0
Friday 2 Nov 2012 09:07

نیا مذہبی انتخابی اتحاد، ن لیگ کی بی ٹیم

نیا مذہبی انتخابی اتحاد، ن لیگ کی بی ٹیم
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

آخر کار جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام (سمیع الحق)، جمیعت علمائے اسلام ( نظریاتی) جمیعت علمائے پاکستان (سواد اعظم)، جمعیت اہلحدیث (ابتسام الٰہی ظہیر) نے تکفیری جماعت سپاہ صحابہ (لدھیانوی گروپ) کو ساتھ ملا کر ایک نیا مذہبی انتخابی اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گذشتہ ہفتے جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ کی صدارت میں ان جماعتوں کا ایک اہم اجلاس لاہور میں منعقد ہوا اور اس میں تفصیلات طے کی گیئں۔ اس سے پہلے مسلم لیگ نواز شریف گروپ بھی تکفیری جماعت سپاہ صحابہ کے ساتھ قومی اور صوبائی حلقوں کی چھتیس مختلف سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کر چکی ہے۔ مسلم لیگ نواز شریف گروپ کے قائدین جب سے جلاوطنی کاٹنے کے بعد سعودی عرب سے واپس آئے ہیں ان کے تکفیری جماعت سپاہ صحابہ کے ساتھ بالخصوص انتخابی سیاست کے حوالے سے تعلقات گہرے ہوگئے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رانا ثناءاللہ کی جھنگ میں سپاہ صحابہ کے لیڈروں کے ساتھ تصاویر اور جلسوں میں شرکت نے اس خیال کو یقین میں بدل دیا ہے کہ مسلم لیگ ن سعودی فرمانرواوں کے اشارے پر تکفیری جماعت کو پاکستان میں مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز شریف گروپ کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا سمیع الحق بھی تکفیری جماعت سپاہ صحابہ کے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ آئی جے آئی سے لیکر ایم ایم اے تک مختلف جماعتوں کا حصہ رہنے والے مولانا سمیع الحق شروع سے ہی تکفیری جماعت کے حامی رہے ہیں۔ 

گذشتہ سالوں کے اخبارات یہ بتاتے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق نے سپاہ صحابہ کے ہر بڑے چھوٹے جلسے میں شرکت کی ہے اور وہاں جمعیت کے کسی نہ کسی نمائندہ نے خطاب بھی کیا ہے۔ لیکن مولانا ابتسام الٰہی ظہیر تو کئی بار تکفیریوں سے اظہار برائت کر چکے ہیں، ہوسکتا ہے وہ فقط اس لیے اس اتحاد میں شامل ہوئے ہوں چونکہ وہ مولانا ساجد میر کی موجودگی میں ایم ایم اے کا حصہ نہیں بن سکے۔ اسی طرح مولانا سمیع الحق بھی اپنے گروپ کو کسی ایسے اتحاد کا حصہ بنانے سے ہمیشہ گریزاں رہے ہیں جس میں مولانا فضل الرحمٰن شامل ہوں۔

بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک الیکشن سے قبل ایم ایم اے کی بحالی کے بعد مذہبی جماعتوں کا یہ جمگھٹا کوئی اتفاق نہیں بلکہ غیر محسوس طریقے سے ن لیگ کو پے در پے ہونے والے سیاسی نقصانات سے بچانے کی کوشش ہے۔ ان حالات میں جب کہ اصغر خان کیس کا فیصلہ بھی آچکا ہے اور میاں نواز شریف سمیت مذکورہ جماعتوں کے تقریباً تمام قائدین بھی آئی جے آئی میں شامل ہو کر معاوضہ حاصل کرنے کی پاداش میں عوامی حلقوں کے سامنے آنکھیں نیچی کرکے چلنے پر مجبور ہیں اور اب مسلم لیگ نواز شریف گروپ کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر کہیں سے بھی سہارے ملنے کی امید باقی نہیں ہے اور پاکستان کے موجودہ صدر، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے پے در پے سیاسی وار سہنے کی وجہ سے ن لیگ کمزور ہوتی جا رہی ہے تو چونکہ تمام مذکورہ مذہبی جماعتیں مسلم لیگ نواز شریف گروپ کو اپنا پولیٹکل فیس سمجھتی ہیں، اس لیے ن لیگ کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے ہاتھ پاوں مار رہی ہیں۔ 

لیکن ان حالات میں خود ان جماعتوں کے لیے سیاسی حیثیت کو بچانا بھی بہت مشکل ہے۔ ان تمام مذہبی جماعتوں میں سے کامیاب حکمت علمی جماعت اسلامی کی ہے، جو اپنے سابق امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے صدر جناب قاضی حسین احمد کے ذریعے ان تمام جماعتوں کے بھی قریب رہی ہے جو ایم ایم اے میں موجود ہیں، چاہیے ان کا جماعت اسلامی سے اختلاف ہے اور جماعت اسلامی کھل کے اس موقف کا بھی اظہار کرچکی ہے کہ الیکشن میں ہمارا جزوی طور پر مسلم لیگ نواز شریف سے بھی اتحاد ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم کا بھی سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی نے اٹھایا ہے۔

کیونکہ مسلم لیگ نواز گروپ امریکہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے باقاعدہ طور پر دفاع پاکستان کونسل کا حصہ نہیں بنی، اس لیے ایسا ووٹر جو سیاسی طور پر ن لیگ کو شدت پسند بنیاد پرستوں کا پولیٹکل فیس سمجھ کے ن لیگ کو ووٹ دیتا رہا ہے، اب اس کا رجحان بھی جماعت اسلامی اور تکفیری جماعت کی طرح دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف زیادہ ہے۔ اس لیے یہ مسلم لیگ نواز شریف گروپ کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ تمام تر خرابیوں اور بدنامیوں کے باوجود ان شدت پسند مذہبی جماعتوں کا سہارا لے۔ 

لیکن غور سے ان سیاسی باریکیوں کا جائزہ لیں تو ایسے لگتا ہے کہ ن لیگ اب بھی گھاٹے کا سودا کر رہی ہے، کیونکہ اس طرح شدت پسند گروہوں کا سہارا لینے کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں دیرینہ اور نہایت گہرہ اثر و رسوخ رکھنے والی عالمی طاقت کبھی بھی بلا شرکتِ غیرے ن لیگ کی حکومت کی حمایت نہیں کرے گی اور نہ پاکستانی سیاست میں سیاہ و سفید کی مالک اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کو واضح برتری کے ساتھ اوپر آنے دی گی۔ رہی بات بھاری عوامی حمایت کے نتیجے میں عوامی سیاسی طاقت بن کے ابھرنے کی تو اس وقت اس کے دور دور تک ن لیگ کے لیے اس کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
 
پی پی کے موجودہ دور حکومت میں تمام سیاسی حلقے پورے پانچ سال اس مخمصے کا شکار رہے ہیں کہ اب حکومت گئی اور اب حکومت گئی، بعض اوقات تو نوبت یہاں تک آ جاتی تھی کہ کہا جاتا کہ زرداری کی حکومت چند گھنٹوں کی مہمان ہے۔ لیکن بے نظیر کی ناگہانی موت کے بعد اتفاقی طور پر مسندِ صدارت تک پہنچنے والے آصف علی زرادری کے سیاسی داو بیچ کسی سیاسی جماعت کی سمجھ میں نہ آئے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی تو تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود جناب آصف علی زرداری کی چھتری تلے اکھٹے رہے اور آخر کار مسلم لیگ ق جو سابق صدر اور تمام عالمی طاقتوں کے پسندیدہ پرویز مشرف کی بی ٹیم تھی، وہ بھی نہ تو پی پی کی پیشکش کو ٹھکرا سکے اور نہ ہی اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اقتدار میں شریک ہونے سے باز رہ سکے۔ 

اسی طرح پہلے تین سال تک ن لیگ اپنے قائدین کی جلا وطنی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کئی سیاسی اور جماعتی پیچیدگیوں کی وجہ سے زرادری کی سیاست کو سمجھنے سے قاصر رہی، لیکن جب ان کی آنکھ کھلی تو ن لیگ نے سیاسی طور پر اپنے آپ کو ایسی کھائی میں پایا کہ جہاں سے نکلنے کا واحد راستہ دوبارہ سے پی پی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کے ساتھ انہی کی شرائط پر اتفاق اور انکی حمایت کے علاوہ کہیں نہ پایا ہے، کیونکہ حالات ن لیگ کو ایسے موڑ پہ لے آئے ہیں جہاں پاکستان کے انتخابی حلقوں میں ن لیگ کا تمام تر روایتی ووٹ منقسم ہو چکا ہے۔ کپتان کے سونامی کی زد میں آنے والے ووٹوں کا اعتراف مسلم لیگ ن کے سعد رفیق کئی بار کرچکے ہیں اور رہی سہی کسر ہزارہ صوبہ اور صوبہ جنوبی پنجاب کے نعروں نے نکال دی ہے۔

اس کے باوجود ن لیگ کے لیے ایک امید کی کرن باقی تھی کہ عدلیہ کے فیصلے اور اقدامات ہر طرح سے مسلم لیگ کے روایتی حریف پی پی کو آئے روز زچ کر دیتے تھے، لیکن اصغر خان کیس کے فیصلے کی وجہ سے نہ صرف مسلم لیگ نواز شریف گروپ کی ساکھ کو واضح طور پر نقصان پہنچا ہے بلکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی عدلیہ کے فیصلے کے نتیجے میں معزولی کے بعد پی پی کو جو ہزیمت اٹھانی پڑی، اس کا داغ بھی ایوان صدر کے ماتھے سے دھل گیا ہے، کیونکہ اصغر خان کیس کے فیصلے سے کچھ روز قبل نئے آنے والے وزیراعظم نے عدلیہ کے حکم کی تعمیل میں سوئس حکومت کو خط بھی لکھ دیا اور پی پی کے صدر کو کوئی گزند بھی نہیں پہنچا۔
 
اس حوالے سے بعض ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ پی پی حکومت نے فیصل رضا عابدی کے ذریعے افتخار ارسلان کیس کو مزید نہ اچھالنے کا عندیہ دیا ہے اور اس کے جواب میں اصغر خان کیس کا فیصلہ سامنے آیا ہے اور عدلیہ نے حکومت کی طرف سے سوئس حکام کو لکھے گئے خط پر کوئی خاص اعتراض بھی نہیں کیا۔ ایک طرف عدلیہ کا پی پی حکومت بالخصوص صدر آصف علی زرداری کے لیے اچانک نرم رویہ اختیار کر جانا، دوسری طرف ایم ایم اے کا سوائے مولانا ساجد میر کے مسلم لیگ نواز شریف کی حامی جماعتوں کے بغیر دوبارہ سے فعال ہو جانا، ن لیگ کے لیے بہت بڑے سیاسی خطرے سے کم نہیں۔ 

ان حالات میں دفاع پاکستان کونسل کے نام پر نیٹو سپلائی کے ایشو کے حوالے سے صفر نتیجہ دکھانے والی مذہبی اور عسکری جماعتوں کا نیا سیاسی انتخابی اتحاد تکفیری جماعت سپاہ صحابہ سمیت بعض شدت پسند نیم ملاوں کو قومی سیاسی دھارے میں اپنا قد کاٹھ بڑھا کر پاکستانی معاشرے میں تباہی پھیلانے کے لیے ان کی تقویت کا سبب بھی بنے گا اور اسکے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کو قومی دھارے سے باہر کرنے یا کم از کم دور لے جانے کا باعث بھی ہوگا۔
 
مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان میں اپنی حکومت کے خواب دیکھنے والے جماعت اسلامی کے ذمہ داروں اور قائد اعظم کی مسلم لیگ کو ایک لوکل سیاسی جماعت کی سطح تک گرا دینے والے میاں برادران کو چاہیے کہ وہ ان بیساکھیوں کا سہارا نہ لیں اور نہ ہی ان مٹھی بھر تکفیری دہشت گردوں کے ہمنوا بنیں، بلکہ ملی یکجہتی کونسل کی طرح ان تکفیریوں کو اپنے ساتھ کہیں جگہ نہ دیں، ورنہ وہ اپنے ہاتھوں قومی تباہی کے ذمہ دار بھی ہوں گے اور اپنی رہی سہی سیاسی ساکھ بھی تباہ کر بیٹھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 207061
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش