0
Sunday 16 Dec 2012 22:09

رہبر انقلاب اسلامی کی شاباش اور حماس کا موقف

رہبر انقلاب اسلامی کی شاباش اور حماس کا موقف
تحریر: محمد علی نقوی

فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے بیان میں آیا ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سیّد علی خامنہ ای کی جانب سے غزہ کی آٹھ روزہ جنگ میں فلسطینیوں کی استقامت کو سراہنے اور ان کی استقامت کو مثالی قرار دینے اور اسی طرح انہیں شاباش دیئے جانے کے اقدام نے دشمنوں کو ان کے شرمناک مقاصد کے حصول اور ناپاک عزائم میں ناکام بنا دیا، جن میں دشمن افواہوں کے ذریعے ایران اور فلسطینیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا چاہتے تھے، دشمن کی طرف سے پھیلائی گئی ان افواہوں میں تہران میں حماس کا دفتر بند کرنا اور اسی طرح حماس کے ایک مرکزی رہنما پر بےبنیاد الزامات عائد کئے جانے جیسی افواہیں بھی شامل ہیں۔ ادھر تہران میں حماس کے نمائندے نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوری ایران اور حماس صیہونی حکومت کے مدمقابل ایک ہی محاذ میں ہیں اور ان دونوں کے تعلقات اسٹرٹیجیک ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تہران میں حماس کے نمائندے خالد قدومی نے "اسلامی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور اسلامی بیداری" کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوری ایران اور حماس صہیونی حکومت کے مقابلے میں ایک ہی محاذ میں ہیں۔ انہوں نے خطے میں اسلامی بیداری کی لہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے کی اقوام نے ڈکٹیٹروں اور استبدادی حکومتی نظاموں کے خلاف قیام کیا اور بےشک یہ اسلامی بیداری کی علامت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے فلسطین کی مختلف تنظیموں بالخصوص حماس کی تعریف اور اس بیان پر حماس کی خوشی و مسرت کا اظہار اس بات کا اعلان ہے کہ حماس کو غزہ کی آٹھ روزہ حالیہ جنگ میں اس بات کا شدت سے احساس ہوگیا ہے کہ ایران اور اسکی قیادت کسی تنظیم یا جماعت کی وجہ سے فلسطین کی حمایت نہیں کرتی بلکہ فلسطین کو ایک خالص اسلامی مسئلہ اور قدس شریف کو مسلمانوں کا قبلہ اول سمجھتے ہوئے اس کے لئے ہر طرح کے سیاسی، فوجی اور سفارتی خطرات مول لینے کے لئے ہر وقت تیار ہو جاتی ہے۔ 

شام کی حالیہ صورتحال اور بعض فلسطینی تنظیموں بالخصوص حماس کی طرف سے دمشق سے قطر منتقلی اور حماس کے بعض رہنماؤں کے غیر واضح بیانات کی وجہ سے بہت سے حلقے یہ احساس کررہے تھے کہ اب حماس ایران سے کٹ جائیگی، یوں بھی حماس کے قائدین کی ناعاقبت اندیشی اور سعودی عرب، قطر اور ترکی کے غلط مشوروں نے حماس کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا تھا جسے تجزیہ نگار ایران مخالف لابی قرار دے رہے تھے، تاہم غزہ کی حالیہ آٹھ روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران نے جس طرح کھل کر غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت اور دفاع میں دامے، درمے، سخنے اور فوجی محاذ پر امداد و حمایت کی اس نے حماس کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اس کا مخلص کون ہے، یوں بھی حماس کو اس بات کا احساس رہنا چاہیے کہ قطر جہاں پر امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے اسی طرح سعودی عرب کا شاہی نظام جو امریکہ کی مدد سے آخری سانس لے رہا ہے اسی طرح ترکی جو امریکی ایما پر شام میں تشدد و ناامنی کو پروان چڑھا رہا ہے وہ کسطرح حماس اور فلسطینی کاز کا حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔ 

کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ کا45 سالوں بعد غزہ کا دورہ ایران کے فجر 5 میزائیل کا مرہون منت ہے اگر آج غزہ کے مجاہدین کے پاس فجر5 میزائیل نہ ہوتے تو غزہ کی کیا صورتحال ہوتی۔ شام کے حوالے سے حماس کے موقف میں تبدیلی فوری نوعیت کی نہیں تھی بلکہ حماس کے بعض قائدین نے شروع میں فریقین کے درمیان مصالحت کی بھی کوششیں انجام دیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب امریکہ، یورپی یونین اور بالخصوص سعودی عرب، قطر اور ترکی کھل کر بشار اسد کے مقابلے میں آگئے تو حماس بھی ان ممالک کے ہجوم اور خاص کر اخوان المسلمین کے دباؤ کا مقابلہ نہ کرسکی کیونکہ حماس کے اندر اخوان المسلمین کا اثر و نفوذ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حماس کی تشکیل میں عرب ممالک میں مدتوں سے فعال اخوان المسلمون کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار ضرور تھا البتہ اخوان کے ان حلقوں کا جو مصالحت کی بجائے استقامت پر یقین رکھتے تھے۔

غزہ کی آٹھ روزہ جنگ اور رھبر انقلاب کے حالیہ خطاب کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حماس کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے، اسی لئے تو انہوں نے مسلمانوں میں اتحاد و وحدت کے تحفظ کی ضرورت اور غزہ کی آٹھ روزہ جنگ میں فلسطینیوں کی استقامت کی تعریف کرنے اور اسے سراہنے پر رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ العظمٰی سیّد علی خامنہ ای کے بیانات کی قدردانی کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ خطہ سخت ترین دور سے گذر رہا ہے اور اسے مختلف قسم کی سازشوں اور مسائل کا سامنا ہے، ایکبار پھر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے اتحاد آفریں اور روشن خیال افکار و بیانات سے علاقے کے اصلی مسئلے یعنی صیہونی حکومت کے فتنہ انگیز وجود کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔
خبر کا کوڈ : 221731
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش