0
Thursday 11 Oct 2012 14:36

شام میں خانہ جنگی اسرائیل کے مفاد میں

شام میں خانہ جنگی اسرائیل کے مفاد میں
تحریر: نصرت مرزا 
 
 روسی قونصل جنرل آندرے ڈیمیڈوف نے شام کے معاملے میں اپنی ایک حالیہ بریفنگ میں کہا کہ روس دوسرے ملک میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف ہے اور شام میں غیر ملکی مداخلت ہو رہی ہے۔ ایک سوال کیا گیا کہ یی نون منصوبے (فروری 1982ء) کے تحت ملک شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنا ہے، تاکہ مشرق وسطٰی میں اسرائیل سے بڑی کوئی ریاست موجود نہ رہے، اس پر آندرے کا کہنا تھا کہ اگر شام کو تقسیم کیا جاتا ہے تو پھر فائدہ اسرائیل کو ہی ہوگا اور فلسطین کی آزادی کا خواب کم ہو کر رہ جائیگا، ہم وہاں امن قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا میں کس قدر درندگی کا مظاہرہ کیا گیا، قذافی کی لاش پر کھڑے ہو کر قہقہے لگائے گئے، مگر پھر اسکے مضمرات بھی دیکھنے کو ملے۔
 
یہ بریفنگ اس وقت ہوئی جب روسی وزیر خارجہ پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ڈرون حملوں کو پاکستان کی سالمیت اور علاقائی خود مختاری کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ کسی بھی ملک کی خود مختاری کے خلاف ہر اقدام کی مذمت کرتے ہیں اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے کردار ادا کرنے کا عزم کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ عالمی معاملات پر دونوں ممالک کا موقف یکساں ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی روس کے دورے پر ہیں، اس طرح روسی صدر کے دورہ پاکستان کا ازالہ ہوگیا۔ 

روس نے پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فوری طور پر اپنے وزیر خارجہ کو پاکستان کے دورے پر بھیجا اور پاکستان میں طاقت کے ایک اہم محور کو روس کے دورے پر آنے کی دعوت دی، اس وجہ سے روسی وزیر دفاع نے بھارت کا دورہ ملتوی کر دیا، جس سے بھارت جو روسی صدر کے دورے کے ملتوی ہونے پر شادیانے بجا رہا تھا، حیرت زدہ ہوکر رہ گیا۔ روسی صدر نے آذربائیجان کا دورہ بھی ملتوی کیا، اس طرح پاکستان کے فوجی سربراہ کے دورے کی اہمیت کو دو چند کر دیا۔ 

ماضی قریب میں روس نے دنیا میں ایک کھلاڑی کے طور پر کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے، روس نے لیبیا کے واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے، امریکہ و اسرائیل کے مشرق وسطٰی کے ٹکڑے کرنے کی منصوبے کی راہ میں حائل ہونا شروع کر دیا ہے۔ یی نون منصوبہ کے تحت جہاں شام کو تین آزاد ریاستوں میں تقسیم کرنا ہے، تو لبنان کو پانچ ریاستوں میں اور عراق کو تین آزار ریاستوں میں ٹکڑے کرنا ہے، شیعہ، سنی اور کُرد ریاست۔ اسی طرح ایران اور پاکستان کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تبدیل کرنے کا پروگرام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس، ایران کا ساتھ دے رہا ہے اور ایران پر اسرائیلی حملے کا سخت مخالف ہے۔
 
جبکہ امریکہ ترکی اور شام کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ شام کے اندر ”فری سیرین آرمی“ FSA کو مالی اور اسلحہ سے مدد کر رہا ہے، جس کی وجہ سے سویلین اموات بڑھ رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ شام کی علوی ریاست غیر مقبول ہے اور اقلیتی گروپ کی نمائندگی کرتی ہے اور وہاں کے سنّی غریب اکثریت اس کا نشانہ ہے، مگر اس وقت شام میں عدم استحکام کرنے کا مقصد سنیوں کو فائدہ پہنچانا نہیں ہے، بلکہ صیہونی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے، اس لئے ترکی جو ہمارا دوست ہے کو یہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ تدبر کا مظاہرہ کرے کہ وہ تین خطرات میں گھر گیا ہے۔
 
حکومت میں فوج کی واپسی، کُرد علاقہ کی علیحدگی اور فوجی ناکامی اس کے لئے ترکی فوج اس وقت لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس کے پچاس جنرل نکال دیئے گئے ہیں۔ فو ج کے کینہ کو اونٹ کے کینے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ترکی کے ایئر اور نیوی چیف پر مقدمہ قائم کرکے سزا دلائی ہے۔ پھر ترکی میں عبداللہ گل اور طیب اردگان میں سیاسی کشمکش چل رہی ہے۔ شام نے کُرد آزادی کی تنظیم ”کردش ورکرز پارٹی“ جو ترکی میں چھاپہ مار جنگ میں ملوث ہے، کو ترکی کے خلاف کارروائی کے لئے اپنا شمالی علاقہ کُردوں کے حوالے کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ترکی کے خلاف کُرد حملوں میں شدت آئی ہے۔

پھر شام نے 30 ستمبر کو ترکی کے گاؤں اکاکیلے پر مارٹر سے حملہ کیا، جس سے کئی اموات ہوئیں، اس سے پہلے ترکی کا ایک جیٹ طیارہ بھی گرالیا گیا تھا۔ ہمارے خیال میں امریکہ اور اسرائیل نے ترکی کی اسلامی حکومت کے خلاف ایک پھندا لگا دیا اور اسے مشکلات کا شکار کر رہا ہے، اس لئے ان کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا چاہئے اور اس بھربھری ریت کے دلدل سے نکل آنا چاہئے۔ طریقہ کار وہی ہوسکتا ہے جو رابطہ گروپ جس میں ترکی، سعودی عرب، ایران اور مصر شامل ہیں۔ اس میں چار باتوں پر اتفاق ہوا، اگرچہ سعودی وزیر خارجہ مصر میں ہونے والے اجلاس سے غیر حاضر رہے مگر، جن باتوں پر اتفاق ہوا وہ یہ کہ 
(1) ہنگامہ آرائی کا خاتمہ 
(2) غیر ملکی مداخلت کو روکنا 
(3) شام کو ملک کے طور پر قائم رکھنے پر اتفاق 
(4) شام میں سیاسی یکجہتی۔
 
اگرچہ تین نکات پر تو اتفاق ہوسکتا ہے مگر چوتھے پر کیسے ہوگا، جب کہ وہاں جنگ چل رہی ہے، مگر اچھی بات یہ ہے کہ ایران اور مصر کے درمیان تعلقات پائیدار ہوگئے ہیں اور ترکی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ضرورت کا ایک تہائی تیل ایران سے خریدتا ہے اور ایران اور ترکی کے درمیان 15 بلین ڈالرز کی تجارت ہوتی ہے۔ سعودی عرب شام کے معاملے میں ایران کی اس شرط پر ساتھ دینے کو تیار ہے کہ وہ اس کے مشرقی صوبے میں بغاوت کرانے سے باز آجائے۔ 

سعودی عرب میں کئی طاقتیں موجودہ بادشاہت کیخلاف کام کر رہی ہیں، جن کو امریکہ، مغرب اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، اسلئے وہ کسی بڑے جنگی معرکے میں ملوث ہونا نہیں چاہتا۔ ایران جنگ بندی کی بے انتہا کوشش کر رہا ہے۔ اس لحاظ سے اگر معاملات کو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو شام کا معاملہ مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے، جس کی روس، چین اور دوسرے ممالک کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کیلئے یہ آسان نہ ہوگا کہ وہ شام پر اپنی مرضی کے فیصلے تھوپ دیں۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 202677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش