2
0
Sunday 20 Jan 2013 12:14

معاہدے پر بغلیں بجانے والے متوجہ ہوں

معاہدے پر بغلیں بجانے والے متوجہ ہوں
تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراھیم نے حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان طے پانے والے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کا خیر مقدم کیا اور یقین دلایا کہ الیکشن کمیشن جعلی ڈگری والوں اور دیگر افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر نظر رکھنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرے گا۔ انگریزی اخبار دی نیوز سے بات کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہمیں بہت بڑے پیمانے پر صفائی کرنا ہے، کمیشن آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایسے اقدامات کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس کے تحت الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی ساکھ پر نظر رکھی جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کی ایک ماہ تک اسکروٹنی کی تجویز ایک خوش آئند اقدام ہے، اس سے کمیشن کو باریکی سے امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنے کا موقع ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ نئے مطالبات اور چیلنجوں کی روشنی میں کاغذات نامزدگی میں بھی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ امیدواروں کے نام وفاقی محکموں ایف آئی اے، ایف بی آر، قومی احتساب بیورو، ہائر ایجوکیشن کمیشن، صوبائی پولیس، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ، پاور ڈیپارٹمنٹ، گیس حکام، اسٹیٹ بینک اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو بھجوائے جائیں گے، تاکہ امیدواروں کی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت چھان بین کی جاسکے۔ آئین کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے گا جو کسی بینک کا 2 کروڑ یا اس سے زائد کا مقروض ہو، خواہ یہ قرضہ اس امیدوار نے خود یا اپنے اہل و عیال کے نام پر لیا ہو اور ایک سال سے اس کی ادائیگی نہ کی ہو۔
 
’’اسلام آباد لانگ مارچ معاہدے‘‘ میں حکومت نے تسلیم کیا کہ وہ انتخابات سے قبل مندرجہ ذیل انتخابی اصلاحات کے نفاذ کو یقینی بنائے گی:
1۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 شق نمبر 3 پر عمل درآمدکیا جائے گا۔
2۔ عوام کی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء کے سیکشن نمبر77 تا 82 نیز آزادانہ، منصفانہ اور دیانتدارانہ انتخابات سے متعلق شقوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
3۔ 2011ء کی آئینی اپیل پر دیئے جانے والے 8 جون 2012ء کے عدالتی فیصلے کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے گا۔
اسلام آباد لانگ مارچ معاہدے میں طے پایا کہ حکمران جماعت اور اس معاہدے پر دستخط کرنے والی تمام جماعتیں اس بات کے پابند ہیں کہ وہ نگران حکومت کے سلسلے میں پاکستان عوامی تحریک کو بھی اعتماد میں لیں گی۔ یہ سوال کہ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے یا نہیں اپنی جگہ، تاہم حکمران جماعت اور اس کے اتحادی اس غیر آئینی عہد کی مرتکب ہوچکے ہیں۔ اخلاقی طور پر اب وہ پابند ہیں کہ اس معاہدے پر من و عن عمل کریں۔ اگر حکومت اس وعدے پر عمل نہیں کرتی تو یہ اقدام اس حکومت کے جھوٹ، وعدہ خلافی اور منافقت پر مبنی سیاسی آرٹ کی تاریخ میں ایک اور اضافہ ہوگا۔
حکمران اتحاد نے یہ بھی تسلیم کیا کہ الیکشن کمیشن کی تحلیل کے سلسلے میں پائی جانے والی آئینی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے ماہرین قانون سے مشاورت کی جائے گی اور اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ میں27 جنوری کو منعقد ہوگا۔ کمیشن کی تحلیل یا تشکیل نو کا جو بھی فارمولا سامنے آئے، یہ بات یقینی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں اپنے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ 

لانگ مارچ اور دھرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مختلف سیاسی جماعتوں کے موقف نے یہ ثابت کر دیا کہ الحمداللہ! آج پاکستانی عوام کے ایک بہت بڑے طبقے کا سیاسی شعور اس سطح کو پہنچ چکا ہے جہاں جمہوریت کے نام پر کسی بھی مک مکا کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ نگران حکومت کے معاملے پر اگر حکومت، اس کے اتحادی اور اپوزیشن کسی بھی مک مکا کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ سیاسی طبقہ ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگا۔ یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کا حکومت سے معاہدہ کسی سیاسی اتحاد کی علامت نہیں بلکہ دو متحارب فریقین کے مابین وہ معاہدہ ہے جس میں ہر فریق کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی بھی فریق اپنی ذمہ اداری ادا نہیں کرتا تو دوسرے فریق کو کھلی اجازت ہے کہ وہ دوبارہ میدان عمل میں اترے اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے عوامی جدوجہد کا آغاز کرے۔ تحریک انصاف کی قیادت نگران سیٹ اپ کی تشکیل کی منتظر ہے۔ اگر نگران سیٹ اپ میں تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا تو تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مابین پائی جانے والی دوری، دوری نہیں رہے گی اور ملک میں وہ طوفان برپا ہوگا جو سیاسی آرٹ کی ماہر جماعت پی پی پی اور اس کی قیادت کے لیے سنبھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ 

جہاں تک لانگ مارچ اور دھرنے کی کامیابی کا سوال ہے تو اس کا اندازہ حزب اختلاف کی مختلف الخیال جماعتوں کے رائے ونڈ کے اکٹھ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جہاں یہ اجلاس ملک کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کا آئینہ دار ہے، وہیں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے مابین بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی کی بھی دلیل ہے۔ وہ لوگ جو الیکڑانک میڈیا پر اس مارچ اور دھرنے کے خلاف گھنٹوں بولتے رہے، جب لکھنے پر آئے تو یوں لکھا: وقت نے ثابت کر دیا کہ ڈاکٹر صاحب کا دھرنا ان کی سولو فلائیٹ تھی، ان کو فوج یا کسی اور ادارے کی پشت پناہی حاصل نہ تھی۔ اگر کوئی بھی ادارہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہوتا تو ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کبھی ان کا ساتھ نہ چھوڑتیں۔ دھرنے کے دوران کسی عالمی تنظیم یا میڈیا نے بھی ان کی حمایت کا اعلان نہ کیا جبکہ اس کے برعکس تیونس، لیبیا، الجزائر، شام اور دیگر ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ اور مغرب نے فوراً عوام کے سڑکوں پر آنے کو سراہنا شروع کر دیا تھا۔ معروف صحافی اور اینکر پرسن جاوید چوہدری اپنے مذکورہ کالم میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی کونسی بات غلط تھی، یہ درست ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے ماضی میں غلطیاں ہوئیں، وہ کینیڈین نیشنل ہیں، تاہم کیا ہم ان غلطیوں کے سبب ان کی درست باتوں کو بھی رد کر دیں؟ کیا یہ درست نہیں کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت دو بڑی پارٹیوں کا مک مکا ہے؟ کیا یہ درست نہیں کہ حکومت اپنی رٹ کھوچکی ہے؟ ملک میں گیس، بجلی، پیٹرول، روزگار، امن، تحفظ اور انصاف دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں مگر حکومت بےحسی کا کمبل لپیٹے سو رہی ہے۔
 
گذشتہ روز لانگ مارچ کے معاہدے پر میڈیا کے ذریعے پیدا کردہ شکوک و شبہات کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ڈیڈ لائن کے خاتمے پر میرے پاس مختلف آپشنز تھے۔
1۔ لاکھوں کی تعداد میں عوام پارلیمنٹ ہاؤس پر قبضہ کرلیں۔ اس کے بعد وہ ہوتا جو عام طور پر آئینی جمہوری ملکوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے سے اس دن 3 بجے کے بعد ملک میں جمہوریت نہ رہتی۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت میں جو کہتا، وہاں موجود عوام وہی کرتے۔ اگر میں پارلیمنٹ پر قبضہ کروا دیتا تو اِس صورت میں اِس ملک میں جمہوریت کا خاتمہ ہو جاتا اور معلوم نہیں کہ کتنی دیر کے لیے۔ ایسی صورت میں نہ رائے ونڈ کے تخت پر کوئی ہوتا اور نہ ہی کہیں اور۔
2۔ میں اپنے وعدہ اور قول کے مطابق آخری وقت تک پرامن رہتے ہوئے جمہوریت اور مذاکرات کو ہی موقع دیتا۔ 
دھرنے سے پیدا ہونے والی صورت حال اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں پی پی پی کی قیادت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انھوں نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مذاکرات کی راہ اپنائی، ڈاکٹر طاہر القادری کے تمام جائز مطالبات کو تسلیم کیا خواہ یہ مطالبات ان کے سیاسی مستقبل کے خلاف ہی کیوں نہ جاتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 232879
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
اسد بھائی آپ کی باتیں درست ہیں. اور طاہر القادری کے ساتھ ملک کی ساری عوام سڑکوں پر ہوتی لیکن ڈاکٹر صاحب کی گفتگو اور عمل میں وسیع تضاد, خصوصا اپنے آپ کو حسینی کہنا اور پھر خود کنٹینر میں بیٹھنا وہ بھی پر ہجوم دھرنے [جس میں تمام عمر کے مرد حضرات کے ساتھ ساتھ عورتیں اور معصوم بچے بھی تھے] کا سالار ہونے کی بنیاد پر انہیں زیب نہیں دیتا تھا۔ اور اتنے بڑے کام کے لیے اپنی زبان پر کنٹرول نہ رہنا قوم کے لیے نہایت مایوس کن تھا جس وجہ سے کہی لوگ گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے ہی رہ گئے۔ خیر اللہ بہتر جانتا ہے۔ بحثیت ایک ملت کا فرد ہونے کے ناطے میں یہی کہوں گا، ہمیں کسی انفرادی شخصیت سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے، کوئی اچھا کرے تو اس ساتھ دیں لیکن ہر پہلو کو دیکھ کر یہ نہ ہو آپ کسی کی فیور[favour] میں حد سے اتنا بڑھ جائیں کہ بہت دور جا کر پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے ۔
برادر عزیز! آپ کی تشویش سو فیصد درست ہے، تاہم ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بہت سی برائیوں میں سے کم ترین کا چنائو کرنا ہے ۔۔۔۔۔فضل الرحمن صاحب کا کوئٹہ کے معاملے میں موقف آپ کے سامنے ہے، ان حالات میں پی پی پی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف میں سے آپ کس کا چنائو کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اگر ملکی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو یہ کڑوی گولی کھانی ہوگی۔۔۔۔۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے کسی ایسے مقام پر پہنچیں، جہاں کم سے کم نقصان کے ساتھ اپنی ملت کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو۔
ہماری پیشکش