0
Friday 25 Jan 2013 00:46

اے این پی کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس

اے این پی کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس
تحریر: رشید احمد صدیقی 

22 دسمبر 2012ء کو صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور ڈھکی نعلبندی پشاور میں ایک خودکش حملہ میں آٹھ افراد کے ہمراہ جاں بحق ہو گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے بقول یہ ان کی جماعت کے 707ویں شہید ہیں۔ قیادت اور کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد میں قربانی کے بعد اے این پی نے اس بات کا ادراک کیا کہ مزید قربانیاں بھی دی جائیں تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ صوبائی حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات نے بشیر بلور قتل کے بعد جو پہلا بیان دیا تقریباً اسی طرح کا بیان اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا بھی تھا۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ طالبان سے سنجیدہ مذاکرات کرے اور اگر پھر بھی یہ لوگ نہیں مانتے تو ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔ بشیر بلور کے قتل کو اے این پی کا بہت بڑا نقصان قرار دیا گیا۔ پوری پارٹی کافی عرصہ تک سوگ میں رہی لیکن ان کے کسی بیان سے اشتعال یا جذباتی پن نظر نہیں آیا۔ مسلسل اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ کہ اب فیصلہ کن اقدام ہو جانا چاہیے۔ لیکن پہلے مذاکرات ہو جائیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ ہم پاک فوج کے ہر ایکشن کی بھرپور حمایت کریں گے۔ 

سوگ ختم ہوا تو قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیرپاو جو خود بھی کئی خودکش حملوں کی زد میں آتے آتے رہ گئے ہیں، نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی مذاکرات کی بات تو کرتی ہے لیکن اس کے پاس کوئی ایجنڈا اور نقشہ نہیں ہے۔ اس دوران طالبان کی جانب سے دوبارہ مذاکرات کی بات سامنے آئی۔ ساتھ ہی ان کی روایتی شرائط بھی تھیں۔ مذاکرات کی میز پر آمادگی طالبان کی جانب سے پہلی بار تھی اور اسے بڑی پیش رفت سمجھا جا رہا تھا۔ جس کے بارے میں دبے لفظوں میں ردعمل آیا ہر جانب سے۔ لیکن اے این پی کے صوبائی صدر افراسیاب خٹک نے اس پیشکش کو فوراً مسترد کر دیا۔ 

آفتاب شیرپاو وفاقی وزیر داخلہ رہے ہیں۔ ان کے دور میں پاکستان کے اندر ڈرون حملے شروع ہوئے تھے۔ جواباً ان پر کئی بار خاصے قریب سے خودکش حملے ہوئے جس میں وہ بال بال بچے۔ ان کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ لیکن ان کی بہادری ہے کہ ڈٹے ہوئے ہیں اور عوامی سیاست سے پل بھر کے لیے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ اس حوالے سے بشیر بلور اور ان کو ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی وزارت کے دوران پاک افغان جرگے بھی منعقد کرائے تھے لیکن بےسود۔ بہر حال وہ مسئلہ سے متعلق ترین رہنماء ہیں اور اس کی تمام نزاکتوں کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اے این پی کی تجویز سے یہ کہہ کر اختلاف کیا کہ ان کی بات سطحی قسم کی ہے۔ حقیقت میں ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے اور نہ یہ لوگ اس میں سنجیدہ ہیں۔ اس حوالے سے جب اے این پی کی قیادت سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ مذاکرات مرکزی حکومت کرے گی۔ ہم اس سے مطالبہ ہی کر سکتے ہیں۔ 

جب ان سے کہا گیا کہ سوات میں تو آپ نے مذاکرات کیے، تو کہا کہ سوات صوبہ کے تحت آتا ہے اور فاٹا مرکز کے تحت۔ حملے چونکہ فاٹا سے ہو رہے ہیں اس لیے مذاکرات مرکز کو کرنے ہوں گے۔ پتہ نہیں وہ اس بات کی کیا تاویل کریں گے کہ بشیر بلور پر حملہ پشاور میں ہوا اور ملالہ کا بین الاقوامی اہمیت کا واقعہ بھی سوات میں پیش آیا۔ پھر کیوں اسے فاٹا کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ مرکز سے مطالبہ اور فاٹا کی تاویل سے اندازہ لگایا گیا کہ مذاکرات کی بات میں صوبائی حکومت اور عوامی نیشنل پارٹی سنجیدہ نہیں ہیں، لیکن مزید قربانیاں دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ چنانچہ کسی تیاری کے بغیر بےاختیار ان کے منہ سے مذاکرات کی بات نکلتی ہے۔ 

حیران کن امر یہ ہے کہ ملالہ پر سوات میں حملہ کے بعد اے این پی اور پی پی پی دونوں جانب سے وزیرستان میں آپریشن کی بات بار بار کی گئی۔ لیکن پاک فوج کی جانب سے تحمل کا اظہار ہونے کے بعد دونوں جانب سے خاموشی آ گئی۔ مذاکرات کی بات پر مرکزی حکومت نے ہونٹ سی لیے ہیں اور کوئی ردعمل سامنے نہیں آ رہا ہے۔۔۔۔ مرکز کی جانب سے مایوسی کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے اس حوالے سے خود کڑوا گھونٹ نگلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے لیے تیاریوں کا آغاز کیا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ق کی قیادت سے ملاقاتیں کی گئیں۔ ہر دو نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس دوران پشاور سے متصل تحصیل باڑہ کے علاقہ عالم گودر میں ایک ہی گائوں میں دو تین گھروں میں رات کی تاریکی میں مسلح گروہ داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے 18 افراد کو بھون ڈالا۔ مارے جانے والوں میں ایک ہی گھر کے سات اور دوسرے گھر کے پانچ افراد شامل تھے۔ لاشوں کو باہر کھیتوں میں پھینک دیا گیا اور علاقہ میں کرفیو کی وجہ سے کسی کو ان کو اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔
 
دوسرے روز علاقہ کے لوگ لاشوں کو اٹھا کر پشاور لے آئے اور گورنر ہائوس کے سامنے ان کو رکھ کر دھرنا شروع کیا۔ وہ دن پشاور میں بڑے تنائو میں گزرا اور آدھی رات کو جب اہل دھرنا اپنی میتوں کو سڑک پر رکھ کر پاس سو رہے تھے کہ ان پر پانی چھوڑ دیا گیا اور لاشوں کو گاڑیوں میں لے جاکر واپس باڑہ پہنچایا گیا۔ اس سے قبل کوئٹہ میں لاشوں سمیت دھرنا کی وجہ سے ایک دنیا ہل گئی تھی اور وفاقی حکومت کو صوبہ میں گورنر راج نافذ کرنا پڑا تھا۔ لیکن پشاور میں لاشوں کی بےحرمتی کی گئی۔ لاشیں لانے والوں پر جنوری کی یخ بستہ رات کو پانی چھوڑا گیا۔ یہ کام گورنر ہائوس کے عین سامنے ہوا۔ جو وزیر اعلیٰ ہائوس کے تقریباً بالمقابل ہے۔ اٹھارہ لاشوں پر نوحہ کناں قبائیلیوں کے ساتھ ایسا سلوک انتہائی حساس اور نازک معاملہ ہے۔ یہ ریاست پاکستان کے شہری ہیں، ان سے ایسا سلوک کسی طور ملکی سالمیت کے لیے مفید نہیں ہے۔ 

باڑہ واقعہ کے بعد اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس کی تیاریاں تیز ہو گئیں تو 20 جنوری کو قاضی حسین احمد مرحوم کی یاد میں تعزیتی اجتماع کے لیے آئے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ ان کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گی۔ اسی اجتماع کے لیے لاہور سے آنے والے جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے جماعت کے صوبائی ہیڈ کوارٹر میں ایک اجلاس میں شرکت کی، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کی جائے گی۔ ملکی اور علاقائی سیاست میں ان دونوں جماعتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ بالخصوص طالبان کے حوالے سے دونوں کا اپنا مخصوص پس منظر ہے۔ حالات کی مناسبت سے دونوں کی جانب سے عدم شرکت کا اعلان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ 

دہشت گردی کی لہر میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والی اے این پی بوجھ اپنے کاندھوں پر لینے کی بجائے مرکز، فوج اور آخر میں اے پی سی کا سہارا لے رہی ہے۔ انتہائی نازک صورت حال میں ہرقدم احتیاط کا متقاضی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا صوبائی حکمران جماعت ہونے کے ناطے مقام انتہائی اہم اور مشکل ہے۔ یہ مشکل راستہ اس نے خود چنا ہے۔ اس کی پانچ سالہ حکومت ان آپریشنوں، دھماکوں اور ڈرون حملوں میں گزری ہے۔ مذاکرات کی فضاء کی جانب رجوع بھی انہوں نے خود کیا ہے۔ لیکن یہ فضاء بنانے کے لیے جو امور ناگزیر ہوتے ہیں ان میں اعتماد کی بحالی سرفہرست ہے۔ دوسرا فریق حملہ آور کے ساتھ ساتھ غیر ذمہ دار ہے۔ اس کے پاس اقتدار نہیں۔ اس کو مذاکرات میں کچھ کھونا نہیں۔ مقابلہ میں اے این پی کا اقتدار دائو پر لگا ہے۔ دو مہینے بعد ان کو عوام کے پاس جانا ہے۔ ایک طرف اس کو اپنے لیڈروں اور کارکنوں کی جانوں کی حفاظت کرنی ہے اور دوسری طرف دوسری بار اقتدار کے لیے ووٹ لینا ہے۔

چنانچہ حکومت کو انتہائی اہم اور نازک وقت میں ہر فیصلہ انتہائی احتیاط و ذمہ داری کے ساتھ کرنا پڑے گا۔ اور ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی اس طرح ایک طرف اپنے گناہ دھونا چاہتی ہے۔ تو دوسری طرف اپنے گناہ میں دوسروں یعنی آل پارٹیز کو گھسیٹنا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس سے قبل صوبائی حکومت نے صوبائی دارالحکومت میں باڑہ کے بےگناہ قتل کیے جانے والے 18 افراد کی لاشوں کے ساتھ جو سلوک کیا اور ان کے لواحقین پر جو بدترین تشدد کیا، بقول ترجمان کے یہ سب کچھ امریکہ کی خوشنودی کے لیے تھا اور حکمران جماعت امریکہ کی پسند کے مطابق سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔ تو پھر ہم کیوں کر ان کے مذاکرات میں شریک ہوں؟ چنانچہ ہماری جماعت نے اے این پی کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

ہر جماعت اپنے فیصلوں میں آزاد ہے لیکن دہشت گردی کے فیصلے پر اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ جماعت اور جے یو آئی کی جانب سے انکار کے بعد 21 جنوری کو نشتر ہال پشاور میں اے این پی کے زیر اہتمام باچا خان اور ولی خان کی برسی کی مناسبت سے اجتماع میں پارٹی قیادت نے وہی باتیں دہرائیں لیکن اس بات کا اضافہ کیا کہ جن جماعتوں نے اے پی سی میں شرکت سے معذرت کی ہے ہم ان سے دوبارہ رابطہ کریں گے۔ انھوں نے تمام جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف مل کر متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حکومت اور حکمران جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ پہلے دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیں اور ایک ایسی پالیسی اپنائیں کہ عوام اور مخالف فریق کو محسوس ہو جائے کہ فریق اول واقعی مذاکرات میں سنجیدہ ہے۔ پاک فوج اس معاملے کا اہم ترین شریک کار ادارہ ہے۔ اس کو بھی اعتماد سازی کی فضاء بنانے کے لیے اپنی کارروائیوں اور آپریشن کی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی اور ہر ایسے قدم سے گریز کرنا ہوگا جو اعتماد سازی کے لیے نقصان دہ ہو۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے انکار کے بعد اے پی سی ایک سعی لاحاصل ہو گی۔ ہماری تجویز ہوگی کہ مرکزی حکومت میں شامل سنجیدہ قیادت اس معاملہ کو آگے بڑھائے اور اس دوران کارروائیوں کی ترجیحات کا تعین بھی کیا جائے جس کے بعد اے پی سی کا انعقاد کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 234043
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے