0
Friday 7 Dec 2012 10:47

جنگ کا رُخ خلیج سے بحر احمر کی طرف

جنگ کا رُخ خلیج سے بحر احمر کی طرف
تحریر: نصرت مرزا 

ایران بہتر جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس نے جنگ کا رخ خلیج فارس سے بحر احمر کی طرف موڑ دیا۔ 2012ء کے پورے سال خلیج فارس میں جنگی جہازوں کا اجتماع ہوتا رہا۔ امریکی، اسرائیلی اور یہاں تک کہ برطانوی جنگی جہاز یہاں آتے گئے اور امریکی اور مغربی دنیا کی فوجی قیادت تدابیر سوچتی رہی کہ اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند کرے اور دنیا کی پانچویں بڑی سپلائی لائن معطل ہو تو اس کو کیسے روکیں۔ اُن کو خدشہ تھا کہ ایران آبنائے ہرمز کو اپنی چھوٹی آبدوزوں کے ذریعے بارودی سرنگوں سے بھر دے گا اور یہ راستہ منقطع ہو جائے گا۔ اس عمل کو روکنے کیلئے امریکہ کا چھٹا بحری بیڑہ بحرین میں تعینات کر دیا گیا، چار سو کے قریب اور جہاز یہاں آکر جمع ہوگئے، یہاں مشقیں بھی ہوئیں۔ 

پہلے امریکہ اور اتحادیوں نے چار بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والے جہازوں سے بارودی سرنگوں کو صاف کرنے کا مظاہرہ کیا تو اس کے بعد ایران نے2 اکتوبر 2012ء سے جنگی مشقیں شروع کیں۔ انہوں نے اسٹیلتھ طیارے کو ریڈار کی اسکرین پر دیکھنے کا مظاہرہ کیا اور سب سے اہم کام یہ کیا کہ غزہ سے اسرائیلی سرحد کے اندر 55 کلومیٹر تک ایک ڈرون طیارہ گھسا دیا۔ جس نے جنگ کا سارا رُخ غزہ کی پٹی پر کر دیا اور یہاں 2006ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ کے بعد نومبر کے مہینے میں آٹھ روزہ جنگ ہوئی، جو 21 نومبر کو اختتام پذیر ہوئی۔ مگر اس سے پہلے بحر احمر میں واقع سوڈان کی ایک فیکٹری پر 22 اکتوبر 2012ء کو اسرائیل کے چار جیٹ طیاروں نے حملہ کرکے تباہ کر دیا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب امریکہ اور اسرائیل سب سے بڑی جنگی مشق کر رہے تھے۔ یہ مشق 21 اکتوبر تا 11 نومبر 2012ء تک چلتی رہی اور 15 نومبر کو اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا۔ ان مشقوں کو ”سخت گیر مقابلہ کار“ کا نام دیا گیا۔ 

اسرائیلی اور امریکی یہ کہتے ہیں کہ دراصل حماس پر حملے کا مقصد اسرائیل کے"’Iron Dome System میزائل روک نظام" کو جانچنا تھا۔ اسرائیلیوں کا دعویٰ تھا کہ خرطوم کے راستے ایرانی کوئی 12 ہزار فجر میزائل غزہ بھیج چکے تھے۔ جن میں سے اب اس آٹھ روزہ جنگ میں کثیر تعداد میں ضائع ہوئے۔ اسرائیل نے اُن کے گوداموں پر حملہ کرکے تباہ کر دیا یا اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ حماس نے تقریباً 1500 میزائل اسرائیل کے ایسے علاقوں میں داغ دیئے جہاں آبادی نہیں تھی، اس لئے وہ ان میزائلوں کو روکنے والے نظام کو حرکت میں نہیں لائے۔

مگر یہ بات غلط ہے، اس کا میزائل روکنے کا نظام صرف ایک تہائی حملہ آور میزائلوں کو روک سکا۔ اس لئے وہ جلد جنگ بندی پر راضی ہوگیا جو حماس کی فتح کے مترادف ہے یا اس کی مشق یا نظام کی صلاحیت آزما لی گئی۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ایران نے شروع کی اور اسرائیل سے ملحق غزہ سے ایسی جنگ اُسی طرح سے خطرناک ہوسکتی ہے جیسا کہ اسپین میں ہوئی تھی۔ اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر میخائل بی اورن نے کہا کہ کیوبا کے میزائل بحران کی امریکہ مزاحمت نہیں کر رہا تھا بلکہ یہ روس تھا جو مدمقابل تھا اسی طرح اسرائیل غزہ پر حملہ آور نہیں تھا بلکہ وہ ایران کے حملے کو روک رہا تھا۔ 

امریکہ کے مشرق وسطٰی میں سپاہی، انتہائی طاقتور، ایٹمی اسلحہ سے مسلح، صیہونی طاقت کو آج ایران تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ وہ ایران پر حملے کے لئے امریکہ پر زور ڈال رہا تھا اور خود بہت چھوٹے سے حملے (کے ہی سہی) کی زد میں آگیا۔ جنگ کا رُخ خلیج سے بحر احمر کی طرف مڑ گیا ہے۔ سوڈان اور غزہ اب اُس کے مدمقابل ہیں تو دوسری طرف حزب اللہ اور شام اُس کو خطرے سے دوچار کئے ہوئے ہیں اور تیسری طرف ایران کے میزائلوں سے اُسے خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اس لئے اس وقت وہ تین قسم کے میزائلوں کو روکنے کے نظام پر کام کر رہا ہے۔
 
ایران کے شہاب 3 طویل فاصلے کے میزائل کو روکنے کا اسرائیلی نظام جسے وہ ARROW یا تیر کہتا ہے، تیار کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایران کے میزائلوں کی یلغار کو کیسے روک سکے گا جیسا کہ ایرانی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک دم ہزاروں کی تعداد میں میزائل داغے تو اسرائیل اُن کو نہیں روک سکے گا، لیکن اطلاعات کے بموجب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران کے میزائلوں کے 88 فیصد حصے کو روک سکتا ہے، یعنی وہ اپنی حساس تنصیبات کو کسی حملے کی صورت میں ایران کے حملے سے بچانے میں کامیاب ہو جانے کا دعویدار ہے۔
 
اس کے علاوہ اسے فجر میزائل سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں جو کہ غزہ کی پٹی سے داغے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ حماس کے پاس یہ 12 ہزار کی تعداد میں تھے جو کہ اب اس تعداد میں نہیں رہے، جس سے اسرائیل میں اطمینان کی لہر دوڑی ہوئی ہے اور اُس کے اتحادی بھی خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ فجر میزائل جو کم فاصلے کے ہتھیار ہیں، زیادہ سے زیادہ اس کی مار 50/80 کلومیٹر ہے۔
اس کی مار سے بچنے کے لئے اسرائیل نے Iron Dome System بنایا ہے۔ جو ایک وقت میں 350 میزائلوں کو روک سکتا ہے۔ اس قسم کی وہ دس بیٹریاں بنا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 3500 میزائلوں کی بارش کو روکنے کی کوشش کرے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا یہ نظام حماس کے میزائلوں کے ایک تہائی حصہ کو روک سکا، دو تہائی نشانہ پر لگے۔ 

تیسرا خطرہ اُسے حزب اللہ سے ہے، جو درمیانے فاصلے کی مار کے ہتھیار ہیں۔ ان میزائلوں سے بچاؤ کے لئے اس نے David Sling نظام تیار کر رکھا ہے جو ابھی آزمایا نہیں جاسکا تھا، تاہم ان تینوں نظاموں کو امریکہ اور اسرائیل کی تین ہفتوں پر مشتمل دیوقامت مشترکہ مشقوں میں آزمانے کی کوشش کی۔ امریکہ اپنے دو نظام پیٹریاٹ اور Aegis دفاعی میزائل نظام کے ساتھ ان مشقوں میں شریک ہوا۔ دونوں نے اپنے اپنے نظاموں کی صلاحیت کو چیک کیا اور نومبر کے دوسرے ہفتے تک جاری رہے۔ 

امریکہ کے چیئرمین چیفس آف جوائنٹ اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمسی نے ان مشقوں کا معائنہ 24 اکتوبر2012ء کو کیا اور ساتھ ساتھ وہ اسرائیلی نظام کی فیکٹریوں کے معائنہ کرنے بھی گئے اور امریکہ نے اسرائیل کو اس نظام کو پروان چڑھانے کے لئے 275 ملین ڈالرز کی امداد بھی دی ہے۔ ایران پر حملہ کرنے کے لئے بیتاب اسرائیل کو اپنی پڑ گئی اور اُس کا پشتیبان امریکہ اس کی مدد کو پہنچ گیا ہے کیونکہ نہ صرف خلیج بلکہ امریکہ و اسرائیل کو سوڈان، غزہ، حزب اللہ اور شام کی طرف سے حملوں کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ 

شہاب 3 ایٹمی میزائل لے جانے کی صلاحیت سے آراستہ ہے۔ اگر ایران ایٹمی ملک بن گیا ہے یا کبھی بنے گا تو وہ اس میزائل میں ایٹمی اسلحہ نصب کرسکتا ہے۔ وہ سوڈان سے بھی اس کو داغ سکتا ہے اور ایران سے بھی۔ اس طرح ایران کو گھیرے میں لینے والے اسرائیل کا مربی امریکہ خود اسرائیل کو گھیرے میں دیکھ رہا ہے، مگر خون بہانے کے عادی اور جنگ کے خواہشمند اسرائیلی وزیراعظم اس حد تک تو کامیاب رہے کہ انہوں نے بالآخر غزہ پر حملہ کرکے سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا، مگر انہیں یہ جنگ بہت مہنگی پڑی۔ اسی لئے ایرانی صدر حماس کو مبارکباد دینے میں حق بجانب ہیں کہ اسرائیل وہاں کامیاب نہ ہوسکا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ 

جس طرح 2006ء میں حزب اللہ نے اسرائیل کو جیتنے نہیں دیا تھا، اسی طرح فجر میزائل کے ڈر سے اور مصر کے محمد مرسی کے حکمراں ہونے کے بعد اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اسرائیل کو کیا حاصل ہوا کہ اس نے حماس کا ہیڈ کوارٹر تباہ کر دیا اور کمانڈر احمد الجعبری کو شہید کر دیا یا فجر میزائل کم تعداد میں رہ گئے مگر حماس موجود ہے۔ حزب اللہ وہاں کھڑی ہے اور میزائل بچے ہوئے ہیں اور بھی آجائیں گے، جو اسرائیل کو خطرہ میں ڈالے رکھیں گے اور اسرائیل کے اخراجات بڑھتے رہیں گے۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 218764
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش