QR CodeQR Code

مالی اور افریقہ پر یلغار کیوں؟

1 Feb 2013 01:16

اسلام ٹائمز: آج تک کسی نے اس موضوع پر غور نہیں کیا ہے کہ دہشتگردی کا اصل سبب کیا ہے جس سے اس ملک کے حالات بحرانی ہو چکے ہیں۔ انتہا پسندی اور القاعدہ جیسے اداروں کا خالق کون ہے؟ امریکہ اور انکے سعودی عرب جیسے ٹاؤٹ ملک اس حقیقت کو مسترد نہیں کر سکتے کہ موجودہ انتہا پسندی کو ان کے سرمائے سے خلق کیا گیا ہے آج سامراجی طاقتیں دہشگردی کے تیر سے دو شکار کر رہی ہیں وہ ایک طرف اسلام کو بدنام کر رہی ہیں دوسری طرف دہشتگردی کے مقابلے کے نام پر جب چاہتی ہیں کسی ملک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بناتی ہیں مسلمان ملک مالی پر حالیہ حملوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔


تحریر: محمد علی نقوی

مسلمان ملک مالی پر فرانس اور برطانیہ کے حملوں کی خبریں آج کل عالمی ذرائع ابلاغ کا خاص موضوع ہیں، ان دو بڑے یورپی ملکوں کی جارحیت کے کیا بنیادی اسباب ہیں؟ کیا مالی کو آئندہ کا افغانستان بنایا جا رہا ہے یا پاکستان افریقہ کو صیہونی آباد کاری کے لئے تیار کیا جا رہا ہے؟ اس پر مختلف تبصرے سامنے آ رہے ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جمہوریہ مالی یا Republic of Mali مغربی افریقہ کا زمین بند ملک ہے، جو براعظم افریقہ کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ مالی کی سرحدیں شمال میں الجزائر، مشرق میں جنوب میں برکینا فاسور آئیوری کوسٹ، جنوب مغرب میں گنی اور مغرب میں سینیگال اور موریطانیہ واقع ہیں۔ شمال میں سیدھی لکیر کی طرح اسکی سرحد مرکز صحارہ تک جاتی ہیں تو جنوب جہاں ملک کی زیادہ تر آبادی مرتکز ہے نائیجر اور سینیگال کے دریا‏وں کی مرہون منت ہے۔ آزادی کے بعد مالی کہلائی جو بمبارہ زبان میں دریائی گھوڑے یا گینڈےکو کہتے ہیں۔ مالی کا وفاقی دارالحکومت بمباکو ہے، مالی کی لگ بھگ 90 فیصد آبادی مسلمان ہے مسلمانوں کا اپنا طریقہ تعلیم ہے، جو گریجویشن اور ڈاکٹری کی ڈگریوں تک بھی تعلیم دیتا ہے۔ حج کرنے والوں اور عرب ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گو فرانسیسی دور اقتدار میں عیسائی مشنریوں کو اضافی سہولیات فراہم کی گئیں لیکن عیسائی آبادی صرف ایک فیصد ہے۔
فرانسیسی بولنے والوں کی تھوڑی سی تعداد شہری علاقوں تک محدود ہے، تاہم شرح تعلیم 60 فیصد ہے۔ زیادہ تر مالیوں نے علاقائی زبان میں تعلیم حاصل کی ہے۔ دیگر لوگوں نے عربی میں بھی تعلیم حاصل کی ہے اور مدرسوں میں بھی۔ دنیا کی قدیم ترین جامعات میں سے ایک سان کورے ٹمبکٹو میں واقع ہے، جو چودھویں صدی عیسو‏ئ سے قائم ہے۔ 

1997ء میں حکومت نے آئی ایم ایف کی تجویز کردہ انتظامی تبدیلیوں کو اپنایا ہے۔ اور کئی بین الاقوامی اداروں نے سونے کی کانوں سے سونا نکالنے کے لیے 1996ء تا 1998ء تک کام کیا ہے، اور حکومت کی کوشش ہے کہ مالی دنیا میں سونے کی ترسیل کا اہم مرکز بن سکے۔ یہیں سے مالی کی اصلی مشکلات کا آغاز ہوا مغربی افریقہ کا زمین بند یہ ملک دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔ اسکا موسم گرم و خشک ہے اور سطح زمین زیادہ تر ہموار ہے جو شمال کی طرف قدرے بلند ہوتی جاتی ہے۔ زیادہ تر ملک صحارہ میں واقع ہے جہاں گرمیوں میں گرم جھکڑ اور ریتلے طوفان چلتے ہیں اور خشکسالی رہتی ہے ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جہاں سونا، یورینیم، فاسفورس کے مرکبات، کالونائٹ، نمک اور چونا کی کانیں بکثرت ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فرانس اور برطانیہ مالی کے معدنی ذخائر پر نظریں گاڑھے ہوئے ہیں اور مالی پر فوجی جارحیت کی ایک وجہ اس ملک کے یورینیم کے ذخائر بھی ہیں جس کی وجہ سے فرانس مالی اور اسکے ہمسایہ ممالک پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ نائیجریا کی یورینیم کی کانوں پر قبضے، آئیوری کوسٹ میں اپنے مفادات کی حفاظت اور سینیگال و الجزائر اور موریطانیہ پر تسلط قائم رکھنے کے لئے فرانس کو ان افراد کو کچلنے کی ضرورت ہے جنہیں اہل مغرب دہشت گرد قرار دے رہے ہیں کیونکہ یہ انکے راستے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔ 

بہرحال مالی پر فرانس کی جارحیت کے تسلسل کے بارے میں تجزيہ کار مختلف آرا رکھتے ہیں تا ہم ایک بڑے حلقے کا یہ کہنا ہے کہ اس علاقے پر تسلط کے لئے ایک طویل جنگ کی ضرورت ہے اس لئے فرانس کی افواج کی اس علاقے میں طویل موجودگی کو ہرگز مسترد نہیں کیا جا سکتا ۔ پیرس اس سے پہلے مالی میں افریقی فوجیوں کی مداخلت کا حامی نہ تھا۔ فرانسیسی حکام نے مالی کے شورش پسندوں کے خلاف جنگ میں مالی اور لاجیسٹک حمایت کے اعلان کے باوجود تاکید کی تھی کہ وہ اس ‏علاقے میں اپنے فوجی نہیں بھیجیں گے۔ فرانسیسی وزیر دفاع نے مالی کے صدر کی جانب سے مدد کی درخواست اور شورش پسندوں کے منظم حملوں کو فرانس کے فوری ردعمل کا سبب قرار دیتے ہوئے فرانس کی فوجی مداخلت کا مقصد مالی کے اقتدار اعلی کا احیاء قرار دیا ہے۔ یورپی اور افریقی ملکوں نے مالی میں فرانس کی فوجی مداخلت کا خیر مقدم کیا ہے۔ البتہ مالی میں بھیجے جانے والے فرانسیسی فوجیوں کی تعداد اور فرانس کی فوجی مداخلت کی حدود کے بارے میں ابہامات پائے جاتے ہیں۔ 

فرانس مالی میں ایسی حالت میں فوجی مداخلت کا ارتکاب کر رہا ہے کہ جب ماہرین نے شورش پسندوں کے ساتھ ان کی جھڑپوں کے منفی نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ فرانس نے ابھی تک صرف جنوبی علاقوں میں مالی کی حمایت کی ہے۔ اور خطرات کے پیش نظر ابھی تک اس نے شمالی علاقوں میں اپنے فوجی نہیں بھیجے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور الجزائر اس جھڑپ میں حصہ لینے کے سلسلے میں ابھی تک شش و پنج کا شکار ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب مالی کے بحران میں الجزائر کا موقف بہت موثر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مالی میں فرانسیسی مداخلت کا کم سے کم نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ فرانسیسی استعمار کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہو گا دوسری جانب 2011ء میں جب پیرس نے لیبیا پر حملہ کیا تھا تو اسے کسی بڑے نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا لیکن اس کے برعکس مالی میں جھڑپوں کے ابتدائی دنوں میں ہی اس ملک کے شورش پسندوں کی فائرنگ سے فرانس کا ایک پائلٹ ہلاک ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ شورش پسندوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ فرانسیسی حکومت سے سخت انتقام لیں گے۔ ان دھمکیوں کے باوجود فرانسیسی حکام نے شمالی مالی میں موجود شورش پسندوں کے گڑھ ٹومبوکٹو [Tombouctou] کی جانب پیش قدمی کو مسترد نہیں کیا ہے۔ اس وقت فرانسیسی فوجی سوارہ کے علاقے میں تعینات ہیں۔ فرانس نے باماکو میں چھ ہزار فرانسیسی فوجیوں کی جانوں کی حفاظت کے بہانے متعدد فوجی اس علاقے میں اتارے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو فرانسیسی فوجی مالی کے مرکز موپٹی کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔ 

فرانسیسی حکام مالی میں فوجی مداخلت کا مقصد اس ملک کے اقتدار اعلی کا تحفظ اور انسانی اہداف کے حصول کو قرار دے رہے ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فرانس کا اصل مقصد اس ملک کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے۔ فرانس مالی کے شمالی علاقے کو خصوصی طور پر مدنظر رکھے ہوئے ہے۔ یہ علاقہ معدنیات سے مالا مال ہے۔ خاص طور پر اس علاقے میں یورینیئم کے عظیم ذخائر پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس اس علاقے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کا شدید رجحان رکھتا ہے۔ فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ افریقی ملک مالی پر فوجی حملے کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردار نمبر دوہزار اٹھاون کا حوالہ دے کر عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے مالی میں فرانسیسی فوجیوں اور جنگی جہازوں کے حملوں کو اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق قرار دیا ہے۔ 

دسمبر میں منظور ہونے والی قرارداد میں اکو موگ کی تین ہزار تین سو فوجیوں کو مالی کے شمال بھیجنے کی تاکید کی گئی تھی، اکو موگ فوجوں کا تعلق اکواس علاقے کے رکن ممالک سے ہے جس نے گذشتہ برس نومبر میں مالی کے شمال میں تعینات ہونے کے سلسلے میں آمادگی کا اعلان کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے مالی میں بین الاقوامی فوجی آپریشن کے بارے میں افریقی ممالک کی تجویز پر قرار داد منظور کی تھی، اور اس قرارداد میں تاریخ اور فوجی حملے کی مدت کے تعین کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اشارہ نہیں کیا گیا تھا البتہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک نے مالی کی فوج کی تعمیر نو اور اس ملک کی دفاعی طاقت کو مضبوط کرنے پر تاکید کی تھی جسے گذشتہ برس بائیس مارچ میں کودتا کے بعد فراموش کر دیا گیا۔
اب تک کہا گیا ہے کہ بورکینافاسو،گھانا ،نیجیریہ، بنین، سنگال، اور ٹوگو کی فوجیں آئندہ دنوں میں مالی پہنچ جائیں گی۔ اقوام متحدہ کی تاکید ہے کہ افریقی ممالک کی فوجیں جلد از جلد مالی میں تعینات ہوجائیں نیز سلامتی کونسل نے بھی مکمل طورپر مالی میں فوجی اپریشن کے پیش نظر حملے کی اجازت دی ہے ۔ مالی پر حملے کے سلسلے میں امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے فرانس کی لوجستگی مدد کے باوجود روس اور چین برابر تاکید کررہے ہیں کہ مالی میں ہرقسم کے آپریشن کے لئے سلامتی کونسل اور افریقی یونین کی تائید ضروری ہے۔ 

حالیہ برسوں میں افریقی یونین کی کوشش تھی کہ اس برعظم کا بحران مغربی ممالک کی مدد کے بغیرافریقی ممالک کے ذریعہ حل ہونا چاہئیے، افریقی ملک مالی کے شہروں اور دیہی علاقوں میں بیرونی فوجی مداخلت کی وجہ سے لاکھوں افراد موریتانیا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یورو نیوز کے مطابق مالی کے چار لاکھ باشندے ہمسایہ ملک موریتانیا میں پناہ لے چکے ہیں اور ہزاروں آ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تنظیم ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن نے مالی کے پناہ گزینوں کو غذائی امداد پہنچانے کے لئے ستانوے ملین یورو کی درخواست کی ہے۔ موریطانیہ میں امبرا کیمپ میں حالات نہایت نامناسب ہیں اور انسانی المیہ کا خطرہ ہے۔ اس کیمپ میں پچپن ہزار پناہ گزیں موجود ہیں۔ واضح رہے فرانس نے دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کے بہانے مالی پر حملہ کیا ہے لیکن آج تک کسی نے اس موضوع پر غور نہیں کیا ہے کہ دہشتگردی کا اصل سبب کیا ہے جس سے اس ملک کے حالات بحرانی ہو چکے ہیں۔ انتہا پسندی اور القاعدہ جیسے اداروں کا خالق کون ہے؟ امریکہ اور انکے سعودی عرب جیسے ٹاؤٹ ملک اس حقیقت کو مسترد نہیں کر سکتے کہ موجودہ انتہا پسندی کو ان کے سرمائے سے خلق کیا گیا ہے آج سامراجی طاقتیں دہشگردی کے تیر سے دو شکار کر رہی ہیں وہ ایک طرف اسلام کو بدنام کر رہی ہیں دوسری طرف دہشتگردی کے مقابلے کے نام پر جب چاہتی ہیں کسی ملک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بناتی ہیں مسلمان ملک مالی پر حالیہ حملوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔


خبر کا کوڈ: 236182

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/236182/مالی-اور-افریقہ-پر-یلغار-کیوں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org