0
Wednesday 30 Jan 2013 00:11

پھر مذاکرات اور اس کے بعد۔۔۔؟

پھر مذاکرات اور اس کے بعد۔۔۔؟
تحریر: ابن آدم راجپوت

شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری سوچتے تو ضرور ہوں گے کہ انہوں نے لانگ مارچ اور دھرنے کے بعد لاہور میں ہونے والی حکومتی ٹیم سے ملاقات میں سے کیا حاصل کیا ہے۔ اور یہ کہ 17 جنوری کو اسلام آباد کے کنٹینر مذاکرات اور تحریک منہاج القرآن سیکرٹریٹ لاہور کے فیصلوں میں کتنا فرق ہے۔ چھ گھنٹے کے اجلاس کے بعد بریفنگ میں موجود صحافی اور خود قوم بھی ڈھونڈتی رہی کہ اس میں خبر کیا ہے۔ ملاقات کے شروع میں ہی وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کا مذاکراتی ٹیم میں نہ ہونا ہی پیغام تھا کہ حکومت نے اپنی گیم مکمل کرلی ہے، اور بادشاہ لوگ پھر مان گئے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری ہی اس ملک میں سیاست کر رہے ہیں۔ باقی اس کی سیاست کے پیچھے سیاست کر رہے ہیں۔ کوئی تنقید کرتا ہے تو کوئی تسلیم کرتا ہے اور اس طرح جیسے ماضی میں اور آج بھی یہ بات صادق آتی ہے کہ پاکستان کی سیاست بھٹو اور anti-Bhutto کیمپوں میں ہی تقسیم ہے۔ 

ایک اور کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے وعدے کے مطابق مذاکرات بھی کئے اور بات بھی کوئی نہیں مانی۔ قومی اسمبلی، تین صوبائی اسمبلیاں یعنی بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ کو تحلیل کرنے اور آئندہ 10 دنوں میں کر دیا جائے گا۔ آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی اس کے ساتھ ہی کردیا جائے گا۔ یہ وہ اعلانات اور وعدے ہیں جو خورشید شاہ سطح کے پیپلز پارٹی کے رہنما بھی کرچکے ہیں کہ 6 مئی سے پہلے انتخابات ہو جائیں گے۔ اسمبلیاں تحلیل کرنے پر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہونے کے وجہ سے وفاقی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس حوالے سے اپوزیشن لیڈر نثار علی خان کے مخالفانہ بیانات اپنی جگہ، قمر زمان کائرہ نے درست کہا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے پنجاب اسمبلی کو بھی باقی اسمبلیوں کے ساتھ تحلیل کرنے کی بات کریں گے، تاکہ ایک ہی دن انتخابات مکمل ہو سکیں۔ 

انتخابات کی تاریخ کے فوری اعلان کا مطالبہ تو میاں نواز شریف کی دعوت پر لانگ مارچ کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں کیا جا چکا تھا۔ اس لئے سیاسی اور صحافتی حلقے ڈھونڈ رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سارے ڈرامے سے کیا کچھ حاصل کیا ہے، اگر تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ حکومتی خوش اسلوبی کے باعث طاہرالقادری صاحب کو کچھ نہیں ملا، اور حکومت نے دھرنے کے خطرے کو مذاکرات سے ٹال بھی دیا ہے۔ البتہ ایک مثبت پہلو اس کا یہ ہے کہ عوام کو امیدواروں کی اہلیت سے متعلق آرٹیکل 62 اور 63 پر عملدرآمد اور موروثی سیاست کے حوالے سے شعور بلند ضرور ہوا ہے۔ اور امید کرتے ہیں کہ مزید جاری رہے گا۔ اور اب ڈاکٹر طاہرالقادری نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے کہ جہاں لانگ مارچ سے پہلے انہیں حکومت کے اہم افراد اور دانشور افراد جانے کا مشورہ دیتے تھے، کہ انتخابی اصلاحات جو بھی چاہتے ہیں انہیں الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر پیش کر دیں یا پھر عدالت سے رجوع کریں، جو حکومت اور موجودہ نظام کے خلاف کوئی بھی اقدام کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے۔

حکومت نے الیکشن کمیشن کی تحلیل اور تشکیل نو کا مطالبہ اسلام آباد میں تسلیم کیا گیا اور نہ ہی لاہور میں تسلیم کیا گیا۔ اب 31 جنوری کو ایک بار پھر لاہور میں پیپلز پارٹی کی ٹیم تحریک منہاج القرآن آئے گی۔ تاکہ نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلٰی کے لئے ناموں پر مشاورت کر لی جائے لیکن ظاہر ہے کہ حکومت اور حکمران اتحاد ان ناموں کا پابند نہیں ہے۔ اس لئے مشاورت ویسے ہی ہو گی جیسے کہ باقی جماعتوں کے ساتھ ہو گی، اس لئے طاہرالقادری اب اپوزیشن اب صرف مسلم لیگ (ن) کے لئے ہیں۔ حکومت کے تو وہ اتحادی ثابت ہوئے ہیں۔ اور ان کی مقبولیت کا گراف اوپر جانے کی بجائے نیچے کی طرف گیا ہے، جس میں سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔
خبر کا کوڈ : 235733
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش