0
Thursday 29 Nov 2012 00:25

ملکی سلامتی اور دہشتگردوں کے عزائم

ملکی سلامتی اور دہشتگردوں کے عزائم
تحریر: تصور حسین شہزاد

قوم کے اتحاد نے دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے اور عاشورا گزشتہ برس کی طرح امسال بھی امن وامان سے گزر گیا۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت، پنجاب پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے، علماء کرام، ذاکرین عظام اور عام شہری، تمام کے تمام طبقے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دہشت گردوں نے ایک خوف کی فضا قائم کی، اس میں ہمارے ذہین فطین وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی حسب توفیق ان کا بھرپور انداز میں ساتھ دیا اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پوری قوم کو ذہنی و نفسیاتی طور پر پریشان رکھا کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ خطرناک تباہی کے بیانات سے لے کر موٹر سائیکل، ڈبل سواری اور موبائل فون سروس پر پابندی تک، ہر مرحلے پر وزیر داخلہ صاحب کی ذہانت کام آئی اور عاشورا پُرامن رہا۔

ہمارے ملک کی ’’خوش قسمتی‘‘ ہے کہ ہمیں ہمیشہ ایسے حکیم و ذہین حکمران نصیب ہوئے ہیں، جنہوں سر درد کا علاج ’’سر کو ہی کاٹ دو‘‘ تجویز کیا۔ دہشت گردی کا علاج دہشت گردوں کی سرکوبی کی بجائے یہ تجویز کیا گیا کہ موٹر سائیکل بند کر دی جائے، موبائل فون سروس بند کرکے لوگوں کو شدید ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیا جائے کہ دو دن تک کسی کو کسی کا پتہ تک نہ چلے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت دہشت گردوں کا کوئی علاج سوچتی لیکن یہاں گنگا ہمیشہ الٹی بہتی ہے۔ رحمن ملک صاحب کی منطق بھی عجیب ہے۔ یہاں تک کہ ان کے بارے میں عوامی حلقوں میں یہ بات تک سنی گئی کہ دہشت گردی خود رحمن ملک کروا رہے ہیں۔

رحمن ملک کے حوالے سے یہ بات اتنے تواتر کے ساتھ کی گئی کہ لوگ سچ سمجھنے لگ گئے اور وزیراعلٰی پنجاب تک پریشان ہوگئے اور انہوں نے سکیورٹی اداروں کے ذمہ داران کے اجلاس میں واضح طور پر کہہ دیا کہ ہماری حکومت کو پریشان کرنے کیلئے دہشت گردی کروائے جانے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے سکیورٹی سسٹم مضبوط کر دیا جائے اور واقعی سکیورٹی اداروں نے انتہائی ذمہ داری سے کام کیا اور امن دشمن قوتوں کے عزائم ناکام بنا دیے۔

رحمن ملک کی باتوں کے حوالے سے ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے کا عادی تھا، ایک دن اس نے جھوٹ بولا کہ ’’لوگوں، ادھر بریانی تقسیم ہو رہی ہے، جلدی سے پلیٹیں لے کر آ جاؤ‘‘ اس کا جھوٹ سن کر لوگ پلیٹیں اُٹھائے اس کی نشاندہی کردہ جگہ کی جانب دوڑ پڑے، بریانی لینے کے لئے جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ یہ دیکھ کر وہ جھوٹ بولنے والا خود بھی پلیٹ اُٹھا کر بریانی لینے بھاگ پڑا کہ اتنے لوگ جو جا رہے ہیں ہوسکتا ہے واقعی بریانی تقسیم ہو رہی ہو۔ ہمارے ہاں رحمن ملک کی بیانات کی صورت حال ویسی ہی ہے جس طرح اس بریانی کا جھوٹ بولنے والے کی تھی۔

رحمن ملک صاحب تو اس طرح بیانات دیتے ہیں جیسے دہشت گرد ان کے ساتھی ہوں۔ مثلاً دہشت گرد ہتھیار ڈال دیں عام معافی دے دیں گے، کسی واردات کے ہو جانے کے بعد بیان جاری ہوتا ہے، ہم آئندہ ایسی حرکت کی اجازت نہیں دیں گے۔ دہشت گردوں کا علم ہوچکا ہے، کون ان کو استعمال کر رہا ہے جلد ان تک پہنچ جائیں گے، دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک پہنچ چکے ہیں، جلد ہی گرفتار کر لیں گے، دہشت گردی میں لشکر جھنگوی ملوث ہے، دہشت گردی میں طالبان ملوث ہیں، انہیں نشان عبرت بنا دیں گے‘‘ ۔۔۔ اور ایسے بہت سے بیانات عالیہ وزیر داخلہ صاحب کی زبان مبارک سے جاری ہوتے ہیں۔ اب ان بیانات کی کڑیاں جوڑی جائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رحمن ملک صاحب خود ہی دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ایسے میں دہشت گردوں کو اپنے بیانات میں ہدایات بھی جاری کی جاتی ہیں۔

رحمن ملک صاحب ہمارے بھولے بادشاہ ہیں، جنہیں ہٹا ہٹا کر بھی وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے جس سے کسی اور جانب بھی اشارہ جاتا ہے کہ عدلیہ کا ٹھکرایا ہوا بندہ بار بار ہی وزارت داخلہ سے ہی کیوں چمٹا ہوا ہے۔ بہرحال، ہمارے وزیراعلٰی شہباز شریف کی حکمت عملی لائق تحسین ہے۔ انہوں نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور دہشت گردی کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ محرم الحرام کے دوران پنجاب بھر سے پکڑے جانے والے 35 دہشت گردوں سے شفاف انداز میں تفتیش کی جائے اور ان کے دیگر ساتھیوں اور سرپرستوں کے بارے میں معلومات لے کر ان کے خلاف بھی اور ان گرفتار دہشت گردوں کے خلاف بھی جلد ازجلد کارروائی عمل میں لائی جائے اور ایسی کارروائی کی جائے کہ دوسروں کے لئے نشان عبرت بن جائیں۔ یہ وزیراعلٰی پنجاب کے لئے امتحان ہے۔ اگر ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو وزیراعلٰی کا یہ قول درست ہے کہ ان کے دہشت گردوں کیساتھ رابطے نہیں اور اگر یہ دہشت گرد بھی پہلوں کی طرح باعزت رہا ہو جاتے ہیں تو وزیراعلٰی کے تعلقات بے نقاب ہو جائیں گے۔

وزیراعلٰی پنجاب ان گرفتار دہشت گردوں کے خلاف بھی کارروائی کریں، ان کے سرپرستوں کو بھی گرفتار کروائیں اور عدلیہ آزادی کے ساتھ فیصلے صادر کرے، اس کے علاوہ وزیر داخلہ کا یہ واضح بیان کہ ’’دہشت گردی میں لشکر جھنگوی ملوث ہے‘‘ تو پنجاب میں لشکر جھنگوی کے سربراہ کو وی آئی پی پروٹوکول ایک سوالیہ نشان ہے۔ پنجاب حکومت کو اپنی اس پالیسی پر بھی نظرثانی کرنی چاہیے۔ عاشورا کے پُرامن انعقاد سے وزیراعلٰی پنجاب کی قدر عوام کی نگاہوں میں مزید بڑھ گئی ہے اور اگر ان دہشت گردوں کو نشان عبرت بنایا جاتا ہے تو وزیراعلٰی پنجاب کی جماعت آئندہ انتخابات میں بھی اقتدار میں آ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ شیعہ سنی علماء کے احسن ترین کردار پر اُن کو بھی خراج تحسین پیش نہ کیا جائے تو خیانت ہوگی۔ اصل میں ہمارے ملک میں فرقہ واریت ہے ہی نہیں۔ شیعہ اور سنی اول دن سے ہی اکٹھے رہتے آئے ہیں، یہ چند گنتی کے عناصر ہیں جنہوں نے اپنے بہروپ بدل کر شیعہ سنی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور ملک میں فساد کا موجب بن رہے ہیں، ان کے حوالے سے شیعہ اور سنی دونوں کو بیدار مغزی کا ثبوت دینا چاہئے اور ان شرپسند عناصر کو اپنی صفوں سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ اسی میں ملک کی فلاح اور امن کی ضمانت ہے اور امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ملکی سلامتی کے سوا کوئی چیز اہم نہیں ہوا کرتی۔
خبر کا کوڈ : 216045
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش