ سے اظہار یک جہتی کیا اور طالبان کو بھرپور انداز میں ملامت کی۔ یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں بلکہ بیانات کی توپوں کے رخ اسی ایشو کی جانب ہو چکے ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ پورے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات افتخار حسین نے تو ملالہ پر حملے میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے والوں کے لئے ایک کروڑ روپے انعام دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ رسول (ص) کی شان میں گستاخی کرنے والے ملعون کے لئے انعام کا اعلان کرنے پر غلام احمد بلور کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جانے والوں نے ایک لڑکی کے لئے کروڑ روپے کا اعلان کر ڈالا۔ پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل کیانی اپنی مصروفیات چھوڑ کر ہسپتال پہنچ گئے اور ملالہ کی عیادت کی۔ آئی ایس پی آر نے بھی مذمتی بیان جاری کر دیا اور حملہ آوروں کی سوچ کی طرف توجہ دلائی کہ ان کے نزدیک انسانیت کس قدر ارزاں ہے اور وہ اپنا طرزعمل نافذ کرنے کے لئے کیا عزائم رکھتے ہیں۔

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں حضور اکرم (ص) کی اس حدیث کا بھی حوالہ دیا ہے کہ جس میں آپ(ص) نے فرمایا ’’جو بچوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ گویا آئی ایس پی آر نے بھی تصدیق کر دی کہ طالبان امت محمدی میں سے نہیں، یا ان کا دین محمدی سے کم از کم کوئی تعلق نہیں۔ یہاں امریکہ بھی خاموش نہیں رہا اور اس کی وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے اپنا صدارتی الیکشن فراموش کرکے ملالہ پر حملے کی مذمت کر ڈالی اور ساتھ ہی ہیلری کلنٹن نے بھی حملے پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے ظالمانہ اقدام قرار دیا۔

عالمی انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنا ’’حق‘‘ ادا کر دیا۔ ایمنسٹی نے نئی بین بجائی کہ اس حملے سے واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں حقوق کے لئے آواز اٹھانے والوں اور بالخصوص خواتین اور بچوں کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ حملہ آور پاکستان کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں۔ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے تو اس کو غیر اسلامی اقدام قرار دیا ہے، گویا طالبان اس سے قبل جو کر رہے تھے وہ اسلامی تھا۔؟

پاکستان میں کوئی بھی ایسا شخص، تنظیم، گروہ یا جماعت نہیں جو ملالہ کے لئے دکھ کا اظہار نہ کر رہی ہو۔ ایسے لگ رہا ہے کہ یہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ نہیں ہوا بلکہ پینٹاگون پر حملہ ہو گیا ہو یا نائن الیون جیسا کوئی واقعہ رونما ہو گیا ہو ۔۔۔۔ ہر طرف ملالہ کا ازالہ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہر کوئی مطالبہ کر رہا ہے کہ مجرموں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جائے اور عبرت ناک سزا دی جائے۔

اخبارات کا پلندہ میرے سامنے پڑا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ 14 سالہ ملالہ یوسفزئی کتنی خوش قسمت ہے کہ اس پر ایک حملہ ہوا ہے اور پوری دنیا میں کہرام مچ گیا ہے، جبکہ اس کے برعکس ایک مکتب فکر کے 14،14 بندے بسوں سے اتار کر گولیوں سے موت کی وادی میں دھکیل دیے جاتے ہیں لیکن ان پر نہ تو میڈیا میں کوئی پھونچال اٹھتا ہے، نہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو کچھ خبر ہوتی ہے اور نہ عالمی برادری ٹس سے مس ہوتی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لاشوں پر لاشوں کے تحفے ملتے ہیں۔ روز کہیں نہ کہیں سے، کوئی نہ کوئی خبر، لہو رنگ شائع یا نشر ہو جاتی ہے، لیکن ملک کی اعلٰی ترین عدلیہ کا چیف جسٹس کہتا ہے میں ازخود نوٹس تو نہیں لے سکتا، البتہ کیس دائر کریں تو سماعت کا سوچا جاسکتا ہے۔

14 سالہ ملالہ کتنی خوش قسمت ہے کہ اس کے علاج کے لئے پوری حکومتی مشینری حرکت میں آ چکی ہے۔ اسے اچھے علاج کے لئے بیرون ملک لے جانے کے لئے بھی خصوصی طیارے کا انتظام کر لیا گیا ہے، لیکن بدقسمت ہے وہ قوم جس کے افراد کو بیچ بازار قتل کر دیا جاتا ہے اور کوئی لاش ہسپتال پہنچانے والا نہیں ملتا۔ پاکستان میں تو اس قوم کے افراد کا قتل ہونا ایسا ہے جیسے خزاں رسیدہ درخت سے کسی پتے کا ٹوٹ کر گر جانا، کہ جس کا کبھی کسی کو دکھ تک نہیں ہوتا۔ کاش کوئی تو ہوتا جو اس خزاں رسیدہ قوم کی قسمت میں بہار کے جھونکے ہی لکھ دیتا۔ کاش کوئی تو ہوتا جو اس قوم کے افراد کی لاشوں کی قدر بتلا سکتا۔

خوش قسمت ہے زخمی 14 سالہ ملالہ یوسفزئی، جو 14، 14 افراد کی لاشوں پر بھی بھاری ہے۔ کہتے ہیں انسان اپنا وزن خود بناتا ہے۔ فرضی نام سے ڈائریاں لکھنے والی 14 سالہ بچی نے اپنا وزن بنا کر پوری دنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجا دیا اور اِدھر پاکستان بنانے والی قوم ہے کہ جس کو پاکستان میں بھی سکون نہیں لینے دیا جا رہا۔ کہتے جن قوموں میں خودی مر جائے اور وہ اپنے اپنے بت بنا کر ان کی پوجا شروع کر دے تو اس کا انجام ایسا ہی ہوا کرتا ہے، جو پاکستان میں ملت تشیع کا ہے۔ قسمت انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ بس اس کا ادراک کرنے کیلئے شعور کی ضرورت ہے، کیونکہ ہر کوئی ملالہ یوسفزئی کی طرح خوش قسمت کہاں ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 202638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سچ بات کی ہے آپ نے ۔میں آپ کی بات سے اتفاق کرنا ھون اور صرف اس شعر پر ہی اکتفا کرنا ھون۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔۔نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
bahi hum bhi ajj is say zayada khush qesmat ho sakaty hean kay hum kise aur kay isharoon par chalean humare hakomat ko sharm ane chae ajj bhi karachi main shiat say taluq rakhnay walay nojawanoon ke lashean gerea gean magar media khamosh ha lannat ha asay media par jo wo bola ha jo totay ke tarah us ko ratwa dya jata ha
ہماری پیشکش