1
0
Saturday 1 Dec 2012 10:37

صدر احمدی نژاد کا فکر انگیز خطاب

صدر احمدی نژاد کا فکر انگیز خطاب
تحریر: ایم طفیل 

ایران وہ پہلا مسلمان ملک ہے جس نے برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ اس لئے پاک ایران تعلقات پوری امت مسلمہ کے لئے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتے ہیں، اور اگر انہی بنیادوں پر تمام مسلمان ممالک باہمی تعلقات کے قیام کو اپنی اولین ترجیح قرار دے لیں تو وہ دنیا کی ایک زبردست سیاسی واقتصادی قوت بن کر ابھر سکتے ہیں اور ہر قسم کے سیاسی اور اقتصادی دباؤ سے بھی انہیں نجات مل سکتی ہے۔ بہرحال ایران قیام پاکستان کے ساتھ معاہدہ بغداد کا بھی رکن رہا اور عراق میں فوجی انقلاب کے بعد علاقائی تعاون برائے ترقی کی تنظیم میں بھی دونوں ممالک رکن کے طور پر شریک رہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی فکری و نظریاتی ہم آہنگی نے دوستی کے رشتوں اور اتحاد و یکجہتی کو زبردست تقویت دی جو آج تک قائم و دائم ہے۔
 
ایران اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور ڈی ایٹ تنظیم کا بھی رکن ہے اور اس کی رکنیت کے حوالے سے ہی حال ہی میں اسلام آباد میں اس تنظیم کے اجلاس میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی شرکت اور کانفرنس سے ان کا خطاب نہ صرف اس تنظیم کے استحکام بلکہ پوری امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کے رشتوں کو مضبوط و مستحکم بنانے میں خشت ِ اول کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کے خطاب کا ایک ایک لفظ ایک روشن چراغ کی طرح مسلمانوں کی رہنمائی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس خطاب کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ انہوں نے امت مسلمہ میں تفرقہ بازی، نسلی، لسانی اور مذہبی گروہ بندی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے قرآن حکیم کی تعلیمات کے مطابق اس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا اور ملت ِاسلامیہ کو نفاق و افتراق سے دامن بچانے اور اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کے رشتوں کو مضبوط تر بنانے کی وہ راہ دکھائی جس پر چل کر ہم قرآن مجید کے اس ارشاد مبارک کاعملی نمونہ پیش کرسکتے ہیں کہ:
”خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور اپنی صفوں میں تفرقہ بازی نہ کرو کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔“ 

امت مسلمہ کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں رہتا کہ اس کے زوال اور انحطاط میں فرقہ بندی، نسلی، لسانی گروہ بندی نے بنیادی کردار ادا کیا، چنانچہ صدر احمدی نژاد نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ”حضور نبی کریم (ص) نہ شیعہ نہ سنی ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں اور پوری دنیا کے لئے رحمت اللعالمین ہیں۔“ پھر انہوں نے یہ بھی دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ اسلام دشمن قوتوں کی اہم ترین سازش یہ ہے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں۔ وہ دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہی ہیں، لیکن میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ امریکہ اور اسرائیل عنقریب مٹ جائیں گے۔ 

مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری آپس کا اتحاد نہ ہونا ہے جو امریکہ کی اصل طاقت ہے۔ دنیا حق و باطل کا میدان بن چکی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا، لیکن خود اس نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر اڑھائی لاکھ بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کا یہ کہنا امت ِمسلمہ کے لئے ایک صائب مشورہ کا درجہ رکھتا ہے کہ اگر مسلمان ممالک کے اقتصادی مراکز کی اصلاح ہو جائے، میڈیا اور ثقافتیں درست ہوجائیں تو کوئی ہم پر مسلط نہیں ہوسکتا، اگر پاکستان کے عوام اپنے بارے میں فکرمند رہیں اور ایران کے لوگ اپنی فکر میں رہیں تو نجات ممکن نہیں، ہم تمام جہان کے لئے سوچیں گے تو ایک وحدت وجود میں آئے گی، افغانستان، پاکستان اور ایران متحد ہو جائیں تو کوئی طاقت ہمیں کمزور نہیں کرسکتی۔
 
مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ ہم ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ مسلمانوں کی دولت اور ان کے تیل سے مسلمانوں ہی کو مارا جا رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل پورے عالم اسلام پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، چنانچہ ایک وقت تک جب یہ کہتے تھے کہ ہم نیل سے فرات تک قابض ہو جائیں گے اور 20 سال پہلے ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم ایران پر بھی قبضہ جمالیں گے، پھر پاکستان پر قابض ہو جائیں گے، اگر پاکستان پر قابض ہوگئے تو ہندوستان، چین اور جاپان پر بھی قبضہ کرلیں گے۔ وہ پوری دنیا پر اپنی غارت گری مسلط کرنا چاہتے ہیں۔“ 

غرض صدر احمدی نژاد کے خطاب کا ایک ایک لفظ امت ِ مسلمہ کے لئے دعوت ِ فکر و عمل کا درجہ رکھتا ہے کہ وہ پوری دنیا پر اپنی نظر رکھے، انسانی تاریخ کا تجزیہ کرے اور تخلیق آدم کے بنیادی اغراض ومقاصد کو سمجھنے، ان کا صحیح ادراک کرنے کو اپنا مطمع نظر بنالے تو پھر ان تمام مسائل کا پائیدار حل ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کے اندر وہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ اپنے پروردگار کو پالے، لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لئے پہلا مرحلہ توحید ہے، جو انسانی کمالات کا محور و مرکز ہے اور تمام انبیا (ع) نے بھی توحید کی تعلیم ہی کو اپنی کاوشوں کا مرکز بنایا اور انسانیت کو اس کی دعوت دی۔ 

ان کا یہ کہنا بھی حقیقت ثابتہ کا درجہ رکھتا ہے کہ انسان کی دوسری اہم ترین ذمہ داری عدل و انصاف کا قیام ہے۔ ماہرین عمرانیات کے مطابق معاشرے کی تشکیل اور ریاست کے قیام کے بعد بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہر شہری کو بلاامتیاز رنگ و نسل انصاف کی فراہمی قرار پائی، چنانچہ اسلام نے بھی ہر شہری کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کی ذمہ داری کے حوالے سے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ:
”انصاف کرو یہ تمہیں تقویٰ کے قریب لے جاتا ہے“ 

صدر احمدی نژاد نے نہایت موثر اور مدلل انداز میں عالم اسلام کے خلاف استعماری قوتوں اور اسلام دشمن عناصر کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ پوری امت کو آئی ایم ایف، عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور دوسرے مالیاتی اداروں کے چنگل سے باہر نکلنا ہوگا۔ اپنی معیشت کو مضبوط بنا کر اپنی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ کرنا ہوگا، معاشی اور اقتصادی استحکام ہی انہیں ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے نجات دلا سکتا ہے۔ اس کے لئے اگر عالم اسلام کے اقتصادی وسائل کو یکجا کر لیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمان ممالک پر اقتصادی دباؤ نہیں ڈال سکتی۔ 

ہمارا دین ایک ہے، ہمارا قرآن ایک ہے، ہمارے رسول اور آخری نبی ایک ہیں۔ جنہوں نے پوری امت کو جسد واحد قرار دیا پھر ہمارے لئے مذہبی فرقہ بندی کا کیا جواز ہے؟ آخر ہم کیوں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ عراق، افغانستان، کشمیر، فلسطین اور میانمار میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، ان کے خون سے ان کی سرزمین سرخ ہوگئی ہے اور انہیں خاک و خون میں نہلایا جا رہا ہے۔ ہماری صفوں میں نفاق نے ہی انہیں یہ راستہ دکھایا ہے۔ احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ ان حالات سے نمٹنے اور اپنی بقا و سلامتی کے لئے پوری امت کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنا ہوگا، جب تک صیہونی قوتیں دنیا پر قابض رہیں گی، انسانی سلامتی دنیا اور بالخصوص امت مسلمہ کے تحفظ و سلامتی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 216681
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Ya Allah Pak
Tu Rahman He,
Tu Hi Raheem He,
Tu Hi Kareem He,,,
Tujhe Teri Kreemi Ka Wasta,,,
Sab Muslimanon Ko Ye Ihsas Ata Kr Ke Sab Ki Soch +ve Ho Jaaye Or Ek 2sry Ke Dukh Sukh Ke Sathi Ban Jayen....
(Aameen)
Buhat Achhe Ap Khitabat Karte Rahen Insha Allah Zror Rung Laayegi Ap Ki Khitabat Humari Dua Ap Ke Sath He...
ہماری پیشکش