1
0
Wednesday 19 Dec 2012 20:25

اتحادی سیاست کے تقاضے، ایم ایم اے کی بحالی کھٹائی میں پڑگئی

اتحادی سیاست کے تقاضے، ایم ایم اے کی بحالی کھٹائی میں پڑگئی
تحریر: ناظر بھٹی

پاکستان کے سیاسی افق پر ہونے والی تبدیلیاں بتا رہی ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا مولانا فضل الرحمان کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان اختلافات نے اس دینی اتحاد کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے دینی حلقوں کا ووٹ بینک یقینی طور پر تقسیم ہوگا۔ اس کے نتیجے کے طور پر سیاست میں تناو اور ارتعاش بھی مزید بڑھے گا۔ اب تو واضح نظر آرہا ہے کہ تین طرح کے اتحاد 2013ء کے عام انتخابات میں میدان میں ہوں گے۔ ایک پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتیں، دوسرا مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتیں اور تیسرا اگر عمران خان سولو فلائٹ کا ارادہ ترک کر دیں تو تحریک انصاف اور اتحادی جماعتیں ہوں گی۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ہمخیال کے صدر اور سابق وزیر اعلٰی سندھ ارباب غلام رحیم سے ملاقات کی ہے۔ جس میں آئندہ انتخابات میں وارد ہونے اور اس میں سیاسی کردار پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ میاں نواز شریف نے انہیں لاہور ایئرپورٹ پر اترنے کی دعوت دی ہے۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) کسی سندھی لیڈر کی پنجاب کی سرزمین پر استقبال کرکے پذیرائی کرتی ہے تو پیپلز پارٹی مخالف حلقوں کی تسلی و تشفی کا باعث بنے گی اور سندھ میں پنجاب کے بارے میں بہتر امیج سامنے آئے گا۔ اسی طرح بلوچستان اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کا فیصلہ کرچکی ہیں۔

ارباب غلام رحیم کے علاوہ دوبئی میں میاں نواز شریف جمعیت علمائے پاکستان کے سینیئر نائب صدر اور مرحوم شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے شاہ اویس نورانی سے بھی ملے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد پر اتفاق ہوچکا ہے۔ اب اس اتحاد کو موثر بنانے پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ جمعیت علمائے پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے جنرل سیکرٹری قاری زوار بہادر کے لئے لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست کا ٹکٹ حاصل کرسکے اور باقی پورے ملک میں وہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔

جے یو پی کو ٹاسک دیا گیا ہے اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی باقی جماعتوں کا اتحاد بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کروایا جائے۔ اس کے لئے لابنگ شروع کر دی گئی ہے۔ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان سے بھی جے یو پی کی ٹیمیں مل چکی ہیں کہ پہلے متحدہ مجلس عمل کو بحال کرلیا جائے اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرلیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان کی خیبر پختونخوا کی حد تک تو پہلے سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کی بات چیت چل رہی ہے۔ البتہ اسے حتمی شکل دے کر باقاعدہ اعلان کیا جانا باقی ہے۔

جماعت اسلامی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں سے کسی ایک کے ساتھ جانے کا ابھی فیصلہ نہیں کرسکی۔ تاریخ کا حصہ ہے کہ لاہور سے جماعت اسلامی نے لیاقت بلوچ کی نشست مسلم لیگ (ن) ہی کے تعاون سے جیتی ہے۔ آج کل لیاقت بلوچ نے اپنے حلقے میں انتخابی مہم کے طور پر ورکرز کی کارنر میٹنگز کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ اتوار کے دن سری پائے اور حلوے کے مشہور گرینڈ ناشتوں پر جماعت اسلامی کا منشور پیش کرتے اور اپنی خدمات عوام کو یاد دلاتے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم میں اتحاد بین المسلمین کا پیغام انہیں شیعہ ووٹرز کے بھی قریب کر رہا ہے۔

ایم ایم اے کی ایک جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث ہے، جس کے سربراہ پروفیسر ساجد میر ہمیشہ سے مسلم لیگ (ن) کا دم چھلہ ہی بنے رہے ہیں اور اب بھی مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر کے طور پر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث مسلم لیگ (ن) کا اہل حدیث ونگ ہے، جبکہ سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین صاحبزادہ فضل کریم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا بریلوی ونگ ہیں۔ مگر آج کل وہ باغی ہوکر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مل کر جا بیٹھے ہیں۔

شاید کچھ قارئین کے لئے یہ بات حیران کن ہو کہ جب چوہدری شجاعت حسین اور ڈپٹی وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی صاحبزادہ فضل کریم سے فیصل آباد میں ملاقات کرکے آئے تو بریلوی مکتبہ فکر میں صاحبزادہ فضل کریم پر تنقید ہونا شروع ہوگئی کہ انہوں نے ایک وہابی سے اتحاد کرلیا ہے۔ جو پانچ سال تک وزیراعلٰی پنجاب تو رہے مگر ایک بار بھی داتا دربار کے عرس کے موقع پر دربار کو غسل دینے نہیں آئے۔ جبکہ روایتی طور پر ہر وزیراعلٰی نے یہ سعادت حاصل کی۔ پھر پرویز الٰہی کے بیٹے راسخ الٰہی تبلیغی جماعت کے بڑے رہنما ہیں۔ اس صورت حال کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے صاحبزادہ فضل کریم کی خواہش پر وہابیت کے تاثر کو زائل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وٹو اور قمر زمان کائرہ کی صاحبزادہ فضل کریم سے لاہور میں ملاقات ہوئی۔

ان تمام سرگرمیوں سے واضح ہوتا نظر آرہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے بڑھتی ہوئی قربتوں سے ایک سوچ یہ بھی جنم لے رہی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے بغیر جماعت اسلامی اور باقی جماعتوں کے ساتھ متحدہ مجلس عمل کو بحال کرلیا جائے۔ اسی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کی میزبانی میں ایم ایم اے کا سربراہی اجلاس دسمبر میں ہونے کی بجائے اب جنوری 2013ء میں منعقد ہونا قرار پایا ہے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ معاملات طے پاگئے تو اجلاس ہوسکے گا ورنہ شاید ایساموقع نہ آئے۔

ایم ایم اے کا اہم حصہ اسلامی تحریک پاکستان کی قیادت متحدہ مجلس عمل سے ہی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے۔ ان کے ابھی تک کسی بڑی سیاسی جماعت سے روابط نظر نہیں آتے۔ ایم ایم اے کے ذرائع کے مطابق اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی کا جھکاو بھی مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے اور قوی امکان ہے کہ جب بھی مسلم لیگ (ن) سے بات چیت ہوگی تو ان کا ووٹ بھی ان کے حق میں ہی ہوگا۔ لیکن پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ خان کے تکفیری گروہ کالعدم سپاہ صحابہ سے تعلقات اور سرپرستی کے الزامات کا جواب کون دے گا اور ملت جعفریہ کو مطمئن کیسے کیا جاسکے گا۔ اس لئے کسی بھی ایسے اتحاد سے پہلے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 222866
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت اچھے ناظر بھائی خدا آپ کو سلامت رکھے،،،،،،،آمین
ہماری پیشکش