0
Sunday 21 Mar 2010 12:45

پاک ایران گیس منصوبہ،مثبت پیش رفت

پاک ایران گیس منصوبہ،مثبت پیش رفت
مظفر اعجاز
پاکستان اور ایران نے تاریخی گیس معاہدے پر دستخط کر دییے ہیں۔اس تاریخی دستاویز پر استنبول میں ایران اور پاکستان کے پٹرولیم سیکریٹریز نے دستخط کیے۔اس معاہدے کے تحت ایرانی گیس فیلڈز سے براستہ بلوچستان سندھ تک گیس آئے گی۔اس گیس لائن کی تعمیر رواں سال شروع ہو جائے گی اور منصوبہ 2014ء میں مکمل ہو گا۔ 7 ارب ڈالر لاگت کے اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کو ایران سے یومیہ ساڑھے سات کروڑ کیوبک فٹ گیس حاصل ہو گی۔پاکستان اس معاہدے کے تحت 25 سال تک ایرانی گیس حاصل کر سکے گا۔پاکستان اور ایران کے درمیان گیس کے اس منصوبے کی مخالفت بھارت کر رہا ہے اور امریکا نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اس معاہدے میں تاخیر کا سبب بھی بھارت کا اس معاہدے سے باہر نکل جانا تھا۔
 بھارت پہلے اس منصوبے کا حصہ تھا لیکن گزشتہ سال قیمتوں کے مسئلے کو بہانہ بنا کر وہ معاہدے سے الگ ہو گیا تھا۔یہ پائپ لائن پہلے بھارت بھی جانی تھی لیکن بھارت کے الگ ہونے کے بعد اب یہ صرف پاکستان آئے گی۔بتایا جا رہا ہے کہ ایران سے جو گیس خریدی جا رہی ہے وہ پاکستان میں موجود گیس کے مقابلے میں مہنگی ثابت ہو گی،لیکن یہ بات بہرحال پاکستان کے لیے قابلِ اطمینان ہے کہ اس کے پاس اگلے 25 برس کے لیے گیس کی فراہمی یقینی ہو جائے گی۔اگر اس گیس کا صنعتی اور گھریلو استعمال نہ بھی ہوسکے اور صنعتوں یا گھریلو صارفین کو یہ مہنگی پڑ رہی ہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس گیس کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں،اس کے نتیجے میں کم از کم بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بھی نجات مل سکے گی۔
آج کل کے ای ایس سی کو فرنس آئل کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی مل گئی ہے کیونکہ کے ای ایس سی کو کریڈٹ لائن سے زیادہ قرض دیا جا چکا ہے۔ذرائع کے مطابق کمپنی 336 ملین روپے کی ڈیفالٹر ہے۔پی ایس او نے کے ای ایس سی کو تیل کی سپلائی جاری رکھنے کی یہی شرط رکھی ہے کہ وفاقی حکومت اس کی ضمانت لے۔وفاقی سیکریٹری پٹرولیم نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس منصوبہ قومی معیشت کے مفاد میں ہے۔یہ منصوبہ قومی معیشت کے مفاد میں ہوسکتا ہے اگر اس سے زیادہ سے زیادہ قومی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں قومی سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔اگر حکومت گیس کے ان ذخائر کو صرف بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کرے یا کچھ حصہ صنعتی پیداوار کے لیے مختص کر دے،تو آنے والے دنوں میں سندھ میں صنعتی ترقی کا ایک نیا باب رقم ہو سکتا ہے۔ایک جانب بجلی کی شرح میں کمی ہو گی،دوسری جانب بجلی وافر ہونے کی صورت میں صنعتوں کا پہیہ بھی مسلسل چلتا رہے گا۔لیکن اس سارے عمل کے لیے خلوص شرط ہے۔ابھی تو منصوبے پر دستخط ہوئے ہیں،2014ء تک یہ مکمل ہو گا۔ اس بات کا ہمیشہ خدشہ رہتا ہے کہ ایک حکومت کے منصوبے کو دوسری حکومت ختم کر دیتی ہے یا اس منصوبے پر عمل کرنے والوں کو تنگ کرتی ہے۔پاکستان میں ہر وقت اس بات کا امکان رہتا ہے کہ حکومت ختم کر دی جائے گی۔اس حوالے سے موجودہ حکومت بھی اس قومی منصوبے کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرے تاکہ آنے والی حکومت اُس سے مخالفت کی بنیاد پر اس منصوبے کو نقصان نہ پہنچائے۔اب جبکہ وفاقی حکومت صوبوں کو ہائیڈرو پاور پلانٹس لگانے کی اجازت دینے پر غور کر رہی ہے تو وہ اس جانب بھی غور کرے کہ ہائیڈرو پاور کے ساتھ ساتھ گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تیار کرنے کی بھی اجازت دے۔مزید یہ کہ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں،لیکن جب تک موجودہ حکومت اقتدار میں ہے وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بھارت اس منصوبے میں رکاوٹ نہ ڈالنے پائے۔کیونکہ اس منصوبے میں شامل ہونے سے بھارت کو جو فائدہ اٹھانا تھا اب اسے وہ فی الحال حاصل نہیں ہو سکتا،لہٰذا اس بات کا خدشہ اپنی جگہ رہے گا کہ بھارت کسی بھی وقت اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان اور ایران میں کسی قسم کی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی اور ایرانی قیادتوں کو بیدار مغزی کا ثبوت دینا ہوگا۔
 ایرانی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ پاک ایران تعلقات میں استحکام خطے میں بھارت کی چودھراہٹ کے لیے درست نہیں ہے۔پاک ایران تعلقات میں استحکام بھارتی مداخلت کے راستے بھی بند کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔پاکستان اور ایران کے درمیان اس معاہدے سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے نئے راستے اور امکانات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔پاکستانی تاجر ایران سے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔یہ بات کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ سرحدوں سے قریب ممالک کے ساتھ تجارت میں کیا فائدہ ہوتا ہے۔پاکستان کے پاس ایک آپشن بھارت کے ساتھ تجارت کا ہے اور دوسرا ایران کے ساتھ۔ بھارت کے ساتھ بہت سی اشیا کی تجارت ہو رہی ہے اور زیادہ تر اشیا پاکستان آ رہی ہیں،جبکہ پاکستان سے بہت کم چیزیں بھارت جاتی ہیں،لیکن بھارت سے آنے والی اشیا میں سب سے خراب بات بھارت کی ثقافت بھی ہے،جو نئے نئے طریقوں سے پاکستان میں داخل کی جا رہی ہے۔ 
ایران کے ساتھ تجارت کے نتیجے میں اگر کوئی ثقافت آئے گی تو وہ اسلامی ورثہ ہی ہو گا،جبکہ یہود و ہنود کے بجائے اسلامی ملک سے تجارت کرنا پاکستان کے لیے زیادہ موزوں ہو گا۔اس سے قبل ایرانی رہنما اور اقتصادی امور کے ماہرین بتا چکے ہیں کہ پاکستان اور ایران اگر ایک دوسرے سے تجارت کریں اور اس تجارت میں ڈالر کے بجائے اپنی اپنی کرنسی کو استعمال کریں تو اشیا کی قیمتوں میں بھی ارزانی ہو گی اور دونوں ملکوں کی کرنسی پر دباﺅ بھی کم ہو گا۔ایران کے ساتھ گیس لائن منصوبے پر دستخط کے بعد حکومت کو چاہیے کہ دیگر امور پر بھی توجہ دے اور پاکستانی بینکوں کو ایران میں شاخیں کھولنے کا حکم دے۔اگر پاکستانی بینک ایران میں شاخیں کھولیں تو بہت سے پاکستانی تاجر ایران کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ایک دفعہ پاکستانی حکمران بھی اپنا اعتماد بحال کر دیں تو ملک ترقی کی شاہراہ پر دوڑ سکتا ہے۔



خبر کا کوڈ : 22341
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش