0
Thursday 15 Apr 2010 11:37

امریکیو؛ایران سے ٹکرا کے بھی دیکھ لو تمہارا انجام کیسا ہے؟

امریکیو؛ایران سے ٹکرا کے بھی دیکھ لو تمہارا انجام کیسا ہے؟
آر اے سید 
امن عالم کے لئے دنیا کے سب سے خطرناک ملک امریکہ نے ایٹمی ہتھیاروں کی نابودی کے نعرے کے ساتھ واشنگٹن میں ایٹمی سیکورٹی کانفرنس منعقد کر کے عالمی رائے عامہ کو یہ دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کی کہ گویا وہ ایٹمی طاقت کی حیثیت سے ایک ذمہ دار ملک ہے اور اس نے اپنے لئے یہ سرٹیفکٹ حاصل کرنے لئے دنیا کے سینتالیس ملکوں کے اعلی حکام کی شرکت سے ایک کانفرنس بھی کر ڈالی۔جس کے لئے اس نے بڑے پیمانے پرپروپیگنڈہ بھی کیا اور اس کانفرنس سے پہلے روسی صدر کے ساتھ پراگ میں ایٹمی ترک اسلحہ کے ایک معاہدے پر بھی دستخط کئے،جس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں اس معاہدے میں ایٹمی ترک اسلحہ کی بات کی گئی،وہيں اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ہی ممالک  اپنے اٹمی اسلحوں کی جدید کاری کریں گے۔
واشنگٹن سیکورٹی اجلاس کا ایجنڈا یہ طے کیا گیا کہ ایٹمی ہتھیاروں اور مادوں کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں میں انھیں جانے سے روکا جائے۔امریکہ نے ایک ایسے وقت ایٹمی ہتھیاروں تک دہشت گردوں کی رسائی کو روکنے کی بات کی ہے،جب خود اس کے پاس سب سے بڑا ایٹمی اسلحوں کا گوادم ہے اور دنیا کا وہ واحد ملک ہے،جس نے انسانی تاریخ میں عام شہریوں پر ایٹم بمب برسایا ہے۔اس حققیت کے پیش نظر کیا اس میں کسی کو شک ہو سکتا ہے کہ دنیا کی سلامتی کو اگر دہشت گردوں سے خطرہ لاحق ہے تو اس سے کہيں زیادہ امریکہ سے امن عالم کوخطرہ لاحق ہے۔
 امریکی صدر باراک اوبامہ نے گذشتہ دنوں امریکہ کی نئی اسٹریٹجی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر ایران کے خلاف بے بنیاد دعوؤں کی تکرار کی اور ایران پر ایٹمی حملے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے امریکی صدر باراک اوبامہ کے اس طرح کے بیان کو ان کی سیاسی ناپختگی کی علامت قرار دیا اور کہا کہ وہ اس طرح کا بیان دے کر آگ سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہيں۔
 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر احمدی نژاد نے اپنے ردعمل میں کہا کہ باراک اوبامہ کے بڑے بڑے بھی ایران کا کچھ نہيں بگاڑ سکے تو وہ تو ابھی اس میدان کے نئے کھلاڑی ہیں۔مبصرین کا کہنا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت امریکہ کو اسٹریٹجک مشکلات کا سامنا ہے جسے وہ پوشیدہ نہيں رکھ سکا ہے۔جب امریکی صدر باراک اوبامہ یہ کہتے ہيں کہ امریکہ کے ایٹمی حملے سے سبھی محفوظ ہيں سوائے ایران کے۔تو اس سے درحقیقت وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہيں کہ امریکہ کو سخت اسٹریٹجک مشکلات کا سامنا ہے اور یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو اب طویل عرصے سے ایران کے خلاف اپنی محاذ آرائی میں شکست قریب نظر آ رہی ہے۔اسی لئے وہ ایران کے خلاف اپنی اسٹریٹجی میں تبدیلی کو ناگزیر سمجھنے لگے ہيں۔ 
اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکہ کی دشمنی گذشتہ اکتیس برسوں سے جاری ہے اور خاص طور پر پچھلے چھ سات برسوں سے امریکہ نے اس بات کو باور کرانے کے لئے سر توڑ کوششیں کر ڈالیں ہیں کہ ایران کو دنیا اور خاص طور پر صنعتی ملکوں کے لئے ایک خطرہ بنا کر پیش کرے،تاکہ صنعتی ممالک ایران کے حوالے سے امریکہ کا ساتھ دیں۔لیکن چند صنعتی ملکوں کو چھوڑ کر دنیا کے سبھی ممالک اس بات سے بخوبی آگاہ ہيں کہ امریکہ اپنی اس طرح کی پالیسی کو جاری رکھ کر پوری دنیا پر اپنی من مانی پالیسی کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ 
آج پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ باراک اوبامہ کے پیشرو امریکہ کے سابق صدر جارج بش نے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد ایک اور صلیبی جنگ کی بات کہہ ڈالی تھی اور صراحت کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا تھا کہ جو ہمارے ساتھ نہیں ہے،وہ ہمارا مخالف ہے۔جبکہ دنیا کے اکثر ممالک نے امریکہ کی یہ بات تسلیم نہيں کی،حتی آج فرانس جیسا ملک بھی جو برطانیہ کے بعد امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے،امریکہ کے اس نظریہ کو ماننے کو تیار نہيں ہے۔آج فرانس ميں بہت سے امریکی جریدوں کے داخلے پر پابندی ہے اور فرانس میں امریکہ کی بیشتر سائٹیں فلٹر ہوتی ہيں۔ گذشتہ چھ سات برسوں کے دوران امریکہ نے یورپ سے لے کر ایران کے عرب ہمسایہ ممالک اور روس و چین تک کو ایران کے خلاف اکسانے کی بھرپور کوشش کیں،مگر ہر میدان میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔آج امریکی حکام  جھنجھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہيں۔
یہ توقضیہ کا ایک رخ ہے قضیہ کا دوسرا رخ خود اسلامی جمہوریہ ایران ہے،امریکی صدر باراک اوبامامہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کسی بھی ملک کے خلاف ایٹم بم استعمال نہيں کیا جائے گا،مگر ایران اس سے مستثنٰی ہے امریکی صدر باراک اوبامہ اگر یہ کہتے کہ افغانستان اور عراق اسے مستثنٰی ہيں تو شاید کسی کو اس بات پر یقین بھی آ جاتا،امریکہ نے عراق اور افغانستان پرقبضہ کر لیا۔لیکن ایران کے خلاف کسی بھی طرح کی جارحانہ حماقت سے اب تک وہ گھبراتا رہا ہے،اسی لئے ابھی سے یہ بات سب کو معلوم ہے کہ باراک اوبامہ کا یہ بچگانہ بیان محض ایک نفسیاتی حربہ ہے جو امریکی حکام گذشتہ تیس برسوں سے آزمارہے ہيں۔ 
امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنی ناپختگی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ انتہائی دھمکی دے تو ڈالی مگر آج امریکی حکام اس بات کو لے کر پریشان ہيں کہ کہيں دنیا کے صنعتی ممالک امریکہ سے اس بیان پر جواب طلب نہ کر لیں کہ ان کی اس دھمکی سے وہ ایران جیسے اسٹریٹجک اور طاقتور ملک سے پوری دنیا کے امن کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے جیسا کہ بعض ملکوں کی طرف سے اس طرح کے بیانات بھی آنا شروع ہو گئے ہيں۔یہاں تک کہ خود امریکی معاشرے میں بھی صدر باراک اوبامہ کے بیانات پر شدید ناراضگی اور برہمی پائی جا رہی ہے۔
واشنگٹن ميں عالمی سلامتی کے مرکز کے چئرمین جناتھن گرانوف کا کہنا ہے کہ ایران کو تو چاہئے کہ وہ باراک ا وبامہ کے اس طرح کے بیان کا خیرمقدم کرے۔کیونکہ اب ایران اسی بیان کو بہانہ بنا کر عالمی سطح پر اپنی سرگرم سفارتکاری کے ذریعہ امریکہ پر بھرپور دباؤ ڈالے اور اپنے اوپر امریکی دباؤ کا راستہ مسدود کر دے۔
البتہ اوبامہ کے اس بیان کے جواب میں ایران نے بھی بیان کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ہمیں ایٹمی حملے کی دھمکی دے کر مرعوب کرنے کی کوشش نہ کرے،ایران نے کہا ہے کہ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایران پر حملہ کر کے علاقے ميں اپنی فوجی شکستوں کا ازالہ کر سکتا ہے،تو ہم بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہيں۔ایران نے کہا ہے کہ اگر تم نے ایران کے آس پاس کے ملکوں میں موجود جہاں تک ایران کا اسلحہ آسانی سے مار کر سکتا ہے،دسیوں ہزار فوجیوں کی جان کی حفاظت کا انتظام کر لیا ہے،تو بسم اللہ میدان میں آجاؤ اور اپنی قسمت کا امتحان کر لو۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے اسی ٹھوس ردعمل اور جواب نے امریکی صدر باراک اوبامہ کے ہوش اڑا دئے،یہی وجہ تھی کہ امریکہ میں جان بولٹن اور نیوٹ گینگریج جیسے سخت گیر موقف رکھنے والے لیڈروں نے بھی باراک اوبامہ کی اس بچگانہ حرکت اور بیان پر ان کی سرزنش کر ڈالی۔اوبامہ اور ديگر امریکی حکام کو یہ بات بہر حال ہر وقت اپنے دھیان میں رکھنی چاہئے کہ آگ سے کھیلنے والا ہرحال میں بھسم ہو جاتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 23728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش