0
Tuesday 20 Nov 2012 00:40

غزہ کا عاشورا

غزہ کا عاشورا
تحریر: ثاقب اکبر
 
علامہ عارف الحسینی شہید ہوئے تو ایک نظم خون ہو جانے والے سینے سے پھوٹی تھی:
کربلائے عصر کے میدان میں
اے حسین(ع) آؤ لپک کر
اور اک لاشہ گرا
آپ کا اک اور بیٹا
دشمنوں کے جور سے مارا گیا
عاشورائے حسینی کی آمد آمد تھی کہ غزہ پر آتش و آہن کی بارش شروع ہوگئی۔ ایسے میں مجھے یہ نظم پھر سے یاد آنے لگی۔ صہیونیوں نے بہت سے حملے محرم الحرام اور رمضان شریف میں کئے۔ 2008ء دسمبر میں اسرائیل نے محرم الحرام کے آنے سے دو دن پہلے غزہ پر یورش شروع کی تھی اور اب کی مرتبہ بھی اس نے محرم الحرام کی آمد سے دو روز پہلے غزہ پر اپنے حملے کا آغاز کیا ہے۔ وہ جان بوجھ کر مسلمانوں پر ظلم کا وار کرنے کے لیے ایسے مہینوں کا انتخاب کرتے ہیں جو مسلمانوں کے نزدیک زیادہ محترم ہیں۔
 
محرم الحرام کی آمد کے موقع پر اسرائیل کی تازہ بربریت کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں اور اس کے ممکنہ طور پر کیا نتائج برآمد ہوں گے، ہم ان سوالوں کا ذیل میں جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، البتہ پہلے ہم اپنے جنوری 2009ء کے آخر میں لکھے گئے ایک تجزیے سے چند سطریں نذر قارئین کرتے ہیں:
محرم کا مہینہ غزہ میں کس طرح سے گزرا، کسے خبر نہیں ہے۔ ایسے میں بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ اس جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا۔ جن کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ تھا وہ جیتے یا جو غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ جیتے؟ جن کے ساتھ دنیا کی طاقتور ترین حکومتیں اور ادارے تھے وہ جیتے یا جن کی حمایت میں صرف کاغذوں اور لفظوں کی قراردادیں تھیں، وہ جیتے؟ اسرائیلی ذرائع کے مطابق ایک طرف تیرہ سو سے زیادہ نہتے انسان خاک وخون میں لوٹ گئے اور دوسری طرف صرف 13 فوجی کام آئے، جن میں سے دو اپنی ہی فوج کی فائرنگ کی زد میں آئے تھے۔ 

آزاد ذرائع کے مطابق غزہ میں اکتالیس مسجدیں شہید ہوئیں۔ سکول ملبے کے ڈھیر میں بدل گئے۔ انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا، کاروبار اجڑ گئے، ہسپتال تک تباہی کی زد میں آگئے۔ امریکہ اور اس کے تمام ساتھی حماس کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، جو فلسطین کے عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ جسے انھوں نے اپنا اکثریتی ووٹ دے کر اپنی حکومت کے لئے چنا تھا اور جسے اسرائیل اور امریکہ نے حکومت میں باقی رہنے کی اجازت نہیں دی۔ جس نے غزہ کے طویل محاصرے سے تنگ آکر مقامی طورپر تیار کیے گئے راکٹوں کی مدد سے اسرائیل کی خون آشام اور قہر سامان فوج کے مقابلے کا فیصلہ کیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی نظر میں پھر بھی اسرائیل مظلوم ہے اور حماس ظالم۔ سانحہ غزہ کو جنگ قرار دینا، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ کیا خالی ہاتھ اور نہتے انسانوں اور دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے لیس ایک وحشی فوج کے درمیان کوئی جنگ ہوا کرتی ہے؟
 
آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ غزہ دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہے۔ یہ کسی باقاعدہ بستی یا ملک کا نام نہیں۔ یہ مظلوم فلسطینیوں کی آبادی کے ایک حصے کا اپنی ہی سرزمین کے ایک گوشے میں ایک مہاجر کیمپ ہے جو 6x40 کلو میٹر رقبے پر مشتمل ہے اور جس کی آبادی 17 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں حماس کی منتخب حکومت قائم ہے۔ 2008ء میں بھی یہی حکومت یہاں پر قائم تھی، جسے ویسے تو اکثریتی ووٹ کے ساتھ سارے فلسطینیوں نے منتخب کیا تھا، لیکن اسرائیل کو یہ گوارا نہیں کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے اور عزت سے جینے کا حق مانگنے والے افراد فلسطین پر حکومت کریں۔ لہٰذا انھوں نے مختلف حیلوں اور سازشوں سے حماس کی حکومت کو غزہ کے اندر محصور ہونے پر مجبور کر دیا۔ حماس، امریکہ اور اس کے حواریوں کی نظر میں لبنان کی حزب اللہ کی طرح ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
 
یاد رہے کہ 2008ء کے آخر میں کیے جانے والے حملے میں اگرچہ فلسطینیوں کو بھاری قربانیاں دینا پڑیں، لیکن اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے غزہ میں اپنے مقاصد میں ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی شین بیت کے اس وقت کے سربراہ یاور ڈکسن نے اسرائیلی کابینہ کے اجلاس میں بتایا تھا کہ اسرائیل مصری سرحد کے ساتھ اسلحے کی سمگلنگ کے لیے بنائی گئی سرنگیں مکمل طور پر تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حماس کے راہنما اسماعیل ہانیہ نے بھی عوام سے ٹی وی پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ دشمن اپنے مقاصد میں ناکام رہا ہے۔ بادی النظر میں اسرائیل کا نیا حملہ اپنی گذشتہ شکست کی تلافی اور حماس کی دفاعی طاقت کے خاتمے کے لیے کیا گیا ہے۔
 
تاہم نیا حملہ کئی حوالے سے اپنے وقت کے لحاظ سے بہت معنی خیز ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ حماس کو اخوان المسلمین کی ہی برانچ سمجھا جاتا ہے۔ اخوان المسلمین ایک عالمی تنظیم ہے، جو عالم عرب کے علاوہ دنیا کے دیگر کئی ممالک میں قائم ہے، جن میں وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ حال ہی میں سری لنکا میں بھی اس کی برانچ قائم ہونے کی اطلاع ملی ہے۔ اخوان المسلمین کا مرشد عام ان سب برانچوں کا سربراہ ہوتا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین نے انتخاب لڑنے کے لیے ایک الگ سے سیاسی جماعت تشکیل دی ہے جو سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اب برسراقتدار ہے۔ مصر کے موجودہ صدر ڈاکٹر محمد مرسی اسی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔
 
بظاہر اخوان المسلمین کی یہ حکومت بہت سنبھل سنبھل کر قدم آگے بڑھا رہی ہے۔ اس نے اپنے عوام کی خواہش کے باوجود ابھی تک اسرائیل سے سفارتی روابط منقطع نہیں کیے اور رسوائے زمانہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے بھی علیحدگی اختیار نہیں کی، جب کہ انقلابی مصریوں نے قاہرہ میں موجود اسرائیل کے سفارتخانے کو نذر آتش کر دیا تھا اور اس کا پرچم اتار کر عمارت پر مصری پرچم لہرا دیا تھا۔ اسرائیل کی خواہش یہ ہے کہ موجودہ مصری حکومت امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے سامنے اپنا واضح موقف اختیار کرے اور یہ بتائے کہ کیا وہ اسرائیل کی بقا کی حامی ہے یا نہیں۔ 

غزہ پر موجودہ اسرائیلی چڑھائی نے اخوان المسلمین کی مصری حکومت کو پل صراط پر چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مصر نے غزہ پر حملے کے فوری بعد اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا، جس کے نتیجے میں اسرائیلی سفیر بھی قاہرہ سے تل ابیب واپس چلا گیا۔ علاوہ ازیں مصر میں عرب لیگ کا اجلاس بھی اس واقعے پر غور و فکر کرنے کے لیے طلب کیا گیا۔ مصر کے وزیراعظم بھی غزہ کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ ان تمام اقدامات سے یہ تو ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ مصر کی موجودہ حکومت حسنی مبارک کی حکومت سے بہت مختلف ہے، لیکن غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو بچانے کے لیے بالآخر یہ حکومت کہاں تک جائے گی۔ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب مصر اور غزہ کے لوگ بھی جاننا چاہتے ہیں اور اسرائیل بھی۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ مصر گو مگو کی پالیسی اختیار کرے۔
 
دوسری طرف مصر کی موجودہ حکومت ابھی داخلی طور پر اس فوج کے مقابلے میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے جو روایتی طور پر امریکہ کی حلیف چلی آ رہی ہے۔ حکومت کی یہ خواہش نہ تھی کہ وہ ’’غیر ضروری طور پر‘‘ اپنے آپ کو انقلابی ثابت کرے، لیکن یوں لگتا ہے کہ حالات اسے ایک خاص سمت میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں یہ خبر دی ہے کہ مصری عوام کی کثیر تعداد غزہ کی طرف مارچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس مقصد کے لیے مصر اور اسرائیل کے بارڈر پر عوام جمع ہو رہے ہیں۔ مصر کی الکرامہ پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ بے فائدہ احتجاج کے بجائے منگل کے روز (20نومبر) رفاہ بارڈر پر اکٹھے ہوں گے اور غزہ میں داخل ہوں گے، تاکہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ حقیقی یکجہتی کا اظہار کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم فلسطینیوں کو اسرائیلی بمباری سے بچانے کے لیے انسانی زنجیر بنائیں گے۔ 

اخوان المسلمین نے بھی جمعہ 23 نومبر 2012ء کو اسرائیل کے خلاف ایک عظیم الشان مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔ بہرحال مصری حکومت اس وقت معرض امتحان میں ہے اور ہماری نیک تمنائیاں اس کے ساتھ ہیں۔ یہاں یہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ اپنے اپنے مقام پر تیونس، مراکش، اردن اور سعودی عرب بھی ایک مرتبہ پھر امتحان سے دوچار ہیں۔ ترکی جس نے غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں گذشتہ برسوں میں عالمی سطح پر آواز بلند کرکے اپنے لیے مسلمانوں کے دلوں میں پھر سے ایک امید کی کرن روشن کی تھی، اسے بھی اس موقع پر اپنا حقیقی کردار ادا کرنا ہے، ورنہ خود ترکی کے عوام موجودہ حکومت سے مایوس ہو جائیں گے، جو غزہ پر حملے کے پہلے دن سے ہی اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ 

دوسری طرف حماس کے راہنما اسماعیل ہانیہ نے عرب اور مسلمان حکمرانوں سے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے خاص طور پر مصر کا نام لے کر امداد کی اپیل کی ہے۔ دریں اثنا امریکہ حسب معمول اسرائیل کی جارحیت کی حمایت کر رہا ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کو زمینی فوج غزہ میں داخل نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہم غزہ کو پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے اور اس پر ایسی تباہی نازل کریں گے کہ وہاں سے 40برس تک اسرائیل کے خلاف کارروائی نہ کی جاسکے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اگرچہ اس مسئلے پر فوری طور پر بند دروازوں کی اوٹ میں ایک اجلاس طلب کیا، لیکن یہ اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔ 

یوں معلوم ہوتا ہے کہ غزہ پر موجودہ اسرائیلی حملہ عالمی سطح پر پہلے کی نسبت زیادہ گہری اور وسیع تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ انہی دنوں میں یہ ثابت ہو جانا ہے کہ جن ملکوں میں تبدیلی آئی ہے، وہاں کس حد تک عوامی آرزوؤں کی نمائندہ حکومتیں برسراقتدار آئی ہیں اور کہاں پر تبدیلی فقط نمائشی ہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے اچھا ہوگیا کہ ابھی عوام کے اندر بیداری کی ایک انقلابی لہر موجود ہے اور اسے ایک خاص رخ اختیار کرنے میں اب زیادہ مشکل بھی پیش نہیں آئے گی اور دیر بھی نہیں لگے گی۔
 
امریکہ اگرچہ اسرائیل کا زبردست حامی ہے، لیکن برطانیہ کے اسرائیل کو موجودہ مشورے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہنہ مشق بوڑھے سامراج کے نزدیک اب اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کے دن لد چکے ہیں، شاید وہ امریکہ کو بھی یہ مشورہ دے گا کہ اسرائیل کی حمایت میں عملی طور پر زیادہ آگے جانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ مشورہ تبھی دیا جاسکتا ہے جب اندر سے برطانیہ میں حاکم نظام امریکہ کے لیے کوئی حقیقی خیر خواہی رکھتا ہو اور اس کے طرز عمل سے اندر ہی اندر سے نالاں نہ ہوں۔ امریکہ جو اپنی فوجی مشینری کے بھاری بوجھ کو اتار کر اپنے داخلی معاشی مسائل کی طرف توجہ دینا چاہتا ہے، تاکہ عوام کو کسی حد تک مطمئن کرسکے اور علیحدگی پسندی کی اٹھتی ہوئی لہر کو دبا سکے، اگر اسے اسرائیل کی حمایت میں کچھ بڑے فوجی اور معاشی اقدامات کرنے پڑے تو خود داخلی طور پر اس کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
 
شاید اسرائیل اپنی زندگی کی آخری بازی لڑنے کے درپے ہے۔ وہ حماس کے راکٹ فائر کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنے پہلے حملے میں بھی ناکام ہو چکا ہے اور اب تو حماس کے راکٹ تل ابیب تک جا پہنچے ہیں، جس سے اسرائیل کے باسیوں میں خوف اور وحشت کی لہر میں اضافہ ہو گیا ہے۔ دوہری شہریت کی حامل اسرائیل کی کثیر آبادی خوف کی ایک بڑی لہر کے بعد اس سرزمین سے واپسی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور فلسطین کی سرزمین پر قائم ایک جعلی ظالم ریاست ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔ البتہ اس کے لیے ظلم کی مخالف اور مظلوم کی حامی قوتوں کو ایک جرات مندانہ اجتماعی موقف اختیار کرنا ہے۔ شاید حالات اب بہت سے ملکوں کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 213207
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش