0
Tuesday 20 Nov 2012 23:54

ملک عبداللہ دینی مرکز اور افغانستان میں شدت پسندی کا فروغ

ملک عبداللہ دینی مرکز اور افغانستان میں شدت پسندی کا فروغ
اسلام ٹائمز- افغانستان نے ہمیشہ سے پاکستان کی جانب سے شدت پسندانہ افکار کی ترویج اور طالبان کی حمایت کرنے کی بابت اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ افغانستان میں ہی ایسے دینی مدارس تعمیر کئے جائیں جنکی بدولت افغان شہری دینی تعلیم کے حصول کیلئے پاکستان جانے کی ضرورت محسوس نہ کریں اور اس طرح سے ملک میں طالبانی سوچ کی ترویج کو روکا جا سکے۔ لیکن افغانستان نے اس مقصد کے حصول کیلئے ایک ایسی حکومت کی جانب رجوع کیا ہے جو بذات خود وہابیت کی شکل میں تحجر اور تنگ نظری کا منبع جانی جاتی ہے یعنی سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ وہ کابل میں این بڑا دینی مرکز تعمیر کرے۔

کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا ملک عبداللہ کے نام سے موسوم یہ دینی مرکز افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مرکز میں واقع مرنجان پہاڑی کی چوٹی پر 60 ایکڑ رقبے پر تعمیر کیا جانا ہے۔ اس دینی مرکز کی تعمیر کا معاہدہ افغانستان کے وزیر حج و اوقاف یوسف نیازی اور سعودی عرب کے وزیر حج بندر بن محمد الحجار کے درمیان طے پایا ہے۔ اس دینی مرکز میں یونیورسٹی کی تعمیر کے علاوہ اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد کی طرز پر ایک بڑی مسجد بھی تعمیر کی جائے گی۔ یاد رہے اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد سعودی عرب کی جانب سے تعمیر کی گئی ہے جس میں 15 ہزار افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ مسجد جو 1986ء میں تعمیر کی گئی ہے دنیا کی چند بڑی مساجد میں شمار کی جاتی ہے۔

سعودی عرب ان تین ممالک میں سے ایک ہے جس نے طالبان کی شدت پسند اور دہشت گردی کی حامی حکومت کو رسمی طور پر تسلیم کر رکھا تھا۔ باقی دو ممالک پاکستان اور متحدہ عرب امارات تھے۔ سعودی عرب اب بھی دنیا کے اکثر حصوں میں اپنی تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والے ڈالرز کے ذریعے ایسے افکار و نظریات کو ترویج دینے میں مشغول ہے جو رواداری اور پرامن بقائے باہمی کے جان لیوا دشمن تصور کئے جاتے ہیں۔ گذشتہ عشرے کے دوران وہابی طرز تفکر سعودی حکومت کے علاوہ افغانستان میں بھی طالبان کے روپ میں جلوہ نمایی کرتا رہا ہے۔

طالبان حکومت کے غیرانسانی رویے کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں۔ طالبان نے شریعت کے نفاذ کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسلام کے خوبصورت اور حسین چہرے کو انتہائی بگاڑ کر دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ طالبان حکومت نے اسلامی شریعت کے نفاذ کا دعوی کرتے ہوئے افغان شہریوں کے بنیادی حقوق تک کو روند ڈالا اور خاص طور پر خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا دیئے۔ لیکن ان تمام مذموم اقدامات کے باوجود سعودی عرب نے ہمیشہ اسکی حمایت کو جاری رکھا۔

البتہ اس میں کوئی خاص تعجب کی بات نہیں کیونکہ خود سعودی عوام بھی اپنے ملک کے سیاسی نظام میں کسی قابل توجہ حیثیت کے حامل نہیں ہیں۔ سعودی عرب میں سیاسی ترقی کوئی معنا و مفہوم نہیں رکھتی اور اس ملک میں سیاسی پارٹیوں کی تشکیل اور سیاسی شرکت کے بارے میں کوئی بات کرنا تلخ مذاق کے مترادف ہے۔ سعودی عرب میں انتہائی متعصبانہ صنفی نظام حکمفرما ہے اور خواتین کو حتی ڈرائیونگ لائسنس لینے کا حق بھی حاصل نہیں۔

کرزئی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کی منظوری دیئے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس مرکز کی تعمیر سے پیدا ہونے والے سنگین اور مہلک نتائج سے کافی حد تک آگاہ نہیں ہے یا بعض مختصر مدت کے مفادات کے حصول کی خاطر ایک بڑا اور خطرناک جوا کرنے جا رہی ہے۔ بعض اوقات ایک غیرعاقلانہ سیاسی فیصلہ ایک معاشرے کو کئی سالوں بلکہ کئی عشروں تک غلط اور انحرافی راستے پر ڈل جانے کا باعث بن جاتا ہے۔ مذکورہ مسئلہ کا بھی اسی تناظر میں بغور جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت صدر کرزئی نے اپنے اس فیصلے سے وہابیت اور سلفی گری کے اس مرکز کو جو طالبانی تفکرات و نظریات کا سرچشمہ ہے اور جس سے انہیں ہمیشہ پریشانی لاحق رہی ہے اپنے ملک کے دارالحکومت میں منتقل ہونے کا بہانہ فراہم کیا ہے۔

ایسا سوچنا کہ سعودی حکام نے کسی منصوبہ بندی اور لمبی مدت میں افغان عوام کی دینی سوچ و نظریات پر اثرانداز ہونے کے ارادے کے بغیر اس یونیورسٹی کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے انتہائی سادہ لوحانہ ہو گا۔ اس پریشانی کا حق بجانب ہونا ماضی میں سعودی عرب کی سرگرمیوں اور تاریخ کے مختص جائزے سے ثابت ہو جاتا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس دینی مرکز کی تعمیر کے تمامتر اخراجات سعودی عرب نے اپنے ذمہ لے رکھے ہیں اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے مالی اسپانسرز کس حد تک اس ادراے کی تعلیمی سرگرمیوں اور وہاں پر پڑھائے جانے والے نصاب اور تعلیمی منصوبہ بندی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

اس دینی مرکز کی اہمیت اس وقت زیادہ اجاگر ہو کر سامنے آتی ہے جب ہم دہشت گردی کے مسئلے کو سامنے رکھتے ہیں۔ آج کے دور میں عالمی برادری کو درپیش بڑے اور سنگین خطرات میں سے ایک دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے دہشت گرد گروہ عالمی سطح کے اہداف لئے ہوئے ہیں اور وہ ان اہداف کے حصول کیلئے ہر قسم کا راستہ اور روش اختیار کئے جانے کو جائز قرار دیتے ہیں چاہے یہ راستہ شدت پسندی اور دہشت گردی کا راستہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ دہشت گرد گروہ کسی منطق کے حامل نہیں اور ان سے کسی بھی معاملے میں مفاہمت کا حصول ناممکن ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ جس خطے میں بھی ہوں اس خطے، اسکے اردگرد موجود ممالک اور عالمی برادری کیلئے شدید خطرہ جانے جاتے ہیں۔

انہیں دہشت گروہوں میں سے ایک اہم اور خطرناک گروہ القاعدہ ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اس دہشت گرد گروہ کے فکری اور عملی حامیوں میں سے ایک اہم حامی سعودی عرب جانا جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے وہابی افکار کی ترویج اور پھیلاو کے ذریعے نہ فقط اسلام کی ایک خشک اور متحجرانہ شکل دنیا والوں کے سامنے پیش کی ہے بلکہ اپنے تربیت یافتہ افراد کو مطلوبہ اہداف تک پہنچنے کیلئے ہر روش استعمال کرنے کا مجوز بھی دے رکھا ہے۔ چاہے یہ روش شدت پسندی اور قتل و غارت پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔

ان تربیت یافتہ افراد کی زندہ مثال اس وقت شام میں حکومت مخالف دہشت گرد گروہوں کی صورت میں موجود ہے۔ یہ افراد وہی مجاہدین ہیں جو کسی زمانے میں افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف جہاد میں مشغول تھے اور پھر امریکہ نے نائن الیون کے بعد انہیں خطرناک دہشت گرد قرار دیتے ہوئے القاعدہ کے طور پر دنیا والوں کو متعارف کروایا۔ آج سعودی عرب کے ڈالرز اور وہابی افکار کے ذریعے پرورش پانے والے القاعدہ کے یہ دہشت گرد شام میں امریکی مفادات کی خاطر سرگرم عمل ہیں۔

افغانستان میں سعودی ڈالرز کی مدد سے تعمیر ہونے والا دینی مرکز ایک اور لحاظ سے بھی ایک بہت بڑا خطرہ محسوب ہوتا ہے۔ یہ لحاظ افغانی معاشرے کی مخصوص صورتحال ہے۔ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں انتہائی درجہ کی عقب ماندگی اور غربت پائی جاتی ہے اور نیٹو فورسز کی موجودگی نے اس ملک کی بدحالی اور فقر میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ افغان عوام بیرونی قوتوں کی جانب سے انتہائی ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی طالبان کے متحجرانہ رویے کا تلخ تجربہ کیا ہے تو کبھی اجنبی قابض قوتوں کی جانب سے اپنے ملک پر قبضے کے شاہد رہے ہیں۔ کئی سالوں پر مبنی شدید مشکلات اور محرومیت نے افغان عوام میں بے چینی کو جنم دیا ہے۔

افغانی جوان موجودہ ملکی صورتحال سے شدید بیزار ہیں اور ایسی ہر آواز پر لبیک کہنے کو تیار ہیں جو انہیں اس صورتحال سے نجات کی نوید دلاتی ہو۔ درحقیقت یہ جوان جو ایک عرصے سے بیرونی قوتوں کے تسلط کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور مذہبی رجحانات کے بھی حامل ہیں بہت آسانی سے ایسے گروہوں کی طرف متمایل ہو کر ان میں شامل ہو سکتے ہیں جو انہیں سلفی اسلام کی جانب پلٹنے کا وعدہ دے کر اس افسوسناک سیاسی صورتحال سے نجات دلانے کی امید دلاتے نظر آتے ہیں۔ یہ سوچ انہیں اپنی حکومت کے مقابلے میں لا کھڑا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور غرب ستیزی کے بہانے انہیں ہر مقصد کیلئے استعمال بھی کر سکتی ہے۔

لہذا افغانستان میں ایسے دینی مرکز کی تعمیر جوانوں میں وہابی متحجرانہ سوچ کی ترویج کے ساتھ ساتھ دہشت گردانہ اقدامات کیلئے انسانی قوت کی فراہمی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ افغانستان ایک بار پھر متحجرانہ شدت پسندی کی دلدل میں پھنستا ہوا نظر آئے گا۔
خبر کا کوڈ : 213140
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش