1
0
Saturday 9 Feb 2013 00:28

قاضی صاحب کے بعد عاملہ کا پہلا اجلاس

قاضی صاحب کے بعد عاملہ کا پہلا اجلاس
تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
قاضی حسین احمد کا سانحہ ارتحال امت مسلمہ کے لیے بالعموم اور پاکستانیوں کے لیے بالخصوص ایک عظیم اور ناقابل تلافی نقصان تھا، جس کا ایک مظہر ظہور کرچکا ہے۔ قاضی صاحب جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد ملی یکجہتی کونسل کے 4 جون 2012ء کے سربراہی اجلاس میں اتفاق رائے سے صدر منتخب ہوئے۔ ملی یکجہتی کونسل نے قاضی صاحب کی سربراہی میں اتحاد و وحدت کا یہ سفر نہایت خوش اسلوبی سے طے کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کے وقت سے قاضی صاحب کی رحلت تک یہ اتحاد روز افزوں ترقی کرتا رہا۔ 11،12 نومبر 2012ء کو ’’عالمی اتحاد امت‘‘ کانفرنس کے بعد تو اس اتحاد کی خبریں ملکی سرحدوں سے نکل کر چہار سو پھیل گئیں۔ سابق افغان وزیر اعظم نے 12 نومبر کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی زندگی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ پاکستان کے تمام مسالک کے قائدین ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہیں اور اتحاد و وحدت کی بات کر رہے ہیں۔
 
اتحاد امت کانفرنس میں متعدد غیر ملکی مندوبین کی شرکت اور عالم اسلام کی سر برآوردہ شخصیات کے پیغامات اس بات کا ثبوت تھے کہ قاضی صاحب ملک کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں بیداری، اسلامی تحریک اور نفاذ اسلام کا استعارہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی درخواست پر دنیا بھر سے مسلمان نمائندے پاکستان آئے اور عالمی اتحاد امت کانفرنس کی رونقوں کو دوبالا کیا۔ قاضی صاحب کی رحلت کے موقع پر میں نے عالمی قائدین کے تاثرات کی جمع آوری کا کام شروع کیا تو مجھے نیل کے ساحل سے لے کر تا با خاک کاشغر ایک ہی صدا سنائی دی کہ امت ایک عظیم مجاہد، اتحاد امت کے داعی اور ملت کے خادم سے محروم ہوگئی۔
 
ان اہم قائدین میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان، ادارہ تقریب بین المذاہب کے سابق سربراہ آیت اللہ تسخیری، رہبر انقلاب اسلامی ایران کے خصوصی مشیر علی اکبر ولایتی، اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام مہدی عاکف، تیونس کی برسر اقتدار جماعت کے سربراہ راشد الغنوشی، مرشد عام اخوان المسلمون ڈاکٹر محمد بدیع، حماس کے سربراہ خالد مشعل، افغانستان سے گلبدین حکمت یار، اخوان المسلمین لیبیا، اخوان المسلمین اردن، حزب اسلامی عراق، اتحاد علمائے لبنان، عالمی یونین برائے مسلم اسکالرز کے سربراہ علامہ یوسف قرضاوی، فلسطین کے صدر محمود عباس، سوڈان کے صدر محمد حسن البشیر، نائب صدر علی عثمان، تقریب بین المذاہب کے سربراہ آیت اللہ محسن الاراکی، مالدیپ کے وزیر مذہبی امور محمد دیدی، اخوان المسلمون اردن کے سربراہ ڈاکٹر صمام سعید، امیر جماعت اسلامی ہند مولانا جلال الدین عمری، نائب امیر مولانا محمد جعفر، جمعیت الاصلاح کویت کے سربراہ حمودالروی، جماعت اسلامی سری لنکا کے امیر رشید حج الاکبر، یونین برائے یورپی مسلم تنظیمات شکیب بن مخلوف، یورپی مسلم کونسل کے صدر میاں عبدالحق، سیکرٹری جنرل میاں وقاص وحید، تحریک نہضت تاجکستان کے سربراہ ایم این اے محی الدین کبیری، ایشئن فیڈریشن آف مسلم یوتھ کے سربراہ واتو ابو بکر چک، ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے سربراہ ڈاکٹر صالح الوھیبی، موریطانیہ کے مشہور فقیہ مفتی اعظم علامہ الحسن الدادو کے علاوہ مصر سے اسلامی تحریکوں کے سربراہان، سیاسی زعماء اور علمائے کرام قابل ذکر ہیں۔
 
آپ کے سانحہ ارتحال کے موقع پر دنیا بھر سے مسلم قائدین کے موصول ہونے والے پیغامات کو دیکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر اتحاد و وحدت کے امین کے طور پر گردانے جاتے تھے اور ہم عصر قائدین آپ کو امت کی سربلندی کا حقیقی خواہاں سمجھتے تھے۔ کوئی کہتا ہے مدبر مجاہد چلا گیا، کوئی کہتا ہے ہم بے پدر ہوگئے، کوئی کہتا ہے قاضی صاحب پاکستان کے ہی نہیں مسلم امہ کے قائد تھے۔ ایران کے سابق وزیر خارجہ اور آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر خاص علی اکبر ولایتی نے قاضی صاحب کی رحلت کے موقع پر کہا: قاضی حسین احمد امت مسلمہ کے اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے۔ انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے درمیان غلط فہمیوں اور رنجشوں کو دور کرنے کے لیے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ ایرانی قوم قاضی حسین احمد کو اپنے رہبروں میں شمار کرتی ہے۔ اخوان المسلمین کے سابق مرشد عام نے کہا: قاضی حسین احمد کے انتقال سے عالم اسلام کے اتحاد کی کوششوں کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ 

عموماً اس قسم کے کلمات کسی بھی شخص کی رحلت کے موقع پر رسمی طور پر ادا کیے جاتے ہیں، تاکہ بات ریکارڈ میں رہے، تاہم کچھ عرصہ قاضی صاحب کے قریب رہنے اور ان کے خیالات کو انتہائی باریک بینی سے پرکھنے کے بعد میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ فی الحقیقت ایسا ہی تھا۔ قاضی حسین احمد واقعاً اتحاد امت کے سب سے بڑے داعی تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے درمیان غلط فہمیوں اور رنجشوں کو دور کرنے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں، نیز یہ کہ ان کے انتقال سے اتحاد امت کی کوششوں کو بڑا دھچکا لگا۔ اس بات کا احساس مجھے 7 فروری 2013ء کو ملی یکجہتی کونسل کے عاملہ کے اجلاس میں انتہائی شدت سے ہوا۔

اجلاس کے پہلے سیشن میں عاملہ کے سبھی اراکین، جن میں ملی یکجہتی کونسل میں شامل بڑی جماعتوں کے نمائندے اور سربراہان شامل تھے، نے قاضی صاحب کو اپنے اپنے الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور عزم ظاہر کیا کہ ہم قاضی حسین احمد کے مشن کو آگے بڑھانے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ پہلے سیشن کے اختتام پر نئے میر کارواں کے تقرر کا مرحلہ درپیش ہوا، حاضرین کی جانب سے نام پیش ہونے شروع ہوئے، تاہم یہ صدا بھی سننے کو ملی کہ قاضی صاحب کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ پیش کردہ ناموں پر اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب نئے میر کارواں کا انتخاب آئندہ کے سربراہی اجلاس پر موخر کر دیا گیا۔ عاملہ کے اجلاس میں ظاہر ہونے والی نااتفاقی کے کئی اسباب ہیں، جن میں ایک اہم سبب تمام جماعتوں کے قائدین کا موجود نہ ہونا تھا، جبکہ دوسرا اہم سبب اس اتحاد میں شامل جماعتوں کی اتحاد امت کے حوالے سے سنجیدگی اور دلچسپی کا درجہ ہے۔
 
میں نے ملی یکجہتی کونسل کے اکثر اجلاسوں میں محسوس کیا کہ بین المسالک اتحاد کے حوالے سے ہر شخص، جماعت اور گروہ کا اپنا نظریہ اور لائحہ عمل ہے۔ اسی طرح ملی یکجہتی کونسل سے وابستگی کے حوالے سے بھی مجھے مختلف قسم کی آراء سننے کو ملیں۔ کوئی شخص اس اتحاد سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا تو کوئی اپنا موقف نافذ کرنے کے درپے رہا۔ ان تمام رنگا رنگیوں کو قاضی صاحب نہایت احسن طریقے سے یک رنگ کر دیتے اور ان لوگوں کو کسی ایک ارفع مقصد کے پیچھے لگا دیتے۔
 
میں نے قاضی صاحب سے ایک انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ قاضی صاحب آپ کی نظر میں کیا ایک ہی جماعت کے متعدد مذہبی اتحادوں میں شمولیت کے سبب اس جماعت کی فعالیت، کارکردگی اور ترجیحات پر اثر نہیں پڑتا؟ تو قاضی صاحب نے کہا کہ اگر جماعتیں مقاصد میں ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوں تو متعدد اتحادوں میں شمولیت کے حوالے سے کوئی حرج نہیں۔ جہاں تک فعالیت اور کارکردگی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے میری رائے ہے کہ اللہ جس کو جتنی محنت کی توفیق دے، وہ اتنی ہی محنت کرتا ہے۔ کوئی ایک سیر وزن اٹھا سکتا ہے، کوئی من وزن اٹھا سکتا ہے، اور کوئی ایسا ہے جو من اٹھا سکتا ہے سیر اٹھاتا ہے۔ ہم ہر قسم کے تعاون کو اھلاً و سھلاً کہتے ہیں۔ جو ہمارے ساتھ صرف زبانی تعاون کرتا ہے اور دلی ہمدردی رکھتا ہے ہم اس کے بھی ممنون ہیں اور وہ جو دل و جان سے ہمارے ساتھ ہے اور کام کر رہا ہے، ایسے افراد کے سبب ہی یہ تنظیم قائم ہے اور قائم رہے گی انشاءاللہ۔ 

قاضی صاحب جانتے تھے کہ اتحاد امت کی خواہش کے حوالے سے ملی یکجہتی کونسل میں شامل تمام جماعتوں کی سنجیدگی میں یکسانیت نہیں ہے۔ وہ اپنی گفتگو کے دوران حاضرین کو اکثر باور کروایا کرتے تھے کہ ہمارا مقصد انتہائی ارفع ہے۔ ہم نے بین المسالک یکجہتی و ہم آہنگی کے ہدف کے حصول کے بعد معاشرے میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش کرنا ہے۔ ہمیں عالم اسلام کے متعلق سوچنا ہے، ہمیں امت کی رہبری کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ قاضی صاحب ملی یکجہتی کونسل میں شامل تمام جماعتوں کو اپنے ارفع مقصد کی اہمیت باور کروا سکے یا نہیں، مجھے تو یہ معلوم ہے کہ اتحاد امت کا یہ سفر ابھی شروع بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا میر کارواں چلا گیا۔
 
ہمارا ایمان ہے کہ خدا کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ قاضی صاحب جیسی فکری گہرائی اور عزم و ارادے کا حامل انسان ڈھونڈ نکالنا، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اگر ہم دینی جماعتوں کے قائدین اور راہنماؤں کی جانب نظر دوڑائیں تو یقیناً ان میں کئی اہل افراد موجود ہیں، تاہم کیا یہ افراد اپنی سیاسی و جماعتی مصروفیات و مفادات کو قاضی صاحب کے مشن اتحاد و وحدت پر قربان کرسکتے ہیں؟ کیا جماعتی و سیاسی و ابستگیوں کی موجودگی میں ان افراد پر قاضی صاحب کی مانند اعتماد کیا جائے گا؟ کیا نیا قائد قاضی صاحب کی مانند ملی یکجہتی کونسل کو سیاسی و گروہی اختلافات سے پاک رکھ سکے گا؟ یہ اور اس قسم کے سینکڑوں سوالات اذہان میں موجود ہیں، جو جوابات کے طالب ہیں۔
 
صورتحال نہایت گھمبیر ہے اور اس خلا کو حقیقی معنوں میں پر کرنا مشکل ہے، تاہم امید کی کرن اب بھی باقی ہے۔ امید کی یہ کرن قاضی حسین احمد کے وہ حقیقی رفقاء اور وارث ہیں، جنھوں نے اتحاد و وحدت کے اس سفر میں لمحہ لمحہ قاضی صاحب کا ساتھ دیا۔ جن کا حوالہ دیتے ہوئے قاضی صاحب نے کہا تھا ’’وہ افراد جو دل و جان سے ہمارے ساتھ ہیں اور کام کر رہے ہیں، کے سبب ہی یہ تنظیم قائم ہے اور قائم رہے گی انشاءاللہ۔ یہ بات یقینی ہے کہ نظریہ وحدت و ہم آہنگی جو امت کے مسائل کے حل کی کلید ہے، ضرور کامیاب ہوگا اور یہ ملت ایک شیرازہ میں پروئی جائے گی۔ قاضی صاحب نے درست کہا ’’تنظیم قائم رہے گی۔‘‘ تنظیم کا قائم رہنا بدیہی ہے، کیونکہ جب تک فکر زندہ ہے نظم باقی ہے اور اس کے ظہور کی شکلیں جنم لیتی رہیں گی۔ بقول شاعر
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
خبر کا کوڈ : 238216
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

MashaALLAH. bHAI LAKIN ZIAYADA KHUSHFEHMI BHI ACHI NAHIN
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش