QR CodeQR Code

نواز لیگ ایک قربانی دے ہی دے!

11 Dec 2012 21:21

اسلام ٹائمز:سنی اتحاد کونسل میں اختلافات کے باوجود صاحبزادہ فضل کریم کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے اور اس کا فائدہ آئندہ الیکشن میں ق لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں اہلسنت جماعتوں کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے اور اگر صاحبزادہ فضل کریم اپنے ساتھ وابستہ 30 اہلسنت جماعتوں کو اعتماد میں رکھتے ہیں اور ان کی حمایت ان کیساتھ رہتی ہے تو اس کا نقصان نواز لیگ کو ہو گا کیوںکہ لاہور میں اہلسنت کا ووٹ زیادہ تر مقامی مساجد کے علماء کے ہاتھوں میں ہے، جس سے اب نواز لیگ محروم ہو چکی ہے۔


تحریر: تصور حسین شہزاد

رانا ثناءاللہ کی ہٹ دھرمی اور کالعدم دہشت گرد جماعت سے ان کی دوستی نے بہت سے دوستوں کو ناراض کردیا اور سنی اتحاد کونسل نواز لیگ کی سیاسی کشتی سے اتر کر ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے جہاز پر سوار ہو گئی ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ فضل کریم فیصل آباد سے مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پرانے مسلم لیگی مانے جاتے تھے۔ ان کے نواز لیگ چھوڑنے سے سنی اتحاد کونسل جہاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے وہاں نواز لیگ کا بھی کافی نقصان ہوا ہے اور کئی ارکان نواز لیگ چھوڑنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل پر پہلا وار سید محفوظ شاہ نے کیا اور انہوں نے صاحبزادہ فضل کریم کے ق لیگ سے اتحاد کو غیرآئینی قرار دے کر سنی اتحاد کونسل کے سربراہ کو معزول کر کے خود قیادت کی باگ اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ سید محفوظ شاہ مشہدی نے کونسل کے سربراہ صاحبزادہ فضل کریم اور سیکرٹری جنرل حاجی حنیف طیب کو عہدوں سے فارغ کر دیا۔ اس کے برعکس صاحبزادہ فضل کریم کے حامیوں کا اجلاس ہوا جس میں رہنماؤں نے صاحبزادہ فضل کریم اور حاجی حنیف طیب پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا اور انہیں ان کے عہدوں پر بحال رکھا جب کہ سید محفوظ شاہ مشہدی اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔

ق لیگ کیساتھ سنی اتحاد کونسل کے اتحاد کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے صاحبزادہ فضل کریم سے ملاقات کی اور صاحبزادہ فضل کریم نے پیپلز پارٹی کیساتھ بھی اتحاد کا اعلان کردیا۔ اس سے سنی اتحاد کونسل کے ناراض ارکان کو ایک اور دھچکا لگا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس میں ایک دھڑے کی سربراہی صاحبزادہ فضل کریم کے پاس ہے جبکہ دوسرے دھڑے کے سربراہ سید محفوظ شاہ مشہدی ہیں۔ سید محفوظ شاہ والے دھڑے کا دعویٰ ہے کہ ان کیساتھ اہلسنت کی 13 جماعتیں ہیں جبکہ صاحبزادہ فضل کریم کا دعویٰ ہے کہ اہلسنت کی 30 جماعتوں کی حمایت انہیں حاصل ہے۔

تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ سنی تحریک پاکستان نے بھی سنی اتحاد کونسل سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ سنی تحریک کا موقف ہے کہ جس مقصد کے لئے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی کونسل سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے اور صاحبزادہ فضل کریم نے مخالفین کے ساتھ اتحاد کرکے کونسل کا مقصد ہی مار دیا ہے۔ سنی تحریک کی اب فنکشنل لیگ کے ساتھ اتحاد کی بات چیت چل رہی ہے اور قوی امکان ہے کہ ان کا مسلم لیگ فنکشنل کے ساتھ سیاسی الحاق ہو جائے گا جبکہ سنی تحریک اپنی حیثیت سے بھی انتخابات میں حصہ لینے پر غور کر رہی ہے۔

سنی اتحاد کونسل میں اختلافات کے باوجود صاحبزادہ فضل کریم کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے اور اس کا فائدہ آئندہ الیکشن میں ق لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں اہلسنت جماعتوں کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے اور اگر صاحبزادہ فضل کریم اپنے ساتھ وابستہ 30 اہلسنت جماعتوں کو اعتماد میں رکھتے ہیں اور ان کی حمایت ان کیساتھ رہتی ہے تو اس کا نقصان نواز لیگ کو ہو گا کیوںکہ لاہور میں اہلسنت کا ووٹ زیادہ تر مقامی مساجد کے علماء کے ہاتھوں میں ہے۔ جس سے اب نواز لیگ محروم ہو چکی ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے جو علماء ہنوز نواز لیگ کے ساتھ ہیں ان کا حامی ووٹ بنک لاہور سے باہر کے علاقوں میں ہے اور یہ علماء وہ اثرورسوخ نہیں رکھتے جو صاحبزادہ فضل کریم کا ہے۔

صاحبزادہ فضل کریم کی نواز لیگ سے علیحدگی کی وجوہات پر نظر دوڑائی جائے تو بقول صاحبزادہ فضل کریم کے ہم نے نواز لیگ کی کالعدم دہشت گرد جماعت کی سرپرستی، تاحال سانحہ داتا دربار کے ملزموں اور علامہ سرفراز نعیمی کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کی وجہ سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لیگی قیادت ہمیں شروع سے ہی دلاسے دے رہی تھی عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا رہا تھا جبکہ وزیر قانون رانا ثناءاللہ علی الاعلان دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہے تھے جو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں اس لئے ہم نے بے گناہ لوگوں کے لہو سے ہاتھ رنگنے کے جرم میں شریک رہنے سے علیحدگی پر اکتفا کیا ہے۔

دوسری جانب نواز لیگ کا کہنا ہے کہ صاحبزادہ فضل کریم نے فیصل آباد کے جھنگ بازار میں ارشد مارکیٹ میں سرکاری پلاٹ کا مطالبہ کیا تھا جو پنجاب حکومت نے دینے سے انکار کر دیا اور صاحبزادہ فضل کریم ناراض ہو گئے اور نواز لیگ سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ پنجاب حکومت اور رانا ثناءاللہ نے اپنی صفائی میں جس پلاٹ کا ذکر کیا ہے وہ پہلے ہی صاحبزادہ فضل کریم کے مدرسے کے پاس ہے اور اس پر مدرسے کا ہوسٹل تعمیر ہو رہا ہے۔ وہ پلاٹ پنجاب حکومت ان کے والد کو بہت پہلے الاٹ کر چکی تھی، اب اس معاملے میں آ کر پنجاب حکومت کا اس پلاٹ کو ایشو بنا کر پیش کرنا اپنی ساکھ بچانے کی کوشش ہے جو کہ کامیاب نہیں ہو سکی اور عوام حقائق سے آگاہ ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب اگر غیرجانبداری سے حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہے کہ رانا ثناءاللہ کی وجہ سے پنجاب میں بہت سے لوگ ناراض ہوتے جا رہے ہیں۔ عاشورا سے قبل شیعہ جماعت مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے رہنماؤں نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں شیعہ رہنماؤں نے بھی کھل کر رانا ثناءاللہ کے کردار کو ہدف تنقید بنایا اور واضح انداز میں کہا کہ پنجاب حکومت نے اگر دہشت گردوں کی سرپرستی سے ہاتھ نہ کھینچا تو پنجاب کا شیعہ ووٹ نہ صرف مسلم لیگ ن کے خلاف جائے گا بلکہ نواز لیگ کی مخالفت میں دیگر ووٹ بھی نواز لیگ کو نہیں جانے دیں گے۔

نواز لیگ کو پہلے اہل تشیع اور بعد میں اہلسنت کی جانب سے ایک ہی معاملہ پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پنجاب میں اہل تشیع اور اہل سنت ہی کثیر تعداد میں ہیں اور ان دونوں کا ووٹ علماء کرام کے اشارے پر کاسٹ ہوتا ہے۔ اگر پنجاب حکومت نے دہشت گردوں کی سرپرستی سے ہاتھ نہ کھینچا تو ان دونوں مکاتب فکر کے ووٹوں سے محروم ہو جائے گی۔ اگر یہ دونوں مکاتب فکر نواز لیگ سے الگ ہوتے ہیں اور اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں تو پنجاب حکومت ایک کیا چوبیس بس ٹرانزٹ منصوبے بنا لے اسے ووٹ نہیں ملیں گے اور پھر نواز لیگ کے ہاتھ سے پنجاب بھی نکل جائے گا۔ پنجاب حکومت کو اپنا تخت بچانے کیلئے ایک قربانی دینا ہو گی اور وہ وزیرقانون پنجاب ہیں۔

وزیر قانون پنجاب کو عہدہ سے ہٹا کر یا دہشت گردوں کی سرپرستی سے روک کر مسلم لیگ ن اپنے ان لاکھوں ووٹوں کو بچا سکتی ہے جو صرف ایک شخص کی وجہ سے مخالفت میں جا رہے ہیں۔ ماضی کی نسبت اب حالات کچھ اور ہیں، سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر اہلسنت جماعتیں متحد ہیں اور دوسری جانب مجلس وحدت مسلمین کیساتھ شیعہ ووٹ سب سے زیادہ ہے۔ اہل تشیع میں بھی سیاسی گروہ بندیاں ہیں اور اس وقت اہل تشیع دو مرکزی دھڑوں میں تقسیم ہیں لیکن مجلس وحدت مسلمین کا دھڑا زیادہ ووٹ بینک رکھتا ہے جبکہ شیعہ علماء کونسل کو نواز لیگ پہلے ہی دھوکا دے چکی ہے۔ شیعہ علماء کونسل کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا، ہم نواز لیگ کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے۔ نواز لیگ کے ساتھ ماضی میں ہونے والے اتحاد سے ہمیں بہت تلخ تجربات ہوئے ہیں۔

اب سیاسی سیٹ اپ میں صورتحال یہ ہے کہ اصل مقابلہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں ہی ہو گا جبکہ تحریک انصاف بھی تیسر ی قوت بن چکی ہے اس کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے بھی دو اتحاد معرض وجود میں جبکہ تیسرے کے لئے کام ہو رہا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی جہاں تک بات ہے تو ان کو بطور مذہبی جماعت لوگ سیاست میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ باری اس بار بھی نواز لیگ یا پیپلز پارٹی کی ہی ہو گی البتہ دیگر چھوٹی جماعتیں ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی اور ان کے اتحاد سے ہی کوئی پارٹی برسر اقتدار آئے گی۔ ایسی صورت میں ایک ایک ووٹ انتہائی قیمتی ہے، نواز لیگ کو اپنے ووٹوں کی قدر کرنی چاہیئے اور اس کے لئے اسے ایک قربانی دینا ہو گی اور وہ قربانی رانا ثناءاللہ کی ہے۔ رانا ثناءاللہ کی قربانی سے نواز لیگ پر آیا ہوا برا وقت ٹل سکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 220308

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/220308/نواز-لیگ-ایک-قربانی-دے-ہی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org