1
0
Saturday 27 Oct 2012 21:57

حالات کی ستم ظریفی، انصاف کا قتل

حالات کی ستم ظریفی، انصاف کا قتل
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
 
عید کے دنوں میں امام حسین (ع) کے وکیل حضرت مسلم بن عقیل کی مظلومانہ شہادت سے لیکر لاہور میں وکیلِ عزاداری سید شاکر رضوی کی شہادت تک حسینی (ع) جانثاروں کا مقدس لہو مسلسل کائناتِ رنگ و بو کو معطر کر رہا ہے اور لاہور کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے دل میں ملتِ مظلوم نے بہت گہرے زخم کھائے ہیں اور اسیر ناموسِ امام زمانہ (ع) سید غلام رضا نقوی کے رفیق اور اور ان کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل سید شاکر رضوی ایڈووکیٹ کی شہادت ملتِ مظلوم کے زخموں سے چور جسم پر ایک نیا گھاو ہے۔ سولہ سال سے تحفظِ ناموس اہلبیت (ع) کے جرم میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے سید غلام رضا نقوی کے مقدمات طویل عرصہ سے زیر التوء ہیں، لیکن سو سو اہل تشیع کے قتل کا اعتراف کرنے والے قاتلوں کو یہی عدالتیں تمام مقدمات میں بری کر چکی ہیں۔
 
جن قاتلوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا، وہ نہ صرف آزادانہ طور پر پورے ملک میں گھوم پھر رہے ہیں بلکہ ن لیگ کی صوبائی حکومت ان کے ساتھ سیاسی اتحاد بھی بنا چکی ہے اور ان مذہبی دہشت گردوں کو پرٹوکول بھی فراہم کر رہی ہے اور دوسری طرف سید غلام رضا نقوی جیسے کئی اسیروں کے نہ فقط مقدمات نہیں سنے جا رہے، بلکہ ان کے لیے حصولِ انصاف میں عدالتوں میں انکی وکالت کرنے والے سید شاکر رضوی جیسے وکیلوں کو گولیوں کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ملتِ مظلوم پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ریاستی اداروں اور حکومت کو ہمارے جان، مال اور عزت نفس کا کوئی پاس نہیں۔

مذہب کے نام پر ہونے والے تشدد کو روکنے اور دہشت گردوں کو لگام دینے کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور پانی کی طرح بہائے جانے والے بے گناہوں کے خون سے بے اعتنائی ملکی سالمیت کے لیے خطرات میں اضافہ کا سبب ہے، لیکن شہدائے اسلام کے مقدس خون کے صدقے ملتِ پاکستان بیدار بھی ہے اور متحد بھی اور تحفظِ ناموسِ رسول (ص) کے لیے ہونے والے مظاہرے اور جلوس اس بات کا مظہر ہیں۔ امریکی دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے سید علی رضا تقوی کی شہادت کے بعد لاہور میں عزاداری کے خادم اور نامور شیعہ وکیل کی شہادت حکومتِ وقت کے ماتھے پر ایک سیاہ داغ ہے، لیکن ستم گر یزیدی ٹولہ یہ یاد رکھے کہ ان ظالمانہ اقدامات کے ذریعے حسینی جذبوں کے امین زندہ دلانِ لاہور کے حوصلوں کو دبایا نہیں جاسکتا۔ سید غلام رضا نقوی کے وکیل کی شہادت کے بعد انکا مشن رکے گا نہیں، بلکہ حق کا علم تھام کے نکلنے والے یہ قافلے رواں دواں رہیں گے۔

ایک رائے کے مطابق کراچی کے بعد لاہور کا امن تباہ کرنے کے لیے ملک دشمن مقاصد کی تکمیل کرنے والے عناصر لاہور میں سرگرم ہیں۔ گذشتہ دو تین سال سے پنجاب کے مختلف اضلاع میں کالعدم تکفیری دہشت گرد جماعت سپاہ صحابہ اور قاتل گروہ لشکر جھنگوی کی سرگرمیاں فقط دکھاوے کے لیے جاری نہیں ہیں اور نہ ہی وہ دہشت گردی چھوڑ کر اپنے آپ کو مین سٹریم میں لانا چاہتے ہیں، بلکہ وہ دہشت گردی پر مشتمل اپنے ملک دشمن ایجنڈا کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو عوامی سطح پر مضبوط بنا رہے ہیں، قتل و غارت کے واقعات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ لاہور میں شہید ڈاکٹر شبہیہ الحسن کی شہادت کے بعد سید شاکر علی رضوی کی بہیمانہ شہادت نے تختِ لاہور اور قاتل تکفیری گروہ لشکرِ جھنگوی کے در پردہ تعلقات کو بر ملا کر دیا ہے۔ اگر مسلم لیگ نواز شریف گروپ کی سیاسی حکمت علمی یہی رہی تو سیاسی ساکھ کھو دینے کے ساتھ ساتھ پنجاب کو مذہبی اور فرقہ وارانہ بدامنی کی دل دل میں بھی دکھیلنے کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد ہو گی۔

گذشتہ عرصے میں پنجاب حکومت کا جھکاؤ چونکہ مکمل طور پر کالعدم سپاہ صحابہ کی طرف رہا ہے، اس لیے مستقبل میں اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ ن لیگ خلوصِ نیت کے ساتھ ان دہشت گردوں کو پابند کرے، جس سے ان کی سرگرمیاں رک جائیں۔ لہذٰا مذاکرات کے ساتھ ساتھ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایم ڈبلیو ایم سمیت تمام قومی جماعتوں کی احتجاجی پالیسی وقت کی ضرورت ہے، تاکہ پنجاب حکومت ہوش کے ناخن لے اور براہ راست یا بالواسطہ دہشت گردی کو تقویت دینا بند کرے۔ 

اسی طرح شہید ڈاکٹر شبہیہ الحسن کے قاتلوں کی گرفتاری اور ان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے بھی قانونی اور عوامی جدوجہد کی جائے، تاکہ لاہور سمیت پنجاب کے کسی بھی علاقے کا امن و امان ابتر نہ ہو اور حکومت قیمتی جانوں پر حملے کرنے والے مٹھی بھر دہشت گردوں کو تحفظ دینے کی بجائے انہیں نکیل ڈالے اور قانون کے شکنجے میں لا کر عدالت سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اقدامات کرے اور لاہور کی سڑکوں پر عدالتوں میں انصاف کی فراہمی میں مدد کرنے والے سید شاکر رضوی جیسے مزید وکلاء کا خون نہ بہے۔

محرم الحرام سے قبل عید قربان کے دنوں میں سید شاکر رضوی کی شہادت عزاداری کے جلوسوں اور مجالسِ عزا میں شریک ہونے والے عزاداروں کی جانوں پر حملوں کے خطرات کے امکانات کو بھی ظاہر کرتی ہے، جس کے پیشِ نظر حکومت، انتطامیہ اور سیاسی و مذہبی راہنماوں کو چاہیے کہ وہ قبل از وقت ایسے اقدامات کریں، جن سے محرم الحرام میں ایام عزاء بدامنی کا شکار نہ ہوں۔ اسی طرح لاہور سمیت پنجاب کے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں عزاداری کے بانیان اور رضاکار دستوں کو بھی حالات کی نزاکت اور عزاداری کو درپیش سنگین خطرات کے پیشِ نظر لاہور کی سرزمین پر ڈاکٹر شبہیہ الحسن اور سید شاکر رضوی کے گرنے والے خون کی بدولت نہایت عمدگی اور چابکدستی سے حفاطتی بندوبست کرنے چاہیں اور ساتھ ساتھ عوامی شعور کو بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اپنے عقیدے اور ملک کی سالمیت کی حفاظت تمام مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے۔
خبر کا کوڈ : 207057
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
آپ کا کالم آپ کے خوبصورت افکار کی نشاندهی اور آپ کی پاکستانی ملت کے ساته درد کی عکاسی کرتا هے۔
ہماری پیشکش