0
Friday 16 Apr 2010 13:06

باراک اوباما کا شکریہ

باراک اوباما کا شکریہ
 آر اے سید
اوبامہ کئی بار صیہونی حکومت کی حمایت کا اعلان کر چکے ہيں۔اس سلسلے میں کچہ دنوں پہلے انھوں نےکہا کہ میں بارہا کہہ چکا ہوں اور پھر تکرار کر رہا ہوں کہ اسرائیل کی سیکورٹی،امریکی مفادات کے لئے ایک بنیادی موضوع ہے۔مشرق وسطٰی اور وسطی ایشیا ميں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل ڈیویڈ پٹراؤس نے بھی ایک بیان میں تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اسرائیل امریکہ کا اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہے اور رہے گا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے واشنگٹن میں ایٹمی سیکوریٹی اجلاس کے اختتام پر تمام ملکوں کو این پی ٹی کا ممبر بننے کا کہا ہے،لیکن اسرائیل کے بارے میں جب ان سے کہا گيا کہ کیا امریکی صدر اسرائیل کو بھی مجبور کریں گے کہ وہ این پی ٹی کا رکن بنے تو اس سوال پر انہوں نے کسی طرح کا تبصرہ کرنے سے اجتناب کیا۔امریکی حکام کی جانب سے صیہونی حکومت کی مسلسل حمایت فلسطینیوں پر مظالم جاری رکھنے کے لئے ہری جھنڈی ہے۔
یہ بات سب پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ امریکہ میں صیہونی لابی اتنی مضبوط اور بااثر ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس میں مقیم امریکی صدر کو جسطرح چاہتی ہے لے جاتی ہے۔امریکی صدر نے گزشتہ دنوں جب ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا تو اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے باراک اوباما پر خوبصورت طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی صدر کو جو کاغذ دے دیا جاتا ہے وہ بغیر سوچے سمجھے اسے پڑھ دیتے ہیں۔ان کا اشارہ یقینا" امریکہ میں فعال صیہونی کی طرف تھا۔
ایران کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی امریکی حکام کی دھمکی کے بارے میں ایک امریکی دانشور جنتھن گرانوف نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایران کے خلاف جو ایٹمی دھمکی دی ہے اس پر ایران کو اوباما کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ امریکی صدر نے ایران کو ایسا بہانہ دے دیا ہے جس کو لیکر وہ سفارتی میدان میں امریکہ کے خلاف وسیع پروپیگنڈا کرسکتا ہے۔امریکی پالیسیوں کی منافقت اور دہراپن اب اتنا آشکار ہو چکا ہے کہ امریکہ کے حامی حلقے بھی امریکہ پر تنقید کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔امریکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف عالمی سطح پر انتہائي زہریلا مگر بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہا ہے حالانکہ ایران این پی ٹی کا ممبر بھی ہے اور آئي اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون بھی کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے حوالے سے اسکی پالیسی مکمل طور پر جانبدارانہ اور اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی مکمل حمایت پر استوار ہے۔واشنگٹن اسرائيل کے ایٹمی پروگرام پر نگرانی کے عالمی مطالبے تک کی حمایت نہیں کرتا۔لیکن ایران چونکہ امریکہ کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کی عالمی سطح پر مخالفت کرتا ہے،لہذا اس کی ایٹمی تحقیقات اور ایٹمی پروگرام کو معلق کرنے کے لئے دباؤ ڈالتا ہے۔
امریکہ اور اسکے حواریوں نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی اور اسے سیاسی تنہائي سے نکالنے کے لئے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا ہے۔امریکہ اور اسکے حواریوں کی مسلسل حمایت ہی ہے جس نے غاصب صیہونی حکومت کو اسقدر گستاخ کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف عالمی اداروں کے کسی فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ کھلے عام انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔دنیا بھر میں اسرائیل کے فوجی ایٹمی ٹیکنالوجی کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں لیکن اسرائیلی وزير جنگ ایہود باراک نے حال ہی میں یہ کہا ہے کہ میں اپنے دوستوں اور اتحادیوں کو واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ اسرائیل پر این پی ٹی معاہدے پر دستخط کے حوالے سے کسی قسم کا عالمی دباؤ نہیں ہے۔اسرائيلی وزیر جنگ نے اس بیان کے اگلے حصّے میں انتہائي ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل نے کسی ملک کو تباہ و برباد نہیں کیا ہے بلکہ یہ ایران ہے جو یہ کام کر رہا ہے۔اسرائیلی وزير جنگ کا یہ بیان اور اسرائیل کی فوجی ایٹمی پالیسی کے بارے میں امریکی صدر باراک اوباما کی خاموشی دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
امریکہ اور بعض یورپی ممالک جب تک عالمی امن بالخصوص مشرق وسطٰی کے لئے سب سے بڑے خطرے اسرائیل کی اسی طرح حمایت و پشتیبانی کرتے رہیں گے،علاقے کے ملکوں کو غاصب صیہونی سے مسلسل خطرات لاحق رہیں گے اور عراق کے ایٹمی پروگرام پر حملے اور غزہ اور لبنان پر صیہونی جارحیتوں کا تکرار ہوتا رہے گا۔امریکی حکام کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت پر تاکید ایسے عالم میں انجام پا رہی ہے کہ رائے عامہ حتٰی اقوام متحدہ کے حکام نے غاصب صیہونی حکومت کےساتھ سختی سے نمٹنے اور مغربی حکومتوں کی جانب سے اس کی حمایت کا سلسلہ بند کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

خبر کا کوڈ : 23771
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش