0
Thursday 11 Oct 2012 10:30

13 سالوں میں ہوگو شاویز کی سولہویں انتخابی فتح

13 سالوں میں ہوگو شاویز کی سولہویں انتخابی فتح
تحریر: منو بھائی
 
معاف کیجئے گا، ابتدائی جملے کچھ زیادہ طویل ہوسکتے ہیں، کیونکہ بیسویں صدی عیسوی کے آخری سال 1999ء میں پہلا عام انتخاب جیتنے والے وینزویلا کے سابق فوجی صدر اور نام نہاد عالمی اشراکیت یا ”سٹالن ازم“ کی مبینہ وفات کے بعد لاطینی امریکہ میں ابھرنے والی سوشلزم کی نئی جمہوری یا انتخابی لہر کے محرک سربراہ ہوگو شاویز مغربی میڈیا کی خوفناک ترین تشہیری مہم، عالمی سرمایہ داری نظام اور بیمار سپر پاور امریکہ کی سرتوڑ مخالفت، مونگ پھلی کے عالمی شہنشاہ اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی قیادت میں برپا کی جانے والی مہلک سازشوں کے باوجود سات اکتوبر کو بروز اتوار اپنے اقتدار کے تیرہ سالوں میں منعقد کئے جانے والے پندرہویں عام انتخاب میں پوری دنیا کی نگران آنکھوں اور عالمی میڈیا کے کھلے کیمروں کے سامنے واضح اور نمایاں طور پر کامیاب قرار دیئے گئے ہیں۔
 
وینزویلا ہی وہ ملک تھا کہ جہاں اپنے زمانے کی دنیا کی سونے کی چڑیا ہندوستان کو دریافت کرنے کی کوشش میں کولمبس اور ان کے ساتھیوں نے اپنے سمندری بیڑے کو لنگر انداز کیا تھا اور امریکہ کو دریافت کیا تھا اور وینس سے جغرافیائی مشابہت رکھنے کی وجہ سے اس ملک کی وینزویلا یعنی ”وینس جیسا“ کا نام دیا تھا۔ 

ہمارے بہت سے بائیں بازو کے افلاطونی دانشوروں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے حاصل ہونے والے تلخ تجربے کی بناء پر اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ مغربی سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے وینزویلا کے ہوگو شاویز ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور ان کا انجام بھی اپنے پیش رو بھٹو شہید کی طرح پھانسی کی کوٹھڑی یا پھانسی کے پھٹے کے نیچے ہوگا۔ ان کے خلاف امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے نے بھی کچھ ایسا ہی منصوبہ تیار کیا تھا، بلکہ ہوگو شاویز کو گرفتار کروا کر وہاں کے فوجیوں کے حوالے کیا تھا کہ وہ ان کو کیفر کردار تک پہنچا دیں، مگر وینز ویلا کے فوجیوں نے اپنے سابق فوجی کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنے کی بجائے پھولوں کے ہار ڈال دیئے اور انہیں دوبارہ ایوان صدر میں پہنچا دیا گیا۔
 
ہوگو شاویز نے وینزویلا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وہاں کے غریب عوام کے مسائل پر توجہ دینے کا اعلان کیا، مگر محض اعلان نہیں کیا، عملدرآمد کا عملی ثبوت بھی فراہم کیا۔ غریب عوام اور محنت کش طبقے کی توجہ اور ہمدردی حاصل کی اور اس طبقے کی توجہ اور ہمدردی کے بل بوتے پر برسرعام امریکہ کی مخالفت کا علم بلند کیا، بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی امریکی حکمرانوں کو چیلنج کیا، جو جھولی میں بیٹھ کر داڑھی نوچنے کے مترادف تھا۔ 

ہوگو شاویز نے وینزویلا کے تیل کی معدنی دولت کی وینزویلا کے لوگوں کی حالت کو بہتر بنانے کے منصوبے پر خرچ کرنے کے علاوہ، اپنی معدنی دولت کو اپنے نظریات کی تشہیر اور سوشلزم کے ہمدردوں میں اضافہ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عالمی تاریخ میں کیوبا اور فیدل کاسترو کے ایک بار پھر ابھرنے کے پیچھے وینزویلا کے ہوگو شاویز کا کردار کام آتا دکھائی دیتا ہے۔ 

امریکہ اور عالمی سرمایہ داری نظام کے دیگر محافظوں کی جانب سے ہوگو شاویز کی شدید مخالفت کی وجہ سے وینزویلا میں تھوڑے تھوڑے وقفوں کے ساتھ عام انتخابات کرانے اور ریفرنڈم منعقد کرانے کے مطالبات نے زور پکڑا اور ان کی وجہ سے 1999ء سے سات اکتوبر 2012ء تک وینزویلا میں پندرہ سولہ عام انتخابات اور ریفرنڈم کروائے گئے، مگر ہر عام انتخابات میں ہوگو شاویز پہلے سے زیادہ قومی مقبولیت ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے۔
 
سال 2007ء میں ایک ریفرنڈم میں ہوگو شاویز کی عوامی مقبولیت میں کمی کا گراف دیکھ کر سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے فرمایا تھا کہ یہ انتخاب دنیا کے بہترین انتخابات میں شمار کیا جائے گا، مگر سات اکتوبر کے انتخابی نتائج کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں فرمایا، جب کہ عالمی سطح پر بہت سے سیاسی دانشور یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ امریکہ کو ہوگو شاویز کے خلاف اپنی سیاسی مخالفت کی مہم کو اب بند کر دینا چاہئے اور ”انڈی پنڈنٹ“ نے تازہ ترین وینز ویلین عام انتخابات کے بارے میں لکھا ہے کہ مغربی میڈیا کو اگر ہوگو شاویز کی مخالفت میں ناکامی پر شرم نہیں آتی تو تھکاوٹ کے بہانے ہی اپنی یہ مہم روک دینی چاہئے۔ وہ جوں جوں ہوگو شاویز کی مخالفت میں شدت کریں گے، ہوگو شاویز کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ہوگو شاویز نے واضح طور پر ثابت کر دکھایا کہ سرمایہ داری نظام کے اندر رہ کر بھی سرمایہ داری نظام کی مخالفت کی جا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 202684
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش