0
Sunday 18 Apr 2010 11:33

تہران اور واشنگٹن کانفرنس میں فرق

تہران اور واشنگٹن کانفرنس میں فرق
 آر اے سید
"ایٹمی ٹکنالوجی سب کے لئے ایٹمی ہتھیار کسی کے لئے نہيں" کے موضوع پر اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں پہلی بین الاقوامی ترک اسلحہ اور عدم پھیلاؤ کانفرنس شروع ہو گئ۔کانفرنس میں دنیا کے ستر ملکوں کے اعلی حکام اور مندوبین شریک ہیں۔جن میں چودہ وزرائے خارجہ،دس نائب وزرائے خارجہ اور علاقائی اور بین الاقوامی اداروں کے آٹھ نمائندے شامل ہیں،اجلاس میں ایک بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی بھی ہے،اس کانفرنس کا مقصد عالمی سطح پر ایٹمی ترک اسلحہ کو فروغ دینا ہے۔اس کانفرنس کا یہ پیغام ہے کہ دنیا بالخصوص مشرق وسطٰی کو ایٹمی ہتھیاروں سے عاری ہونا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے پہلی بین الاقوامی ترک اسلحہ و عدم پھیلاؤ کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں فرمایا،ہم عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کو حرام اور بنی نوع انسان کو اس بڑی مصیبت سے نجات دلانے کے لئے کوششوں کو سب کا فریضہ سمجھتے ہيں۔حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں فرمایا کہ بہتر ہو گا کہ ترک اسلحہ بین الاقوامی کانفرنس،دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار اور ان کا انبار لگائے جانے کے خطرات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ طریقے سے انسانیت کے خلاف ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی غرض سے راہ حل پیش کرے،تاکہ عالمی امن و استحکام کے تحفظ کی راہ میں ٹھوس قدم اٹھایا جا سکے۔رہبر انقلاب اسلامی نے دوسروں کو ڈرانے دھمکانے پر مبنی بعض حکومتوں کی ایٹمی اسٹریٹجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،عدم پھیلاؤ معاہدے کی سب سے زیادہ خلاف ورزی وہ طاقتیں کرتی ہيں جنھوں نے این پی ٹی کی شق نمبر چھ کے مطابق اپنے وعدوں کی خلاف کرنے کے علاوہ ان ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں براہ راست کردار ادا کیا ہے۔رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی حکومت کی طرف سے صہیونی حکومت کو ایٹمی ہھتیاروں کی پیداوار میں مدد دینے کے اقدامات کو این پی ٹی معاہدے کی خلاف ورزی کا واضح ثبوت قرار دیا۔رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر فرمایا،اس صورت حال نے مشرق وسطٰی اور دنیا کو سنگین خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے پیغام کے ایک حصے میں ایٹمی سائنس اور جوہری علوم کو انسانی کاوشوں کا ایک گرانقدر سرمایہ بتایا اور فرمایا مشرق وسطی کی اقوام جو دنیا کی ديگر اقوام کی مانند امن و سلامتی اور ترقی کی تشنہ ہيں،اس بات کا حق رکھتی ہيں کہ اس ٹکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی معیشت کو آگے بڑھائیں اور آئندہ نسلوں کی ترقی کی ضمانت بھی فراہم کریں۔
کانفرنس کے کنوینر آخوند زادہ نے کہا کہ ہم ایک پلیٹ فارم پر سب کو اپنے نظریات بیان کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم مشرق وسطی کے مرکز تہران سے یہ پیغام بھیجتے رہيں گے کہ دنیا کے اس حساس علاقے میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئي جگہ نہيں ہے۔انہوں نے پریس ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تہران سکیورٹی کانفرنس کا مقصد امریکہ میں منعقدہ کانفرنس کو متاثر کرنا نہیں ہے۔آخوند زادہ نے کہا کہ یہ ایک مسلسل عمل ہے کوئي پروجیکٹ نہیں ہے اور اگر بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم اس کانفرنس سے امریکہ میں منعقدہ کانفرنس کو متاثر کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی سوچ ہے،ہم اس طرح کا کوئي پلان نہیں رکھتے۔آخوند زادہ نے کہا کہ تہران سکیورٹی کانفرنس میں غیر سرکاری تنظیمیں بھرپور طرح سے شریک ہیں۔آخوند زادہ نے کہا کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران نے کیماوی ہتھیاروں پر پابندی کے کنونشن کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا ہم کیمیاوی جارحیت کا شکار ہیں اور یہ نہيں چاہتے کہ کوئي بھی مشرق وسطٰی میں یا کہیں بھی ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہو کیونکہ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ہے۔
اس کانفرنس میں اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے ترک اسلحہ پراسس اور ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے عمل پر مسلسل نظر رکھنے کے لئے ایک عالمی ادارے کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔یہ ادارہ اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا ترک اسلحہ اور ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کا عمل قانونی طریقے سے آگئے بڑھ رہا ہے یا نہیں۔صدر احمدی نژاد نے دنیا میں موجود بیس ہزار ایٹمی وار ہیڈز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان بیس ہزار میں سے نصف امریکی گوداموں  میں موجود ہیں امریکہ نے نہ صرف ایٹم بم استعمال کیا ہے بلکہ اب سرکاری طور پر ایٹمی حملوں کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ڈاکٹر احمدی نژاد نے اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عالمی ادارے امریکہ اور چند منہ زور طاقتوں کے آلہ کار بن چکے ہیں اور اس ادارے نے قوموں کے حقوق اور ملکوں کی سلامتی کے ضامن اور امین ہونے کاکردار ادا نہیں کیا ہے۔
ایٹمی ٹیکنالوجی سب کے لئے اور ایٹمی ہتھیار کسی کے لئے نہيں کے زیر عنوان منعقدہ اس کانفرنس کے مقررین اور شرکاء کے خیالات اور موقفات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا ایٹمی اسلحوں کی موجودگی سے سخت پریشان ہے۔ایٹمی طاقت جسے انسانی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرنے سے دنیا میں توانائی سمیت کئی دیگر شعبوں کی مشکلات حل کی جا سکتی ہیں،لیکن امریکہ کی طرف سے ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بموں کو استعمال کرنے کی وجہ سے عالمی برادری ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہے،جس نے اس نعمت کو مصیبت میں تبدیل کر دیا ہے۔امریکہ ایٹم بم کے اس خود ساختہ خطرناک تاثر سے غلط استفادہ کر رہا ہے اور کبھی ایران پر الزام لگاتا ہے اور کبھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو سامنے رکھ کر یہ کہتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھوں لگ سکتے ہیں۔
ایران میں منعقدہ اس کانفرنس کی افادیت اس حوالے سے بھی بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کیونکہ امریکی صدر نے چند دن پہلے کہا ہے کہ اگر امریکہ پر ایٹمی یا جراثیمی حملہ کیا گيا تو وہ اسکے خلاف ایٹمی حملہ کر دے گا۔امریکہ کے ماضی بالخصوص گیارہ ستمبر کے خود ساختہ واقعے کے بعد بعید نہیں ہے کہ امریکہ اپنے ملک کے کسی حصّے پر گیارہ ستمبر کے واقعے کے طرح خود ہی حملہ کر کے جوابی حملے کے طور پر اپنے مخالفین پر ایٹمی حملہ کر دے۔امریکہ نے واشگنٹن کے ایٹمی سیکورٹی اجلاس میں پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ جن ملکوں کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہيں وہ ان کی دفاعی ڈکٹرین کے اعتبار سے انھیں محفوظ رکھ سکتے ہيں جبکہ تہران ترک اسلحہ کانفرنس میں مکمل طور پر اس کے برخلاف موقف اپنایا جا رہا ہے۔اس کانفرنس کا نعرہ ہے کہ ایٹمی انرجی سب کے لئے اور ایٹمی اسلحے کسی کے لئے نہيں۔اور یہ کانفرنس دنیا والوں کو یہ پیغام دے رہی ہے ایٹمی ہتھیاروں سے انسانیت کی تباہی کے سواء اور کوئی نتیجہ نہيں نکلے گا،اور اس طرح کے اسلحے عالمی امن وسلامتی کی ضمانت نہيں دے سکتے۔درحقیقت تہران کانفرنس کا مقصد دنیا کے ملکوں کا اس بات پر اتفاق کرنا ہے کہ این پی ٹی معاہدے کے مطابق پرامن مقاصد کے لئے سب کو ایٹمی انرجی سے استفادے کا حق دیا جائے۔کیونکہ این پی ٹی معاہدے کے مطابق جن ملکوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہيں ان کو پرامن ایٹمی ٹکنالوجی سے استفادے کا حق حاصل ہے اور یہ ان ملکوں کا مسلمہ حق ہے اور اسی طرح این پی ٹی کی شق نمبر چھ میں کہا گیا ہے کہ جن ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہيں انھیں اپنے ہتھیار تباہ کر دینے ہوں گے جبکہ واشنگٹن کانفرنس میں این پی ٹی معاہدے کے برخلاف موقف اپنا یا گیا اور اس میں کہا گیا کہ جن ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں وہ اپنی دفاعی ڈکٹرین کے تحت اپنے ہتھیار محفوظ رکھ سکتے ہيں۔تہران کانفرنس میں اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ لوگوں کو ایٹمی ہتھیاروں سے لاحق خوف سے نجات دلائي جائے اور سب کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار نابود کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 23899
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش