0
Wednesday 7 Nov 2012 23:10

تحریک انصاف کا وزیرستان شو

تحریک انصاف کا وزیرستان شو
تحریر: رشید احمد صدیقی 

عمران خان کی تحریک انصاف گزشتہ سال لاہور جلسہ کے بعد سیاسی افق پر ایسی چھا گئی کہ بڑے بڑے سیاسی برج اس کی جانب پلٹنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی پی پی پی و مسلم لیگ ن سے اس میں جا شامل ہوئے۔ بین لاقوامی سروے کا نتیجہ یوں رہا کہ تحریک انصاف پاکستان کی پہلے نمبر کی جماعت بن گئی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی چند بڑے نام اس میں شامل ہوگئے۔ پھر عمران خان نے شمالی وزیرستان میں دھرنے اور ڈرون حملوں کے خلاف امن ریلی کا اعلان کیا۔ ریلی سے قبل اس کی دھوم چار دانگ عالم میں تھی۔ لیکن اس ریلی کے فوراً بعد سوات میں ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ جس کی گونج میں وزیرستان شو دب کر رہ گیا۔ 

وزیرستان شو عمران خان کی جانب سے سیاسی جوا اور بہت بڑی مہم جوئی تھی۔ عمران خان بنیادی طور پر خطرات سے کھیلنے والے مہم جو قائد ہیں۔ وہ جس امر کا عزم کرتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں۔ لیکن سیاست ایسا کھیل ہے جس میں امکانات کی دنیا بسائی جاتی ہے اور ممکنہ نتائج کی بنیاد پر اندازوں کا ایک جہاں قائم کیا جاتا ہے۔ عمران خان کے لاہور جلسہ عام کے بعد بڑی تعداد میں اپنی اپنی جماعتوں سے ناراض سیاستدان اس امید پر تحریک انصاف کی جانب دیکھنے لگے اور آنے لگے کہ مستقبل اس کا ہے۔ اس کے بعد راولپنڈی اور کراچی میں یکے بعد دیگرے تاریخی جلسہ ہائے عام نے تحریک انصاف کو پاکستان کی مقبول جماعت کا روپ دے دیا۔
 
وزیرستان امن مارچ عمران خان کو عالمی شہرت دینے اور ملک گیر مقبولیت بڑھانے کا ایک اچھا شو تھا۔ لیکن شائد تجربے کی کمی کی وجہ تھی یا مناسب منصوبہ بندی کا فقدان، اس سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ ڈرون حملوں کی مخالفت پاکستان کے عوام کے لیے مقبول عام نعرہ ہے۔ سیاسی طور پر مستقبل میں امریکی حمایت کئی محتاج کھل کر ڈرون حملوں کی مخالفت نہیں کرتے، لیکن عوام ہر صورت میں ڈرون حملوں کو قابل مذمت گردانتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کا محور نواز شریف اور آصف زرداری کی مخالفت ہے جبکہ وزیرستان کے حوالے سے قریبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں اور خود شمالی وزیرستان و جنوبی وزیرستان میں جے یو آئی کی حمایت کی موجودگی کی وجہ سے وزیرستان امن مارچ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کی مخالفت بھی فطری اور قابل فہم تھی۔ لیکن عمران خان نے ڈرون حملوں کے بڑے مخالفین جماعت اسلامی اور جنرل حمید گل کو بھی اس مارچ میں گھاس نہیں ڈالی، جو ان کے فطری حلیف ہیں اور کم از کم ڈرون حملوں کے حوالے سے ان کے ہم خیال ہیں۔

دوسری بات شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سے ایک کا انتخاب ہے۔ آبادی کے لحاظ سے جنوبی وزیرستان خاصا بڑا ہے اور سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ڈرون حملوں کا شکار رہا ہے، لیکن جن دنوں عمران خان کا امن مارچ ہو رہا تھا تو ڈرونز کا میدان عمل جنوبی نہیں شمالی وزیرستان تھا۔ علاوہ ازیں گزشتہ ایک سال سے امریکہ پاکستان پر دبائو ڈالتا رہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیا جائے۔ حکومت پاکستان بظاہر امریکی موقف کی حامی نظر آتی ہے، لیکن پاک فوج اس امریکی خواہش کو ٹالتی چلی آئی ہے۔ عمران خان نے امن مارچ کے لیے شمالی کے بجائے جنوبی وزیرستان کا انتخاب کیا، جس سے ان کے ہدف کے صحیح نہ ہونے کے اشارے ملے۔ 

عمران خان کے جلوس میں بہت بڑی تعداد میں مغربی دانشور اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے شامل تھے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ڈرون حملوں کے خلاف مغربی دنیا کو واضح پیغام گیا، لیکن مقامی طور پر عام آدمی نے یہ بات محسوس کی کہ عمران خان کامیابی کے لیے مغربی میڈیا کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو ان لوگوں کی نظروں میں مقبول بنانا چاہتے ہیں۔ اس اشارہ سے عمران خان اور مغرب کے حوالے سے مثبت کے بجائے منفی تاثر ابھرا۔ 

وزیرستان امن مارچ ایک مہم جوئی اور خطرات سے کھیلنے والا فیصلہ تھا۔ لیکن عمران خان سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ خطرات سے کھیلنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس کے باوجود ایک مکتب فکر نے کافی پہلے سے یہ تاثر پھیلا رکھا تھا کہ مارچ وزیرستان نہیں جاسکے گا، اگرچہ یہ جنوبی وزیرستان کیوں نہ ہو، آخر میں یہی ہوا۔ بے شمار دلائل کے ساتھ بالآخر مارچ کو ٹانک میں اختتام پذیر کر دیا گیا اور یہ وزیرستان (جنوبی) میں داخل نہ ہوسکا۔ اس کے لیے شرکاء کی جانوں کے تحفظ کی دلیل پیش کی گئی۔ رات کے اندھیرے کو بنیاد بنایا گیا۔ تمام دلائل اپنی جگہ دررست تھے، لیکن یہ دلائل تو مارچ کے آغاز سے قبل بھی موجود تھے۔ 

خیبر پختونخوا کے علاوہ عمران خان نے پورے ملک میں بڑے جلسے کیے تھے، امن مارچ وزیرستان کا ایک مطلب یہ لیا جا رہا تھا کہ س کے اثرات خیبر پختونخوا میں زیادہ محسوس کیے جائیں گے اور پارٹی یک دم اس صوبے میں عروج پر پہنچ جائے گی۔ لیکن اسلام آباد سے شروع ہونے والا مارچ تلہ گنگ، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتا ہوا ٹانک پہنچا۔ میانوالی عمران خان کا آبائی اور انتخابی حلقہ ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ یہاں سے بہت بڑا جم غفیر ان کے ساتھ مل جائے گا، لیکن طویل مارچ میں یہاں سے توقع سے کم لوگ ساتھ آئے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا سے گاڑیوں کے قافلے نظر نہیں آئے۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ گاڑیوں کے قافلے اور رات کے سفر میں جانے والوں کے قیام و طعام کے اخراجات کے لیے پارٹی کے پاس ابھی فنڈز موجود نہیں اور اس جماعت میں شامل ہونے والے ابھی اپنا خرچہ کرنے کے روادار نہیں۔ ابھی تو کسی کو پارٹی میں کوئی عہدہ ہی نہیں ملا ہے، تو وہ جیب سے خرچہ کیوں کریں۔ 

دوسری وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کا ڈھنڈورا پیٹا ہے۔ پارٹی لیڈر پارٹی کاز کو بڑھانے کے بجائے فی الحال اپنا گروپ آگے بڑھانے اور پارٹی الیکشن میں بڑا عہدہ حاصل کرنے کے لیے کام میں مصروف ہیں۔ چنانچہ وزیرستان مارچ کے لیے کسی لیڈر نے زیادہ گاڑیوں کا انتظام کرنے کی تکلف گوارا نہ کی اور نہ کسی کو سینکڑوں کا جلوس لے جا کر دو تین وقت کا کھانا فراہم کرنے کا حوصلہ نہ تھا، چنانچہ تحریک انصاف کے وزیرستان شو کو جو عالمی شہرت مارچ سے پہلے تھی مارچ کے بعد وہ نظر نہ آئی۔ رہی سہی کسر ملالہ حملے نے پوری کی اور عمران خان کا شو گمنانی کے گرد تلے دب کر رہ گیا۔
خبر کا کوڈ : 209989
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش