0
Wednesday 31 Oct 2012 20:58

عمران سے پوچھ گچھ، منظر و پس منظر

عمران سے پوچھ گچھ، منظر و پس منظر
تحریر: طاہر یاسین طاہر
  
جب بتقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرہ پہ اک دِل باندھا
غالب نے یہ شعر کیوں موضوع کیا؟ بلاشبہ اس پہ گفتگو کا محل نہیں، البتہ چند دن قبل جب تحریکِ انصاف کے سربراہ نے امریکہ میں ایک چندہ مہم میں شرکت کے لیے محمل باندھا تو "اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے" کے مصداق انھیں ٹورنٹو ایئر پورٹ پر ہی روک لیا گیا۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو عمران خان نیو یارک سے لاس اینجلس تک اڑانیں بھر چکے ہیں، مگر ہم نے اسے کالم کا موضوع اس لئے بنایا کہ اس واقعہ کے دور رس نتائج بر آمد ہوں گے۔ امریکی ایئر پورٹس پر یا مغرب میں پاکستانی سیاستدانوں کی جامع تلاشی کوئی نئی بات نہیں، لیکن عمران خان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس حوالے سے قدرے مختلف معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک مبہم وضاحت سامنے آئی ہے، جبکہ اس کے بر عکس اگر کسی پاکستانی سیاستدان کو امریکی ایئر پورٹ پر روک لیا جاتا تو اسے امریکی حکام معمول کی کارروائی قرار دیتے، مگر عمران کے معاملے میں امریکی مبہم وضاحت اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ یہ غیر معمولی کارروائی تھی۔؟

دلچسپ امر تو یہ ہے کہ عمران کو کسی امریکی ایئر پورٹ پر نہیں بلکہ کینیڈا میں ہی امریکی حکام نے روک لیا۔ تحریکِ انصاف کے قائد کینیڈا میں چندہ مہم سے فراغت کے بعد فوزیہ قصوری اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ایسی ہی تقریب میں شرکت کے لیے نیو یارک پرواز کرنے والے تھے کہ انھیں جہاز سے آف لوڈ کر دیا گیا۔ عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ کینیڈا میں موجود امریکی حکام نے ڈرون حملوں پر میرے مؤقف کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ کی۔ میرا مؤقف واضح ہے اور وہ یہ کہ ڈرون حملے رکنے چاہئیں۔ ایک گھنٹہ تک پوچھ گچھ کے بعد عمران اپنے ہمراہیوں کے ہمراہ اگلی فلائٹ پر نیو یارک روانہ کر دیئے گئے۔ خیال رہے کہ امریکہ اور کینیڈا کے درمیان مقامی پروازیں ہونے کی وجہ سے امریکہ سفر کرنے والوں کی امیگریشن، امریکی حکام کی طرف سے کینیڈا کے ہوائی اڈوں پر ہی کی جاتی ہے۔ 

اس امر میں کلام نہیں کہ مذکورہ واقعہ کے بعد تحریکِ انصاف کا مؤقف تو جلدی سامنے آگیا مگر امریکی محکمہ خارجہ نے ویسی چستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دو دن بعد امریکی محکمہ خارجہ نے ایک مبہم سا بیان جاری کیا کہ "مسئلہ حل ہو گیا ہے" ہم عمران خان کو امریکہ میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھیں کینیڈا میں عمران کو روکے جانے کے واقعہ کا علم تھا۔ یوں عمران کو روک بھی لیا گیا، پھر وہ مسئلہ جو ابھی تک راز میں ہے، اسے کینیڈا میں موجود امریکی حکام کے ذریعے، عمران کے ساتھ حل بھی کر لیا گیا اور پھر نیو یارک میں تحریک انصاف کے قائد کے لیے خیر مقدمی بیان جاری کرکے امریکہ اپنی طرف سے بری الذمہ بھی ہو گیا۔

مگر جو وضاحتیں جاری کی گئیں، انھیں دل ماننے کو تیار نہیں۔ لیکن لاس اینجلس میں ایک تقریب کے دوران عمران خان نے کہا کہ ’’امریکہ کے اس اقدام کی وجہ سے زیادہ پذیرائی ملی‘‘ اور ہم اسی کو درست مانتے ہیں کہ امریکہ کا مقصود بھی یہی ہوگا، کیونکہ ڈورن حملوں بارے عمران ایک واضح مؤف رکھتے ہیں اور اسلام آباد سے قبائلی علاقہ جات تک امن ریلی بھی نکال چکے ہیں، چنانچہ ایئر پورٹ پر روک کر ان سے پوچھنا کہ میاں بتاؤ، ڈرون حملوں پر تمھارا مؤقف کیا ہے؟ زیادہ وزن والی بات نہیں؟ یہ بات بھی سیاسی سکورنگ کے زمرے میں ہی آئے گی کہ جو حکومتیں امریکی مفادات کے تحفظ پر کمر بستہ ہوتی ہیں، ان کے شہریوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ایسے واقعات اچانک وقوع پذیر نہیں ہوتے۔
 
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان میں انتخابات کا وقت بہت قریب ہے۔ مادرِ وطن میں انتخابات امریکہ مخالف جذبات پر لڑے جاتے ہیں۔ دیگر معاشرتی و معاشی مسائل کا حل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہر جماعت، بالخصوص دائیں بازو کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتیں امریکہ کو نشانے پر لے کر اپنی سیاسی حکمتِ عملی بناتی ہیں۔ عمران خان نے بھی امریکی ڈرونز کو خارجہ پالیسی، بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بنیادی نکتہ قرار دیا ہوا ہے۔ مگر اس حوالے سے وہ امریکہ کو یہ بات سمجھاتے نظر آتے ہیں کہ جناب، آپ کے ڈرونز حملوں کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات بھڑک رہے ہیں۔ آپ مہربانی کرکے یہ حملے بند کر دیں، تاکہ امریکہ کے خلاف مزید نفرت نہ پھیلے، میں جنگجوؤں کے ساتھ بات چیت کرانے کو تیار ہوں۔

عمران خان دہشتگردی کے خلاف جاری اس جنگ کا جو سیاسی حل تلاش کرنے کی بات کرتے ہیں وہ اس کے سوا کیا ہے کہ "جنگجوؤں کے ساتھ بات چیت کی جائے" ان کے مختلف گروپوں کو توڑا جائے۔ کچھ کو ترغیب دے کر ساتھ ملایا جائے اور کچھ کو ان کے حال پر چھوڑ کر ان کے ساتھ اپنی مرضی کی سودا بازی کی جائے۔ اپنی کتاب ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ میں وہ ایسی ہی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ انتخابات قریب ہیں، عمران نے مقبول بات کی کہ میں امریکی ڈرونز کا بڑا مخالف ہوں، اس لئے مجھے کینیڈا میں امریکی حکام نے روک کر میرا مؤقف جانا، مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے اسی مؤقف کے ساتھ نیویارک پرواز کرنے کی اجازت دی گئی یا پھر مؤقف میں کوئی تبدیلی بھی واقع ہوئی۔؟

فی الحال اس بارے کہنا مشکل ہے، کیونکہ صرف ایک طرف کا مؤقف سامنے آیا ہے، جبکہ امریکہ نے فصاحت کا سہارا لیتے ہوئے مسئلہ حل ہونے کی بات کر دی۔ لیکن جو بات ہماری پریشانی میں اضافہ کرتی ہے وہ یہ کہ "ڈرون کا اتنا سادہ معاملہ حکومت نے یونہی الجھائے رکھا۔ ہم خواہ مخواہ امریکی ڈرونز کو ایک اذیت تصور کرتے رہے" یہ معاملہ ایسا بھی نہیں تھا کہ حل نہ ہو؟ بس حکومت امریکہ کو اپنا مؤقف نہ سمجھا سکی، لیکن امریکہ کو جونہی عمران خان کا مؤقف سمجھ آیا، یہ سادہ سا معاملہ کینیڈا کے ایئر پورٹ پر ہی نمٹا دیا گیا۔ لیکن کیا یہ وہی ’’مسئلہ‘‘ ہے، جس کے حل کی امریکہ نے بات کی ہے؟ شاید تحریکِ انصاف کے پر جوش کارکن یہ کبھی نہ جان پائیں۔
خبر کا کوڈ : 207967
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش