1
0
Friday 16 Nov 2012 22:58

ظلم آخر ظلم ہے

ظلم آخر ظلم ہے
تحریر: تصور حسین شہزاد

ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ یہ آفاقی جملہ ہے جو اپنے اندر پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ کرہ ارض پر جس نے بھی جب بھی جتنا بھی ظلم کیا، اس کی مسلط کردہ سیاہ رات کے بعد سویرا ضرور ہوا ہے۔ جو امید سحر سے مایوس ہوئے، وہ زندگی کا چراغ گل کر بیٹھے اور جنہوں نے اس آس کا دامن تھامے رکھا، ان کا دن کے اجالے نے بھرپور استقبال کیا۔ ظلم کی یہ سیاہ رات قابیل سے سے برطانیہ تک، فرعون سے روس تک اور نمرود سے امریکا تک، ہر ظالم نے  برپا کی اور اسی زعم میں رہا کہ کل کائنات کا مالک وہی ہے، لیکن مالک حقیقی کا بھی اپنا انداز ہے جو سب سے نرالہ ہے، وہ بھی دنیا کے رنگ دیکھتا ہے اور ان پر ہنستا ہے، وہ ایسا ہے کہ ظالم کی رسی دراز کرکے اس کا آخیر (End) دیکھتا ہے۔

اس نے ایسوں ایسوں کو بھی موقع دیا جنہوں نے اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور رب ذوالجلال کی خدائی کے مقابلے میں آکھڑے ہوئے۔ رب ذوالجلال کو پھر جلال آیا اور ایسا انتقام لیا کہ وہ رہتی دنیا کے لئے نشان عبرت بن کر رہ گئے۔ فرعون کے لئے موسٰی پیدا کر دیا، نمرود کیلئے ایک ادنٰی سا مچھر ہی کافی ثابت ہوا ۔۔۔ اس کے انداز ہی نرالے ہیں۔ دور کیوں جائیں یہ تاریخ کی زبانی واقعات ہیں، ہم نے تو اپنی آنکھوں سے تاج برطانیہ کا سورج غروب ہوتے دیکھا ہے، ہمارے سامنے سوویت یونین پاش پاش ہوا ہے، جس کو بھی اپنے خدا ہونے کا زعم ہوا، اسی کو میرے خدا نے میدان میں لا کر رسوا کیا۔

آج خود کو دنیا کا مالک اور خدا کہنے والا امریکا بھی میرے رب کے انتقام کا نشانہ بننے جا رہا ہے۔ امریکا نے پوری دنیا میں ظلم وجبر کا ایسا بازار گرم کر رکھا تھا کہ دنیا حیران تھی۔ امریکا جس کا خواب تھا کہ وہ دنیا کے تمام وسائل پر قبضہ کرسکتا ہے، وہ امریکا جس نے چند حکمرانوں کو خرید کر یہ سمجھ لیا تھا کہ اس نے پوری دنیا کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے، وہ امریکا جو اپنی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ دنیا میں جہاں چاہیے بم مار کر سب کچھ راکھ کرسکتا ہے، اللہ نے اس کے غرور کی مہلت کی رسی کو اب سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔

امریکا کی 20 سے زائد ریاستوں میں علیحدگی کی تحریک نے جنم لے لیا ہے۔ امریکا میں سمندری طوفانوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے جو اس کی فرعونیت کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں گے۔ امریکا کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ جب امریکا خدا کی بے آواز لاٹھی کے سامنے آواز ہی نہیں نکال سکتا تو ہمارے وہ حکمران کس باغ کی مولی ہیں، جو امریکا کو اپنا ان داتا سمجھ کر اس کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی ٹیکتے ہیں۔ جو اس کی نام نہاد ٹیکنالوجی سے خائف ہو کر ایک ٹیلی فون کال پر’’لے ڈاؤن‘‘ ہو جاتے ہیں۔ جنہیں یہ خوف دامن گیر ہو جاتا ہے کہ ڈرون جو وزیرستان کے بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، اگر ہم نے امریکی تابعداری نہ کی تو ان ڈرونز کا رخ ہمارے گھروں کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔

یہ ایسے لوگ ہیں جن کا ایمان ہی شائد کمزور ہے۔ ورنہ جو اللہ والے ہوتے ہیں، جن کا یقین اپنے رب کی ذات پر پختہ ہوتا ہے وہ تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، کسی نے ایک بزرگ سے پوچھ لیا، حضور میں بہت ڈرتا ہوں، کبھی امیر سے، کبھی حاکم سے، کبھی کسی سے تو کبھی کسی سے، سب سے زیادہ خوف مجھے موت سے آتا ہے۔ بزرگ نے جواب دیا، صرف اللہ سے ڈرنے لگو، ساری دنیا کا خوف جاتا رہے گا۔ پوچھا، حضور اللہ کو پہچانوں کیسے؟ جواب ملا، اپنے نفس کی پہچان کر لو، اللہ کی پہچان ہو جائے گی۔ مگر ہمارا حال بھی بے حال ہے، ہمارے پاس تو اتنی فرصت ہی نہیں کہ ہم اپنے آپ پر غور کریں، اگر ہم اتنی سی فرصت نکال لیں گے تو یقیناً رب کو پہچاننے میں دیر نہیں لگے گی، لیکن کیا کیا جائے، جب ہم اپنے آپ کو نہیں پہچان پائے تو رب کو کیسے پہچانیں گے۔

بس ہماری یہی غفلت ہمیں غیراللہ کے در کا غلام بنا دیتی ہے۔ آج اگر ہم دنیا میں رسوا ہو رہے ہیں تو صرف اس لئے کہ ہم اپنے راستے سے ہٹ گئے ہیں، وہ صراط جس کو مستقیم کہا گیا ہے، وہ ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ شائد ہم بھی اپنی اپنی ہستی میں خدا ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے بڑا جو ’’خدا ‘‘ بنتا ہے ہم اس سے خوفزدہ ہونے لگ جاتے ہیں۔ اس کا ڈر ہمیں اس کا غلام یعنی اس کا بندہ بنا دیتا ہے۔ کتنے شرم کا مقام ہے کہ ہم آج کل امریکا کے بندے ہیں، جو رب ہمارا خالق ہے ہم نے اس کو فراموش کر دیا ہے۔ لیکن وہ کہاں فراموش ہونے والی ذات ہے۔ اس نے خود کہا میں نے چاہا پہچانا جاؤں تو میں نے دنیا خلق کی اور اس میں پھر اپنے محبوب بندوں کو خلق کیا، جو دیگر مخلوق کے لئے میری پہچان بنے۔ ہم نے ان کو بھی فراموش کر دیا۔

دولت، جاہ وجلال، رعب و دبدبہ اور ڈالروں کی چمک دمک نے ہم کو سیاہ رات کی گھپ اندھیر گہرائیوں میں لا پھینکا، ہم تنزلی کی گہرائیوں میں ایسے ڈوبے کہ اپنا آپ ہی بھول گئے۔ لیکن وہ ذات پھر جلال میں آتی تو ہے، اس کے جلال کا وہ لمحہ آن پہنچا ہے، دراز کی گئی رسی کو پہلے پہلے وہ ذرا سی ’’تونک‘‘ لگاتا ہے۔ کوئی سمجھ جائے تو ٹھیک ورنہ پھر وہ اس کی بساط لپیٹ دیتا ہے۔ امریکا کی جتنی رسی دراز ہونا تھی ہوگئی، اب امریکا بھی برطانیہ اور روس کے راستے پر چل پڑا ہے، اسی کی منزل بھی وہی بربادی ہے، اس کی فرعونیت کا سورج بھی غروب ہونے کیلئے مغرب کی تاریکی کی جانب بڑھ رہا ہے، امریکا کی بھی شام ہونے والی ہے۔

امریکا بھی اب تیسری دنیا کے ملکوں میں صف میں واپس آ کر کھڑا ہو جائے گا۔ اب اس کی جگہ صرف اللہ کی حاکمیت قائم ہوگی، ایسی حکومت قائم ہوگی جس میں عدل وانصاف کا بول بالا ہوگا، جہاں ظلم کا نام ونشان نہیں ہوگا، جہاں انسان کی قدر ہوگی، جہاں انسانیت ہوگی۔ امریکا ٹوٹنے جا رہا ہے، اس کا طلسم اب مزید قائم نہیں رہے گا۔ کیونکہ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، امریکا نے بہت مظالم کر لئے، اپنے سپر پاور ہونے کے زعم میں بہت سے ممالک کو لتاڑ لیا، اب دنیا کی سپریم پاور آنے والی ہے، جو ظلم و جور کا مکمل خاتمہ کر دے گی۔
خبر کا کوڈ : 212432
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Kuwait
بہت ہی جوشیلا اور بہترین تھا۔
ہماری پیشکش