0
Thursday 3 Jan 2013 01:49

بڑی جماعتوں کی بڑی پریشانیاں!

بڑی جماعتوں کی بڑی پریشانیاں!
تحریر: ابن آدم راجپوت

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے نئے ایجنڈے کے باعث اسٹیبلشمنٹ کی زبان بولنے اور موجودہ جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے کے لئے اتنے آگے جاچکے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اب پچھلی نشستوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی قربتوں کا اعتراف کرتے اور ایجنڈے کے حمایتی نظر آتے ہیں۔ 23 دسمبر 2012ء کے بعد جب سے مینار پاکستان لاہور کے سبزہ زار سے طاہرالقادری نے سیاسی تحریک شروع کی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ ہے کہ حکومت اور سکیورٹی ادارے دہشت گرد طالبان سے نمٹ رہے تھے تو اب غیر آئینی طریقے سے انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کا کیا کیا جائے، جو 14 جنوری کو اسلام آباد کا گھیراو کرنا چاہتے ہیں۔ کہ قاہرہ کا التحریر اسکوائر بنا کر حکومت کو چلتا کیا جائے۔ جس سے فوج اقتدار میں آجائے یا عدلیہ بنگلہ دیش ماڈل کے مطابق ججوں اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت بنا دے، یا پھر 16 مارچ 2013ء کے بعد تشکیل پانے والی نگران حکومت کو اتنی توسیع دی جائے کہ احتساب اور انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا مکمل کرکے عام انتخابات ملتوی کروا دیئے جائیں۔

اگر عام انتخابات ملتوی ہوگئے تو ملک میں انارکی پیدا ہو جائے گی۔ جو خدانخواستہ ملکی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ پھر نہ نظام بچے گا اور نہ ہی امن و امان برقرار رہ سکے گا۔ حکومت کے لئے یہ مسئلہ نہیں کہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اجتماع کو کیسے روکیں، مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام آباد پہنچ گئے تو خدانخواستہ وہاں ایک بھی خودکش حملہ ہوگیا یا بم دھماکہ ہوگیا تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا، چونکہ طالبان کے مطلوبہ افراد انہیں میسر ہوں گے۔ اس لئے کوشش کی جارہی ہے کہ طاہرالقادری کی ڈیڈ لائن سے پہلے ہی انہیں مذاکرات کی دعوت دی جائے، ان کی الیکشن کمیشن سے ملاقات کروائی جائے، یا ان کے مطالبات کو اصولی طور پر تسلیم کرلیا جائے اور عملدر آمد کے لئے الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا جائے۔

طاہرالقادری صاحب کو شاید معلوم نہیں کہ انتخابی اصلاحات کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا اور ایم کیو ایم تحریک منہاج القرآن کے کندھوں پر چڑھ کر پنجاب میں دو تین قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور کراچی سے تحریک منہاج القرآن کا کوئی سینیٹر منتخب کرلیا جائے گا۔ تو فائدہ پھر اسٹیبلشمنٹ کو ہوگا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو قومی جماعت ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، چونکہ ربوہ ضلع جھنگ میں مسلمانوں کے نام سے درج 25000 سے زائد قادیانی ووٹ ایم کیو ایم کا حمایتی بتایا جاتا ہے اور اس طرح تحریک منہاج القرآن کا بریلوی ووٹ بھی ایم کیو ایم کے امیدواروں کو مل گیا تو کامیابی یقینی ہوسکتی ہے۔

اس لئے پیپلز پارٹی اس صورت حال سے پریشان ضرور ہے، لیکن اتنی نہیں جتنی کہ مسلم لیگ ن ہے۔ چونکہ عمران خان کے بعد طاہرالقادری کا مرکز بھی پنجاب ہے۔ اس طرح پنجاب کے حکمرانوں کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوگا۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ ن نے طاہرالقادری پر سخت تنقید بھی شروع کر دی ہے۔ تو دوسری طرف کچھ مشترکہ دوست متحرک ہیں کہ ان سے مسلم لیگ ن کی قیادت کا رابطہ کروایا جائے، تاکہ انتخابی اتحاد کے امکانات کا جائزہ لیا جاسکے۔ چونکہ بریلوی ووٹ کا بڑا حصہ میاں نواز شریف کو ملا کرتا تھا، اس کے نہ ملنے سے یقیناً ان کی پوزیشن بہت کمزور ہو گی، جبکہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم پہلے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق سے جاملے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے مہرے جس طرح سے کام کرتے اور مختلف مخصوص افراد جو ہر آنے والی حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ جس طرف حرکت کر رہے ہوں تو پتہ چل جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا نیا مہرہ کون ہے اور کس طرف حرکت کی جا رہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ عمران خان کا 30 اکتوبر 2011ء کا جلسہ کامیاب کروایا گیا تو اس کے بعد دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں مختلف چہرے شامل ہونا شروع ہوئے ہیں اور اس جماعت کو جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی جیسے قابل اعتماد سیاستدان بھی دے دئیے گئے، تاکہ عوام کو اس جماعت میں امید نظر آئے۔ اسی طرح طاہرالقادری کے مینار پاکستان جلسے میں کسی بڑی پارلیمانی جماعت نے شرکت نہیں کی، مگر ایم کیو ایم نے اپنا 50 رکنی وفد ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں بھیجا۔ پھر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے حکومتی اتحاد میں ہونے کے باوجود طاہرالقادری کے ایجنڈے کی حمایت کی، تاکہ الیکشن کمیشن پر دباو ڈالا جاسکے۔

دراصل ایم کیو ایم اور تحریک منہاج القرآن کے درمیان قدر مشترک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ہے اور اب تو کراچی میں ہونے والے جلسے میں قربتیں مزید بڑھ گئی ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی پالیسی کے عین مطابق حکومت کے خاتمے سے پہلے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا ہے۔ جو پرویز مشرف کے دور میں بھی کیا گیا تھا اور اب اسے دہرایا گیا ہے۔ پھر انتخابات ہوں گے تو جیتنے والی جماعت کے ساتھ پھر اقتدار میں ایم کیو ایم ہوگی، جو مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی۔ اس سے ایم کیو ایم کو فرق نہیں پڑتا۔

ایم کیو ایم نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ایجنڈے کی حمایت کرکے ایک تو اپنے اوپر کراچی کی حلقہ بندیوں اور ووٹرز لسٹوں کی جانچ پڑتال کے مرحلے کے لئے جو دباو الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالت کی طرف سے آرہا ہے۔ اس سے وقتی طور پر نکل گئی ہے کہ جب لوگ انتخابی اصلاحات کا نعرہ لگا رہے ہوں تو ووٹرز لسٹوں کی جانچ پڑتال کا عمل صرف ایک شہر میں ہی کیوں شروع کیا جائے؟ اسے ملک بھر میں پھیلایا جائے، تاکہ جانبداری کا الزام نہ لگ سکے۔ دوسرا پنجاب میں ایم کیو ایم کے جانے کے لئے ایک سہارا منہاج القرآن کی شکل میں مل گیا ہے۔ جو کسی دور میں صرف تحریک استقلال کا بھی سہارا چاہ رہی تھی۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طاہرالقادری کا تحرک سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان اختلافات کا نتیجہ ہے۔ منہاج القرآن کے سربراہ مبینہ طور پر سی آئی اے کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں کہ پاکستان میں عام انتخابات نہ ہوسکیں کہ وہ 2014ء میں افغانستان سے انخلا کے لئے جو سپورٹ پاکستان سے عبوری حکومت کی توسیع یا فوجی آمریت سے حاصل کرسکتا ہے۔ وہ ایک منتخب حکومت سے نہیں لے سکتا۔ امریکہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے خوش ہے اور نہ ہی اپوزیشن مسلم لیگ ن سے اس لئے ایک معلق پارلیمنٹ تشکیل پاگئی تو بحران اور زیادہ شدت اختیار کرے گا۔ جس کے بعد ضروری ہوگا کہ آئندہ حکومت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر بنائیں۔ جس کے اب زیادہ روشن امکانات نظر آرہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 227508
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش