0
Thursday 18 Oct 2012 22:12

پاک ہند تعلقات

پاک ہند تعلقات
تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
اسلام ٹائمز۔ امریکی دفتر خارجہ کی نمائندہ ویکٹوریا نولینڈ (Nuland) نے 4 اکتوبر کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بریف کرتے ہوئے کہا ’’امریکہ ہندوستان، پاکستان میں دو طرفہ تجارت کے سلسلے میں غیر معمولی اور غیر متوقع کامیابی پر بہت خوش ہے۔ ہم ویزا پالیسی کو آسان بنانے کے قدم کو بھی خوش آئند سمجھتے ہیں۔ اس سے دونوں ممالک میں پُرامن فضا جنم لے گی، جس سے فائدہ اٹھا کر کشمیر جیسے پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔‘‘ 

انٹرنیشنل ہیئرلڈ ٹریبیون نے اپنے7 اکتوبر 2012ء کے اداریئے میں بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تجارت کے اجراء اور ویزوں کے حصول میں آسانی کو ایک ٹھیک سمت میں درست قدم کہا۔ اخبار کے خیال میں پاکستان میں دو مکتبہ فکر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ سویلین دماغ یہ کہتا ہے کہ پہلے حالات کو پرامن بنایا جائے، اس کے بعد معاشی رشتے استوار ہوں اور پھر کشمیر کے معاملے کی طرف بڑھا جائے۔ اخبار کے مطابق فوجی سوچ جو سکیورٹی معاملات اور بڑے مسائل کو پہلے حل کرنے کی بات کرتی ہے وہ درست نہیں۔ اخبار کے خیال میں پاکستان فوج کے افغانستان سے متعلق اسٹرٹیجک Depth والے تصور نے پاکستان کے افغانستان میں مفادات کو نقصان پہنچایا، چونکہ ہمارے اس رویئے سے خطے کے دوسرے ممالک بھی افغانستان میں دلچسپی لینے لگے، جس سے مسائل مزید گھمبیر ہوئے۔ 

قارئین میرے خیال میں مسئلہ سول یا فوجی سوچ کا نہیں، سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے، سیاچن میں ننگی جارحیت کے ارتکاب، کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی، دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کے معاشی استحصال کے بعد اور بلوچستان کے اندر مداخلت کے واضح ثبوت کی موجودگی میں دل کے اندر نفرتوں اور قدورتوں کو اٹھائے اگر ہم کسی سے بظاہر دوستی بھی کر لیں تو کیا یہ تعلقات دیرپا ثابت ہوسکیں گے؟ خصوصاً اگر امن کی آشا کا جھنڈا بلند کرنے والوں نے جدید ہتھیاروں سے لیس تقریباً دس لاکھ کی فوج بھی ہماری سرحد پر کھڑی کی ہوئی ہو تو کیا اس کو نظراندار کیا جا سکتا ہے۔؟ 

برطانیہ اور ائر لینڈ نے پہلے اپنے مسائل کے حل سے متعلق اصولی فیصلے کئے، اس کے بعد دیرپا امن قائم ہو گیا۔ مشرقی اور مغربی جرمنی نے اپنے سارے اختلافات کو پہلے ختم کیا، پھر ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ اس لئے رویؤں میں رعونت، ذہن میں بغض اور بغل میں کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرین والی چھڑی رکھ کر منہ سے رام رام کہنے والوں پر اعتبار کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کا ایک بہت خوبصورت شعر پیشِ خدمت ہے۔
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دلِ و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
 

عسکری ماہرین اور کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ حساس نوعیت کے تنازعوں کی موجودگی میں اپنے حریف کے بظاہر پاکیزہ ارادوں اور بلند بانگ دعوؤں کی بجائے اس کی آپ کو نقصان پہنچانے والی اصلی عسکری صلاحیت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ سپین کے قومی دن کے موقعہ پر میری ملاقات ہندوستان کے سفیر سے ہوگئی تو وہ مجھے بتانے لگے کہ ہندوستان پاکستان میں تجارت کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ اب ویزا کی پالیسی کو بھی زیادہ بہتر بنایا جا رہا ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس سے پاک و ہند تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے یہ گلہ بھی کیا کہ پاکستان کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے لوگ ابھی تک ہندوستان کے نیشنل ڈیفنس کالج کے اساتذہ اور طلباء سے براہ راست روابط پر تیار نہیں۔ 

میں نے عرض کیا کہ سفیر صاحب، آپ یہ بات لکھ لیں کہ ان اقدامات سے شائد چند تاجر بھائیوں کو کچھ فوائد تو ضرور ملیں گے، لیکن ہم پاکستان اور ہندوستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے والے خواب کی تعمیر نہیں دیکھ سکیں گے۔ سفیر نے فوراً پوچھا، تو پھر اس بڑے مقصد کے حصول کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ سیاچن کے پاکستانی علاقے سے اپنی فوج کو 1984ء کی پوزیشن پر لے جانے کا صرف اعلان کرکے دیکھیں، نفرتوں کے بادل چھٹنے شروع ہو جائیں گے، اُن کا فوری جواب یہ تھا کہ یہ بات اُن کی فوجی قیادت کو منظور نہیں۔
 
میری یہ مخلصانہ رائے ہے کہ ویزہ سہولتیں بحال اور تجارتی روابط کو مزید مستحکم کرتے ہوئے ساتھ ساتھ اگر ہندوستان مقبوضہ کشمیر سے اپنی افواج کے انخلاء کا ٹائم ٹیبل بھی دے دے تو پاک و ہند مراسم تیزی سے اور بہتری کی طرف بڑھیں گے۔ اس کے فوراً بعد جہاں ہندوستان پاکستان کے باہمی تجارتی معاہدے ہوں، وہاں ساتھ ہی مغربی دریاؤں کے پانی پر پاکستان کے مکمل حق کو تسلیم کرنے کا ذکر بھی ہو اور دونوں ممالک خوش اسلوبی سے ان معاملات کو بھی نمٹا لیں۔ اس کے بعد کشمیر کے مسئلے کی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کی بات ہو اور ساتھ بے شک ہندوستان پاکستان سے گذر کر وسطی ایشائی ریاستوں سے تجارت کرنے کیلئے زمینی اور ہوائی سہولیات کی فراہمی کے معاہدے کیلئے بھی اپنی تجاویز پاکستانی حکومت کے آگے رکھے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو امن کی آشا واقعی امن کا تماشہ ثابت ہو سکتی ہے۔
 
یہ سچی بات ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور غزہ کی پٹی آج دنیا کی سب سے بڑی جیلیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رہول گاندھی یہ تو کہتے ہیں کہ میرا تعلق کشمیری فیملی سے ہے، لیکن وہ کشمیر میں آکر انتخاب لڑنے کا خواب تک بھی نہیں دیکھ سکتے۔ 10 اکتوبر 2012ء کو نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جموں اور کشمیر کیلئے بنائے گے Contact Group کی ایک کانفرنس ہوئی جس میں ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، میر واعظ عمر فاروق اور آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب کے علاوہ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے بھی شرکت کی۔ 

اس کانفرنس میں میر واعظ عمر فاروق نے کہا:۔
 " We urge the international community to investigate the mass graves in Indian Kashmir"
یعنی’’ ہم بین الاقوامی برادی سے استدعاء کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کے مسئلے کی تحقیق کروائی جائے۔‘‘ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کے انسانی حقوق نہیں؟ میر واعظ نے کہا:۔
"Repeal the black laws in indian kashmir, such as Armed forces special power act"
یعنی مقبوضہ کشمیر کی سات لاکھ فوج کو کشمیریوں پر مسلط کرکے اُن کی افواج کیلئے جو خاص پاور ایکٹ کا کالا قانون بنایا گیا ہے، اس کو بھی فوراً ختم کیا جائے۔
 
قارئین، ہمارا ایمان ہے کہ جنوب ایشاء کے اس خطے میں جہاں دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ بھوک اور افلاس کی چکی میں پس رہا ہے، امن بہت ضروری ہے۔ لیکن مذکورہ بالا بہت ہی سنجیدہ انسانی حقوق کے مسائل کو کارپٹ کے نیچے چھپا کر ہم دیرپا امن حاصل نہیں کر سکتے۔ زبانی جمع خرچ والا امن صرف ہمیں بے وقوف بنانے کیلئے ہے۔ اصل امن اس وقت آئے گا جب CBM کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق میں بھی مثبت تبدیلیاں آتی نظر آئیں گی۔ صرف دو دن قبل بھی کشمیر کے بارڈر پر جھڑپ ہوئی ہے، جس میں تین مقامی لوگ لقمہ اجل بنے۔ ان مسائل کو حل کئے بغیر حالات معمول پر نہیں آسکتے۔
 
بنیادی مسائل کو حل کئے بغیر اگر ہم نے کاٹن، کپاس اور فرنیچر سے لدے کنٹینر موٹر وے پر ہندوستان روانہ کئے، یا وہاں سے کچھ سامان یہاں آیا اور ساتھ ہی اچانک سرینگر سے کسی اجتماعی قبر، بچوں کے قتل یا عورتوں سے زیادتی کی خبر آئی، تو یہ کنٹینر شعلوں کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ جو کسی لحاظ سے بھی پاک و ہند تعلقات بہتر کرنے میں معاون ثابت نہ ہوں گے۔
دیرپا امن کیلئے ہندوستان کو پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا اور اپنی افواج کے بے پناہ حجم میں کمی بھی کرنا ہوگی۔ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرین کو بغل میں لئے امن کی آشا اور موسٹ فیورٹ نیشن کے خوبصورت جملوں کا ورد کرنے والے مخلص نہیں۔ امن کی خاطر پاکستان ہر لحاظ سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہے، لیکن حالات بہتر کرنے کیلئے اگر ہم نے تالی بجانی ہے تو دوسرے ہاتھ کی موجودگی ایک لازمی شرط ہے۔
خبر کا کوڈ : 204295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش