4
0
Wednesday 26 Dec 2012 23:49

شہادت سعادت

شہادت سعادت
تحریر: سید قمر رضوی
 
محلے کی زندگی کبھی ہمارے مشرقی رہن سہن کا حسن ہوا کرتی تھی۔ محلہ وہ جگہ ہوتا تھا جہاں سب ایک دوسرے کی خبر گیری سے لیکر خوشی و غم تک میں اپنائیت کی حد تک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ کوئی بیمار ہوجائے یا کسی گھر میں دو برتن آپس میں ٹکرا جائیں، سودا سلف لانے کا معاملہ ہو یا کسی غم کے موقع پر تجہیز و تکفین کا مرحلہ، یہ اہلِ محلہ ہی ہوتے تھے جنکے ہوتے ہوئے کوئی مسئلہ، مسئلہ نہیں رہتا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے اصل رشتہ دار تو ہمارے اہلِ محلہ اور ہمسائے ہی ہوتے تھے۔ ہمارے محلوں کی گلیوں کے نکڑ، تھڑے اور چائے خانے اس مشرقی رہن سہن کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتے تھے، جہاں نوجوان اپنی عمر کا ایک خوبصورت حصہ گزار کر ادھیڑ عمری میں قدم رکھتے تھے۔ یہیں سے جوان اپنے مستقبل کی داغ بیل رکھا کرتے تھے اور یہی وہ مقام ہوتا تھا کہ خدانخواستہ اگر کہیں چوری، ڈاکے جیسا چھوٹا موٹا مسئلہ ہوجائے تو انہی تھڑوں پر بیٹھے لڑکے خود ہی پولیس اور جج کی ذمہ داریاں بھی ادا کرلیا کرتے تھے۔ ان نوجوان لڑکوں کی وجہ سے محلے میں امن و چین کی ایک خودساختہ سی فضا ہوا کرتی تھی، جس میں باقی اہلِ محلہ سکون کی زندگی گزارتے تھے۔ یہ وہ مقام ہوتا تھا جہاں رنگ، نسل، مذہب اور فرقے کا کوئی عمل دخل نہ ہوتا۔
 
لیکن جب سے ہمارے پیارے ملک کو دشمن کی منحوس نظر لگی ہے، تب سے زندگی کے ہر گوشے سے اسکا حسن چھین لیا گیا۔ اسلحے اور منشیات کی بھرمار نے چھوٹے چھوٹے بچوں سے انکا بچپن چھین کر انہیں بڑی بڑی لعنتوں میں مبتلا کیا۔ ہمارا خانگی نظام تہہ و بالا کر دیا گیا۔ بزرگوں سے شفقت اور چھوٹوں سے تمیز کو سلب کرلیا گیا۔ بے حیائی اور بداخلاقی نے یوں پروان چڑھا جیسے کسی برسات زدہ جنگل میں کھمبیاں اگ آتی ہیں۔ خوف و ہراس کی ایسی آندھیاں چلائی گئیں کہ محلہ پڑوس تو دور کی بات، ایک گھر میں رہنے والے ایک دوسرے سے بیگانے ہوتے گئے۔ تباہی کا یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ سب سے بڑی نحوست یعنی دہشت گردی نے تمام حدود کو پار کرکے اس ملک کے شہروں، دیہاتوں، قصبوں، بازاروں، محلوں اور گلیوں کو یوں ویران کیا جیسے کسی خوبصوت منظر سے رنگ کھینچ لئے گئے ہوں۔ آج ہمارے محلے خوف کا شکار ہیں۔ ہماری گلیوں میں موت رقص کرتی ہے۔ شیطان کی اولادیں دندناتی پھرتی ہیں اور رات کے گھپ اندھیروں میں یتیموں اور بیواؤں کے بین راج کرتے ہیں۔

پہلے کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا کہ جب کسی بیگناہ کی ناگہانی موت کی خبر نہ آتی ہو، لیکن اب یہ حال ہے کہ ایک ایک دن میں کئی کئی شہادتوں کی خبروں نے ہر انسان کو نفسیاتی امراض میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔ عالمی دہشت گرد کی غنڈہ گردی کی فہرست میں جہاں ہر طبقے کے انسان کا نام عمومی طور پر شامل ہے، وہیں ساداتِ کرام بالخصوص ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پیروکاران کے اسمائے گرامی خاص طور پر نمایاں ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرے گا کہ جب کسی موالیء علی (ع) کی شہادت کی خبر نہیں آئے گی۔

ابھی دو روز قبل ہی کی تو بات ہے کہ کراچی کے علاقے ناظم آباد میں ایک انتیس سالہ جوان، اپنی عزت کا سرتاج، چار کمسن بچوں کا والد، بوڑھے والدین کی آس، دوستوں کی جان، محلے کی رونق، ہنس مکھ سید منیر حسین کاظمی کو اسی جرم میں بیدردی سے شہید کر دیا گیا، جس جرم کا پہلا شہید بنتِ رسولِ اعظم سیدہ فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا تھیں، یعنی اقرارِ ولایتِ علی (ع) کا جرم! شیطان و آلِ شیطان کی حکومت کا سب سے بڑا جرم ۔۔۔ جسکا ارتکاب ہمارا افتخار ہے۔ ایک دو روز کی تو بات ہے نہیں، یہ چودہ صدیوں کا معاملہ ہے۔ شامِ غدیر سے لیکر لمحہء موجود تک "یاعلی" کی صدا کو دبانے کی ہر ممکن و ناممکن کوشش کی جاتی رہی، لیکن یہ نعرہ ریگزارِ خم سے ایسا بلند ہوا کہ ساتویں آسمان تک چہاردانگِ عالم میں اسکی گونج اب تک جاری ہے اور انشاءاللہ تا قیامت جاری رہے گی۔

حق کے اس نعرے کو بلند کرنے کی پاداش میں سیدہ النساءالعٰلمین سلام اللہ علیہا، سیدالشہداء علیہ السلام، دیگر آئمہء کرام (ع)، اصحابِ رسول (ص)، اولیاءاللہ، اولادِ رسول (ص)، مخدرات اور چھوٹے چھوٹے بچوں نے قربانیوں کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ کبھی آسمان خون رویا تو کبھی زمین لرز اٹھی۔ حق کے اس نعرے اور خدا کے صادق دین کو بچانے کے لئے ہمارے اسلاف نے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں کہ جنکے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، چہ جائیکہ ان صعوبتوں کو برداشت کیا جائے۔ بنو امیہ اور بنو عباس نے بنو ہاشم کے ساتھ وہ کیا کہ شیطان کی تسکین کی کوئی کسر نہ رہی، لیکن مہلت چونکہ ایک نامعلوم وقت تک کے لئے ملی تھی، اس لئے محبتِ اہلبیت (ع) کی پاداش میں ان دیوانوں کا خون صبحِ قیامت تک بہتا رہیگا کہ خون کا مقصد ہی بہنا ہے۔

شہید منیر کاظمی ایک سچا محبِ اہلبیت، ایک پکا عزادار اور اپنے چاہنے والوں کی جان تھا۔ منیر کے ہوتے ہوئے اہلِ محلہ کو کوئی پریشانی نہیں تھی۔ کسی کی مدد کے لئے جانے بوجھے بغیر آگے بڑھنا اسکا شیوہ تھا۔ "یاعلی مدد" کا نعرہ اسکی پہچان تھا۔ جہاں سے گزرتا، اسی نعرے کا باآوازِ بلند ورد کرتا ہوا گزرتا۔ نماز، مجلس، میلاد، اعمال، ماتم داری، شب بیداری اور خدمتِ عزاداران نہ صرف اسکے جنون کا حصہ تھے بلکہ ان امور کی بجا آوری کے لئے وہ بچوں سے لیکر بڑوں تک سبکو اکٹھا کرکے بیک وقت سالاری اور خدمت گزاری کا شرف حاصل کرتا۔ 

جانِ محفل یہی منیر کاظمی دو روز قبل اپنے تین دوستوں کے ہمراہ محلے کی اسی حسین زندگی کو چار چاند لگا رہا تھا کہ خونی آندھی چل پڑی۔ شیطان کے دو چیلے موٹر سائیکل پر آئے۔ پوچھا کہ تم چاروں میں سے منیر کاظمی کون ہے ۔۔۔ عباسِ جری (ع) کے موالی نے سینہ تان کر کہا کہ میں سید منیر حسین کاظمی ہوں۔ اس مکالمے کے جواب میں زبان کی بجائے بندوق چلی، جس میں سے نکل کر چار گولیوں نے منیر حسین کاظمی کے ولایتِ علی (ع) سے روشن دماغ کو ہوا میں اچھالا اور کہیں جاگریں۔ اپنے دوست کو بچانے کے لئے دوسرا جوان جو شیطان کی نظر میں ویسے تو ولایت کا مجرم نہ تھا لیکن دوستی کے جرم میں آگے بڑھنے کی پاداش میں خود بھی گولیوں کا نشانہ بن گیا جو اب ہسپتال میں موت و حیات کی جنگ لڑ رہا ہے۔ خدا اس جوان کو جلد از جلد روبصحت فرمائے۔ آمین۔

انتیس سالہ سید، چار کم سن یتیموں، جوان بیوہ اور بوڑھے والدین کو اپنے پروردگار اور امام (عج) کے سہارے چھوڑ کر جامِ شہادت نوش کرگیا۔ دیگر شہداء کی طرح اس دارِ فانی سے کوچ کرکے سیدھا سیدہ زہرہ سلام اللہ علیہا کے آنچل کی ٹھنڈی چھاؤں میں پہنچ گیا۔ امیر المؤمنین علی المرتضٰی علیہ السلام جنکے اسمِ گرامی کا ورد اسکا وظیفہ تھا، کے مبارک ہاتھوں سے سیراب ہوگیا۔ اس دنیا میں اسکے چاہنے والے دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ چند دن اور رو لیں گے۔ اس بیہمانہ شہادت پر احتجاج بھی ہوا، علمائے کرام نے کمسن یتیموں کے سروں پر ہاتھ بھی پھیرا۔ اہلِ محلہ نے والدین اور بیوہ کو تسلیاں بھی دیں۔ لیکن اس شہادت پر دیگر شہادتوں کی مانند چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً

اسکی بیوہ پہاڑ جیسی زندگی کیسے ِبتائے گی؟
اسکے یتیم بچے کیونکر پرورش پاسکیں گے؟
گیارہ سال سے لیکر تین سال تک کے معصوم بچوں کو یہ کون بتائے گا کہ والد کی شفقت کیا ہوتی ہے؟
یہ بچے حوادثِ زمانہ سے کیونکر محفوظ رہ پائیں گے؟
ان بچوں کی تعلیم کیسے مکمل ہوپائے گی؟
اسکول سے گھر آنے پر ان بچوں کی روٹی کا ذمہ کس کے سر ہوگا؟
دوسروں کو مجالس و محافل میں کھینچ کر لے جانیوالے کے ان بچوں کو کون مجالس پر لے کر جائے گا؟ 

ان سوالات کے جوابات سے ہماری چودہ سو سالہ تاریخ بھری پڑی ہے کہ کس طرح سے محبانِ اہلبیت اس دنیا سے رخصت ہوتے رہے اور کس طرح سے ان کی نسلیں پروان چڑھتی رہیں۔ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں، جسکا احاطہ کربلا نے نہ کیا ہو۔ یہ کربلا کا ہی احسان ہے کہ ہم پست ہمتوں کو حوصلے سے جینے کا سلیقہ سکھا دیا۔
 لیکن کچھ سوالات ہنوز تشنہء جواب ہیں کہ
کیا کبھی اس نہ رکنے والے سلسلے کو انجام دینے والوں کو حکومت انکے اپنے انجام تک پہنچائے گی؟
کیا کبھی آزاد عدلیہ اس شیطان کے خوف سے بھی آزاد ہو پائے گی یا نہیں؟
کیا کبھی کسی دہشت گرد کو ٹی وی ٹاک شوز میں اسلام کی ترجمانی کرنے کے بجائے اس کے اصلی مقام یعنی تختہء دار تک پہنچایا جائے گا؟
 
ہمارا کیا ہے؟ ہمارا تو مقصدِ تخلیق ہی اپنے پیشواؤں کے نام پر جان قربان کرنا ہے۔ خدا کی قسم! ہماری جانب سے قربانیوں کا یہ سلسلہ انشاءاللہ جاری رہیگا۔ ہر منیر کے بعد کوئی اور منیر آمادہء شہادت رہے گا۔ جب تک شیطان کی خونی پیاس جاری رہیگی، ہمارا لہو بھی حاضر رہیگا کہ خون کے اسی سمندر سے گزر کر ہماری وہ منزل سامنے آتی ہے کہ جسکے لئے ہمارا انتخاب کرکے ہمیں خلق کیا گیا ہے۔ شہادت ہی ہماری سعادت ہے۔ یہی سعادت ہماری منزل ہے۔
خبر کا کوڈ : 225277
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاء اللہ برادر جزاک اللہ
MashALLAH boht achay Perwardigaar apki taufiqaat e khair main mazeed izafa frmae..
United Kingdom
Allah bless Shaheed Munir Kazmi
United Arab Emirates
Very Nice column indeed. Shahdat is the real objective for all followers of Imam Ali(as)
ہماری پیشکش