0
Tuesday 6 Apr 2010 10:25

پاک ایران گیس معاہدہ اور امریکی دبائو

پاک ایران گیس معاہدہ اور امریکی دبائو
رضا عرفان خواجہ
اکثر اوقات اسلام آباد واشنگٹن کی خواہشات کا احترام اپنے اوپر لازم قرار دے دیتا ہے۔دسمبر 2008ء میں ایران اور پاکستان کے مابین بجلی کی فراہمی کا معاہدہ بھی امریکی خواہشات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔اگرچہ اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں سستی کا مظاہرہ کرنے پر حکومت پر کئی اور طرح کے الزامات بھی ہیں جن میں کمیشن کا نہ ملنا سرفہرست ہے۔لیکن میری ذاتی رائے کے مطابق اس معاہدے میں کمیشن حائل نہیں بلکہ ہم امریکہ کے ساتھ دوستی نبھانے کے عہد پر قائم ہیں۔ حالانکہ ہمارا وطن عزیز اس وقت بجلی کے شدید بحران کی زد میں ہے۔اگر ایران سے کئے گئے معاہدے پر عمل درآمد ہو جائے تو ہم بہت حد تک بجلی کے بحران سے نکل سکتے ہیں مگر پندرہ ماہ گزرنے کے باوجود امریکی امداد کی لالچ میں ہم اس معاہد ے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔
امریکہ ہمارا دوست ہے،قرآن مجید میں واضح طور پر ذکر ہے کہ یہودی کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔اس کے علاوہ بھی اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ غلام اور آقا کا رشتہ دوستی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور نہ ہی برابری کی سطح پر۔لینے والا اور دینے والا کبھی دوست نہیں ہوا کرتے۔دینے والا ہمیشہ خیرات دیتے ہوئے دو باتوں کو پیش نظر رکھتا ہے یا تو اس کے پیش نظر خدا خوفی یا انسانی ہمدردی کا عنصر ہوتا ہے۔یا پھر دینے والے پر دنیوی مفادات غالب ہوتے ہیں۔امریکہ مسلمانوں کا ہمدرد ہے اور نہ ہی خیر خواہ،وہ چونکہ پاکستان کو وقتاً فوقتاً اپنے مفادات کے لئے امدادی رقوم جاری کرتا رہتا ہے اس لئے امریکہ کا یہ فطری حق ہے کہ وہ پاکستان سے اپنی بات منوائے۔امریکہ کو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی سے کوئی غرض نہیں،اسے محض اپنا مفاد چاہیے۔
ایران ایک آزاد ملک ہے وہ امریکہ سے امداد لیتا ہے اور نہ ہی قرض۔یہی وجہ ہے ایران امریکہ کو سپر پاور ماننے پر آمادہ نہیں۔بلکہ اسے انسانیت کا دشمن اور ذاتی مفادات کا اسیر گردانتا ہے۔امریکہ اپنے اس دشمن ملک کو دنیا بھر میں تنہا کرنا چاہتا ہے۔یورپ کے بیشتر ممالک ایران کیخلاف امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں اسی طرح مسلمان عرب ممالک بھی امریکی دبائو قبول کر چکے ہیں۔امریکہ کی خواہش ہے کہ چین اور روس بھی ایران کے خلاف اس کے ساتھ تعاون کریں۔
وائٹ ہائوس کا دعویٰ ہے کہ چین نے ایران پر نئی پابندیوں کی حمایت کر دی ہے۔اوبامہ نے چینی ہم منصب ہوجن تائو کو فون کیا اور ایران پر پابندیاں عائد کرنے پر آمادگی ظاہر کرنے پر چینی صدر کو خراج تحسین پیش کیا جبکہ بیجنگ ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں کر رہا۔چینی ترجمان کے مطابق چین ،ایران کے ایٹمی معاملے کا پرامن حل چاہتا ہے اسی طرح ماسکو بھی سفارتی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔بالفاظ دیگر دونوں مذکورہ ممالک ایران کے خلاف پابندیوں کی امریکی حمایت سے انکاری ہیں۔
امریکہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا گر بھی جانتا ہے۔گزشتہ دنوں ماسکو میں زیر زمین چلنے والی ٹرینوں پر خودکش حملوں کے نتیجے میں40 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔کہا جا رہا ہے کہ ان خودکش حملوں میں خواتین ملوث ہیں۔ان میں سے ایک کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے خاوند محمدوف کو روس میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے شہید کر دیا گیا تھا۔اس کا بدلہ لینے کے لئے اس کی بیوی نے خودکش حملہ کر کے اپنے خاوند کی شہادت کا بدلہ لے لیا۔ خودکش حملے شدت پسند مسلمانوں کی علامت بن چکے ہیں۔ا
لقاعدہ جماعت امریکی پیداوار ہے امریکہ جس ملک کو چاہتا ہے اس جماعت کی مدد سے بدنام کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ روس کو ایران کے ساتھ مسلمان ہونے کے ناطے ہمدردی ہے بلکہ ملکی مفادات کا تقاضا اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔امریکہ ان حملوں کے ذریعے روس کو مسلمان ملکوں سے دور کرنا چاہتا ہے۔امریکہ،روس کو دہشت گردی کے خلاف اپنا پارٹنر بنانا چاہتا ہے۔خودکش حملے دراصل روس کو بالواسطہ دھمکی ہے۔اگر روس نے دہشت گردی، دوسرے الفاظ میں مسلم انتہا پسندی کے خلاف امریکہ کا ساتھ نہ دیا یا امریکی خواہشات کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا تو روس کو مزید خودکش حملوں کے لئے تیار رہنا ہو گا۔
امریکہ ایک طرف ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے لئے مختلف ممالک پر دبائو ڈالتا ہے اور دوسری طرف ایران ایٹمی توانائی کے موضوع پر مذاکرات کی دعوت دیتا ہے۔ایرانی صدر احمدی نژاد نے ہفتہ کے روز ایک فیکٹری کا افتتاح کے موقع پر امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''تم کہتے ہو کہ ہم نے دست تعاون ایرانی حکومت اور عوام کی طرف بڑھایا ہے مگر انہوں نے ہمارے تعاون کے اس ہاتھ کو جھٹک کر واپس کر دیا ہے۔'' ایرانی صدر نے کہا کہ کیا میں پوچھ سکتا ہوں وہ کونسا ہاتھ ہے؟ کیا تو نے ہمارے خلاف پابندیاں ہٹا دی ہیں؟ کیا ہمارے خلاف پروپیگنڈہ مہم ختم کر دی گئی ہے؟ کیا تم نے اپنا رویہ افغانستان،عراق اور فلسطین میں تبدیل کر لیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کونسا دست تعاون؟ احمدی نژاد نے مزید کہا کہ تیل کی برآمد پر پابندیوں سے ہم پر کچھ اثر پڑنے والا نہیں۔بلکہ امریکی پابندیاں ایرانی عوام کو صہیونیوں کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
ایران اور پاکستان کے مابین ہونے والے گیس معاہدے پر امریکہ کو شدید اعتراض ہے۔امریکہ میں ہونے والے اسٹرٹیجک مذاکرات میں امریکہ پاکستان پر اس معاہدے سے علیحدہ ہونے پر مسلسل دبائو ڈالتا رہا۔امریکہ کے نائب وزیر خارجہ رابرٹ بلیک نے بھی گزشتہ روز واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ ایرانی منصوبوں میں کسی بڑی سرمایہ کاری کی ایران کے جوہری پروگرام پر اپنی تشویش کی وجہ سے مخالفت کرتا ہے۔اسی دبائو کی وجہ سے بھارت اس معاہدے سے پہلے ہی علیحدہ ہو چکا ہے بھارت نے بظاہر گیس کی قیمت اور ٹرانزٹ فیس کا بہانہ تراشا ہے۔یہ منصوبہ بھارت کے بغیر بھی پاکستان کے لئے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔پاکستان اور ایران کے درمیان 7.6 ارب ڈالر کا معاہدہ طے پایا ہے،جس کے تحت ایران کے جنوب میں فارس گیس فیلڈ کو بلوچستان اور سندھ سے جوڑا جانا ہے۔ایک اطلاع کے مطابق امریکہ ایک ایسا قانون ترتیب دے رہا ہے جس میں اگر کوئی بھی کمپنی تیل اور گیس کی فیلڈ میں ایران کے ساتھ چار کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرتی ہے تو امریکہ اس کمپنی کے خلاف پابندی عائد کرے گا اور ان میں امریکی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
ایک طرف امریکی پریشر ہے اور دوسری طرف ملکی مفادات،ملکی مفادات کا تقاضا ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے اور ملک کو خوشحالی کی طرف لے جانے کے لئے امریکی دبائو کو مسترد کرتے ہوئے اس معاہدے کو جلد از جلد عملی شکل دی جائے۔پاکستانی حکمرانوں کے لئے یہ ایک امتحان ہے دیکھیں وہ اس امتحان میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 23134
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش