0
Sunday 3 Feb 2013 15:36

دہشتگردی ۔ ۔ ۔ قوم بیداری کا مظاہرہ کرے

دہشتگردی ۔ ۔ ۔ قوم بیداری کا مظاہرہ کرے
تحریر: تصور حسین شہزاد

ملک میں دہشت گردی اور کراچی کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ میں شدید اضافے نے شہریوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے انتباہ کے اگلے ہی دن کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا اور 3 علماء سمیت 21 افراد قتل کر دیئے گئے، جس کے فوری بعد سندھ حکومت حرکت میں آ گئی اور کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور حساس علاقوں میں کارروائی کیلئے اندرون سندھ سے اضافی پولیس فورس کراچی میں طلب کر لی گئی۔ اس اضافی نفری کو شہر کے شورش زدہ علاقوں میں تعینات کر دیا گیا ہے اور انہیں دہشت گردوں، قاتلوں، بھتہ خوروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کرنے کا ہدف سونپ دیا گیا ہے۔

ہنگو میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکلنے والے نمازیوں کو نشانہ بنا دیا گیا۔ اس دھماکے میں اب تک 29 نمازی شہید ہو چکے ہیں جبکہ شیعہ رہنماؤں کا اس واقعہ پر کہنا ہے کہ کراچی میں علماء اور ہنگو میں مسجد کے باہر دھماکا کرنے والا ایک ہی گروہ ہے۔ اس گروہ کی تانے بانے کہاں ملتے ہیں اس سے پوری قوم واقف ہے جبکہ ہمارے وزیر داخلہ کے بیانات سے تو یوں لگتا ہے کہ رحمن ملک صاحب ان کے ہم نوالہ دوست ہیں جو ہر بات سے آگاہ ہیں۔ کوئٹہ اور کراچی میں لگی آگ کے شعلے ہنگو بھی پہنچ گئے ہیں اور اس بار بھی ان دہشت گردوں کا نشانہ مخصوص محب وطن فرقہ ہی ہے۔

مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والے نمازیوں کو نشانہ بنانا ایک اندوہناک سانحہ ہے جس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے متوقع حادثات کا علم ہونے کے باوجود ان کا سدباب کرنے میں حکومت مکمل طور پر فیل نظر آتی ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ایک دن پہلے وزیر داخلہ فروری میں خونریزی کا عمل تیز تر ہونے اور گھمسان کارن پڑنے کی تشویشناک خبر میڈیا کو دیتے ہوئے ایجنسیوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنی تمام تر توجہ سکیورٹی معاملات پر دیں کہ دشمن کی طرف سے ملک میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص فیصلہ کن کارروائی کا خدشہ ہے۔

ابھی اس بیان کی روشنائی مدہم نہیں پڑتی کہ کراچی میں علماء کو شہر کی معروف ترین شاہراہ پر سرعام قتل کر دیا جاتا ہے جس کا بدلہ لینے کا اعلان طالبان کی طرف سے سامنے آتا ہے اور یوں یہ سوال ہر زبان پر تشنۂ جواب بن کر تلملاتا ہے کہ جب وزیر داخلہ کو تمام حساس نوعیت کی خبریں مصدقہ طور پر دی جاتی ہیں تو پھر وہ اپنی ماتحت ایجنسیوں کو خبردار کرنے پر ہی کیوں اکتفا کرتے ہیں، انہیں دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے کارگر وار کرنے کا حکم کیوں نہیں دیتے؟ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں کراچی کے مخدوش حالات پر احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کیا اور وزیر داخلہ کے بیان کو بھی ہدف تنقید بنا کر ان سے اس سلسلے میں وضاحت طلب کی ہے۔

ایم کیو ایم کا یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ پانچ سال حکومت کرنے کے بعد اب حکمرانوں کو کراچی ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بیان مضحکہ خیز حد تک خطرناک ہے وزیر داخلہ کو اس قسم کے بیانات سے احتراز کرتے ہوئے محتاط طرزعمل اختیار کرنا چاہیئے۔ ادھر جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سینیٹر حاجی غلام علی نے نکتہ اعتراض پر کراچی میں علماء کے افسوسناک قتل پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے تمام جماعتوں سے اجلاس کے بائیکاٹ کی اپیل کی تو مسلم لیگ (ن)، (ق)، اے این پی اور فاٹا کے اراکین نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

دریں اثناء مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نے کراچی میں علماء کے سانحۂ قتل پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومت کی نااہلی قرار دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی کے حالات پر حکومت نے کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی، مرکز اور صوبے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مسلسل پانچ سال تک اتحاد بنا کر حکومت کرتے رہنا، جس میں اے این پی بھی بطور ایک اتحادی کے موجود ہے اور یہ تینوں ہی شہر کراچی میں سیاسی اثر و رسوخ رکھنے کی دعویدار ہیں اور اسی شہر کی ایوان نمائندگان میں نمائندگی بھی کرتی ہیں مگر ان تینوں جماعتوں نے شاید اپنے شہر کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے اپنے مفادات پر ہی توجہ مرکوز کئے رکھی۔

اسی لئے عدالت عظمیٰ کو کراچی کے حالات کنٹرول سے باہر ہوتے دیکھ کر ازخود نوٹس کے تحت کارروائی کرنا پڑی جس کے بعد عدلیہ نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں واضح طور پر فیصلہ دیا کہ کراچی کے حالات خراب کرنے کی ذمہ داری تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز پر عائد ہوتی ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں میں موجود عسکری ونگز شہر کا امن و امان تباہ کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ آزاد عدلیہ کے اس واضح فیصلے کے باوجود سیاسی جماعتوں نے اپنی صفوں میں موجود شورش پیدا کرنے والے منفی عناصر کا خاتمہ نہیں کیا جس کے تناظر میں مبصرین کی یہ رائے سامنے آئی کہ دراصل سیاسی جماعتوں کی آشیرباد سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث غنڈہ عناصر اتنی قوت پکڑ چکے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر سیاسی قیادت کے زیراثر بھی نہیں اور ان کی خود سری نے پورے شہر کو اس طریقے سے یرغمال بنا لیا ہے کہ اب انہیں قابو کرنے کا آسان حل تلاش کرنا ممکن العمل نہیں رہا۔

بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے پروردہ وہ عناصر طاقتور ہونے کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکے ہیں اور غیرملکی پاکستان دشمن ایجنٹوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزارت داخلہ اور تمام خفیہ ایجنسیوں کو کراچی میں درپردہ سازشی عناصر کی کارفرمائی کا مکمل ادراک ہے مگر نجانے کیوں ہماری طاقتور ایجنسیاں بوجوہ ان عناصر کی مکمل سرکوبی کرنے سے احتراز برت رہی ہیں۔ اکثر تجزیہ نگار اس مؤقف کا اعادہ کرتے نظر آتے ہیں کہ گوادر پورٹ چین کو دیئے جانے کے ردعمل میں کچھ غیرملکی طاقتیں پاکستان سے ناراض ہیں اس پر مستزاد پاک ایران گیس پائپ لائن سمجھوتہ بھی ان طاقتوں کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے۔

پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا جن طاقتوں کی آنکھوں میں روزاول سے کھٹک رہا ہے۔ انہوں نے ریمنڈ ڈیوس جیسے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا جو منصوبہ تیار کیا ہوا ہے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے مبینہ اقدامات کے اشارے کافی عرصہ سے مل رہے تھے جن کے تناظر میں بلوچستان کی بدترین صورتحال کو بھی دیکھا جاتا رہا ہے اگرچہ ان سب سازشوں کے تانے بانے فوجی حکمرانوں کے دور میں بنے گئے تھے مگر سیاسی حکومت کے دور میں بھی ان کا پتہ چلنے کے باوجود کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہ کرنے کے سبب پاکستان آج ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑا ہے جہاں بقول شخصے اسے 71ء جیسے حالات کا سامنا ہے اس زمانے میں بحری بیڑے کی آمد کی نوید سنانے والوں نے جس طرح پاکستانی حکام کو ’’ٹرک کی بتی‘‘ کے پیچھے لگا کر پاکستان کو دو لخت کروانے کی مذموم حرکت کا ارتکاب کیا ویسا ہی جال آج بھی پھیلایا جا چکا ہے۔

لسانی بنیادوں پر عصبیت پھیلانے کی چال کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت کے بیج اس انداز میں بوئے گئے کہ آج یہ ایک تناور پیڑ کی شکل اختیار کئے نظر آتی ہے اگرچہ علمائے کرام کے باہمی میل جول اور ہم آہنگی نیز دانشمندانہ طرزعمل کی وجہ سے مسلک کی بنیاد پر فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی کوششیں ناکام کی جاتی رہی ہیں تاہم تازہ ترین واقعات رونما ہونے کے بعد اس بات کا احتمال ہے کہ شہید ہونے والوں کیلئے نکالے جانیوالے احتجاجی جلوسوں یا ریلیوں میں غیرملکی ایجنٹ گھس کر اپنے مکروہ دھندے سے شہر کو آتش نمرود میں جھونکنے میں کامیاب نہ ہو جائیں، صوبائی حکومت کے اقدامات ماضی کے تناظر میں دیکھے جائیں تو خانہ پری کے اور کچھ نہیں۔

صوبائی حکومت کی گذشتہ پانچ سالہ کارکردگی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف کے اس بیان کی تصدیق کرتی ہے کہ قائم علی شاہ کی حکومت نے کراچی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ دہشت گردوں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں روز افزوں اضافے نے پاکستان کی معاشی شہ رگ پر انگوٹھا رکھ دیا ہے۔ حکمران خواب غفلت میں ہیں، انہوں نے اپنی حکومت کے پانچ سالہ دور میں کراچی کے حالات سدھارنے کے بجائے یہاں اپنے اپنے علاقوں میں اپنی اجارہ داریاں قائم کرنے کی کوشش میں سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

نوبت بہ ایںجا رسید کہ خود اس حکومت کا وزیر داخلہ، پورے ملک میں امن و امان برقرار رکھنا جس کے فرائض میں شامل ہے آج نہایت بے چارگی سے بےبسی کا اظہار کرتے ہوئے کراچی کو ہاتھ سے نکل جانے کی روح فرسا خبر سنا رہا ہے۔ عوام سراپا سوال بنے وزیر داخلہ سے استفسار کر رہے ہیں کہ جناب پانچ سالہ دور میں آپ نے اس شہر کے تباہ شدہ امن کو بحال کرنے میں جس مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اس پر آپ کو کیا سزا دی جانی چاہیئے۔ اپنی ناکامیوں کی بجائے اگر وزیر داخلہ اپنی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے منصب وزارت سے مستعفی ہو جاتے تو مناسب ہوتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کو اپنی کابینہ کے سب سے طاقتور رکن کی نااہلی اور غیرذمہ دارانہ بیان بازی سے عوام میں بددلی اور مایوسی پھیلانے کا نوٹس لے کر قوم کو بتانا چاہیئے کہ کون کون سے آستین کے سانپوں نے پیارے وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے پاکستان دشمن قوتوں کی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کیا ہے۔ عام انتخابات سے قبل قوم کو ملک کے مستقبل سے مایوس کرنا بھی ایک سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہے جس کا اہل الرائے کو فوری نوٹس لے کر اس کے ازالے کے لئے عوامی بیداری کی مہم چلانی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 236846
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش