0
Wednesday 12 Dec 2012 12:27

بلی کے گلے میں گھنٹی کون۔۔۔

بلی کے گلے میں گھنٹی کون۔۔۔

تحریر: جاوید عباس رضوی

آج سے تیس چالیس سال پہلے ہر ایک کے لئے یہاں تک کہ اہل دانش و آگاہ افراد کے لئے بھی یہ بات سمجھنا دشوار تھا کہ امریکہ ایک استبدادی و جارح ملک ہے، جو مختلف بہانوں کے ذریعہ پوری دنیا پر حکومت کرکے ملتوں اور قوموں کی آزادی سلب اور ان کے قدرتی ریسورسز پر قبضہ جمانا چاہتا ہے، البتہ مسلمانوں میں جس شخص نے پہلے ہی امریکی پالسیوں اور اسکے استبدادی و استعماری ارادوں کو اپنی تیز بینی سے اچھی طرح مشاہدہ کیا تھا وہ عظیم شخصیت حضرت امام خمینی (رہ) تھے، انہوں نے اپنے اول وجود سے ہی امریکی سازشوں و اسکے ناپاک ارادوں سے ملت اسلامیہ کو آگاہ و بیدار کیا، امام خمینی (رہ) نے اس وقت مستضعفین جہاں اور مسلم حکام کو استعماری و استکباری طاقتوں کی نشاندہی کی اور ان سے نبرد کرنے کا حوصلہ دیا، جب وہ سہمے ہوئے تھے یا وہ حکام خواب غفلت میں محو و مگن تھے۔ 

آج کل چونکہ امریکہ اپنے اعمال اور جرائم کو سرعام کھل کر انجام دے رہا ہے، لہذا امریکہ کو سمجھنا قدرے آسان ہوگیا ہے، گذشتہ دس بیس برسوں سے ہی اگر امریکی کارروائیوں کو دیکھا جائے تو امریکی تصویر واضح ہوکر سامنے آتی ہے، مثلاً: آزاد اور مستقل ممالک پر فوجی قبضہ، دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی، جمہوری حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوتیں، ایٹمی اسلحوں کا ذخیرہ، کمزور و تازہ آزاد ہوئے ممالک پر دباو، ثقافت اور شریف ملتوں کی بے احترامی، دوسروں کے قدرتی وسائل کا تاراج، اسرائیل جیسی ظالم حکومت کی بلا مشروط حمایت وغیرہ۔

مذکورہ جرائم امریکہ کی پہچان بن گئے ہیں، اور امریکہ صدر بش کے زمانے سے اپنے مکر و فریب پر مبنی چہرے کو ہٹا کر اپنے اصلی چہرے میں نمایاں ہوچکا ہے، حوصلہ افزاء بات ہے کہ مختلف ملتیں (چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم) امریکی اہداف سے باخبر ہوچکی ہیں، اور پوری دنیا میں ہر طرف امریکہ مخالف مظاہروں کے ذریعے قومیں اپنی بیداری و آگاہی کو ثابت کرچکی ہیں، یہ تو ملتوں کا حال ہے اب یہاں اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیا مختلف ممالک کی حکومتیں بھی امریکی خطرات کو درک کر رہی ہیں یا نہیں؟ 

عالمی سطح پر منعقد ہونے والے سربراہانِ مملکت اجلاس چاہے اقوام متحدہ کے اجلاس کی صورت میں ہوں یا تحریک غیر جانبداری (نام) کی شکل میں، یا Developing Countries کے عہدیداروں کی باہمی گفتگو ہو، ہر جگہ یہی مشاہدہ ہو رہا ہے کہ امریکہ واحد وہ ملک ہے کہ جس کے متعلق کچھ گنے چنے تین یا چار ممالک کو چھوڑ کر دنیا کے تقریباً تمام ممالک کا اتفاق نظر ہے کہ امریکہ کسی بھی بین الاقوامی قانون، نظم و اخلاق کا پابند ہرگز نہیں ہے، لیکن امریکی چہرے کو بے نقاب کرنے اور اس کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی پہل اسلامی جمہوریہ ایران نے کی۔

جب ایرانی حکام دوسرے ممالک کے دوروں پر جاتے ہیں تو اکثر ممالک کے عہدیداروں کی ان کے ساتھ یہی بات ہوتی ہے کہ ’’ہم بھی آپ ایرانیوں کی طرح امریکی درندگی اور خطرے کو درک کرتے ہیں لیکن کیا کریں کہ امریکہ بڑا ملک و صاحب جور ہے، ہم میں اتنی طاقت و توانائی نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکیں، اس لئے آپ (ایرانی قوم) آگے بڑھیں، ہم آپ کی مخفیانہ حمایت کرنے کو تیار ہیں، ایران، امریکہ کے مقابلے میں ثابت قدمی کے ذریعے پوری دنیا پر واضح کرچکا ہے کہ وہ سخت و دشوار ترین حالات میں بھی امریکہ کے دھونس دباو میں آنے والا یا امریکی ڈکٹیٹری قبول کرنے والا ملک نہیں ہے، بلکہ ایرانی شجاع و بے باک رہبر کو اس بات کا یقین بھی ہے کہ امریکہ ایک زوال پذیر طاقت ہے، اور اس کا زوال شروع ہوچکا ہے۔

ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کے اب ساٹھ سال گذر چکے ہیں، اور عملی طور پر ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ جو کچھ بھی ایران کے خلاف کرسکتا تھا اس نے کر دیا، اقتصادی پابندیاں، بالواسطہ جنگ، دہشت گردی، پروپیگنڈا وغیرہ لیکن ایرانی قوم ایک ایک کرکے مشکلات و دشواریوں کو عبور کرکے اپنے بلند الہیٰ مقاصد کی جانب تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، آج ایرانی قوم پوری دنیا کے مستضعفین اور حق طلب افراد کے لئے ماڈل بن گئی ہے، اور یہ ایرانی قوم سب کو یہ دعوت دے رہی ہے کہ ہمارا انتخاب کیا ہوا، راستہ سعادت کا راستہ ہے، کہ جس پر چل کر انسانیت کو عالمی استکباری جلادوں سے نجات دی جاسکتی ہے اور یہی راہ عالمی دہشتگردی سے نجات کی باعث ہوسکتی ہے۔

خبر کا کوڈ : 219400
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش