0
Tuesday 12 Feb 2013 21:01

طالبان سے مذاکرات

طالبان سے مذاکرات
تحریر: رشید احمد صدیقی 

نائن الیون کے بعد سے امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج نے افغانستان پر فوج کشی کی۔ طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا اور حامد کرزئی افغانستان کے صدر بنے۔ گیارہ سال بعد اتحادی افواج افغانستان سے نکلنے اور وہاں کا نظم و نسق مقامی افواج کو دینے کی باتیں کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں قطر کے دارالحکومت میں طالبان اور امریکہ کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ افغان حکومت کے نمائندے بھی اس میں شریک ہیں جبکہ خوشگوار حیرت کے ساتھ جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی مذاکرات کے دنوں میں وہاں پر موجود ہیں اور شنید یہ ہے کہ وہ بھی کسی حد تک اس عمل میں شریک ہیں۔ 

ان مذاکرات سے قبل لندن میں برطانوی وزیراعظم کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے صدور کے درمیان خطے کی سلامتی کے حوالے سے مذاکرات ہوئے۔ صدر آصف علی زرداری پاکستان کے آئینی سربراہ ہیں، انتظامیہ کے سربراہ وزیراعظم ہوتے ہیں، جبکہ افغانستان میں صدارتی طرز حکومت ہونے کی وجہ سے صدر ہی انتظامی سربراہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اصولاً وزیر اعظم کو مذاکرات میں شرکت کرنی چاہیئے تھی۔ لیکن صدر کو چونکہ آج کل یہاں پر زیادہ طاقتور سمجھا جا رہا ہے اس لیے ان کی موجودگی شائد زیادہ اہم تھی، چنانچہ ان کی قیادت میں آرمی چیف اور وزیر خارجہ نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان مذاکرات کا لب لباب یہ تھا کہ طالبان مذاکرات کے عمل میں شریک رہیں اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنا دفتر بھی فعال بنائیں۔ 

برطانیہ کا کردار میزبان اور سہولت کار کا تھا جبکہ افغانستان اور پاکستان نے ایک طرح سے فریقین کے طور پر شرکت کی۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے لیے نیک تمنائوں اور مستقبل میں اچھے تعلقات کے تذکرے ہوئے۔ پاکستانی صدر نے حسب معمول محاورہ مستعار لیتے ہوئے کہا کہ ہم دوست بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی کو نہیں۔ اسی روز پاکستانی خاتون نوجوان وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اجلاس کا نچوڑ مذاکرات ہی تھا۔ لیکن جو نظر آیا وہ یہ تھا کہ دوحہ قطر میں امریکہ افغانستان اور طالبان کے درمیان جو مذاکرات ہونے جا رہے ہیں ان میں پیشرفت ہونی چاہیئے اور اگر طالبان اس سلسلے میں پاکستان سے قیدیوں کی رہائی وغیرہ کی کچھ مراعات حاصل کرنا چاہیں تو پاکستان تعاون کرے۔ پاکستان کو کیا ملے گا، اس سلسلے میں راوی خاموش ہے۔ لندن اعلامیہ جاری ہونے کے بعد امریکی دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے بریفنگ میں اس کی توثیق کی اور طالبان سے زیادہ سنجیدگی کا مطالبہ کیا۔ 

دہشت گردی کے خلاف ایک عشرہ سے جاری جنگ کے ایک فریق پاکستان، امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں جبکہ دوسرا فریق طالبان اور القاعدہ ہیں۔ ایک فریق کا سرخیل امریکہ اور دوسرے کا القاعدہ ہے۔ جنگ افغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر لڑی جا رہی ہے، چنانچہ طالبان اور پاکستان اہم ترین شراکت ہیں (stakeholder) دوحہ مذاکرات میں اصل فریق القاعدہ اور پاکستان شریک نہیں ہیں۔ دوسری جانب 22 دسمبر 2012ء کو پشاور میں سینئر صوبائی وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے اہم ترین رہنماء بشیر بلور کے قتل کے بعد یہاں پر نئی فضا نے جنم لیا۔ پانچ سال سے صوبے کی حکمران جماعت نے اتنا بڑا نقصان اٹھانے کے بعد حالت سوگ میں مذاکرات کی بات شروع کی۔ جواب میں تحریک طالبان پاکستان نے بھی مذکرات کی پیشکشیں کیں۔ افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی جنگ کے فریقین نے کافی عرصہ پہلے دوحہ میں مذاکرات کا آغاز کر دیا تھا ور اس کے ابتدائی مراحل کسی خاص پیشرفت کے بغیر ختم ہو گئے تھے، لیکن اس جنگ کے پاکستانی میدان کے فریقین کے درمیان مذاکرات کی بات پہلی مرتبہ سامنے آئی۔

اس سے قبل جب فوجی آپریشنوں کے بعد طالبان پہاڑوں کی جانب پسپا ہو گئے تھے اور نسبتاً دفاعی پوزیشن پر چلے گئے تھے تو صوبے کی حکمران جماعت کی جانب سے فخریہ انداز میں یہ بات ہو رہی تھی کہ ہمیں پانچ دن میں حکومت چھوڑنے کی دھمکیاں دینے والے بلوں میں گھس گئے ہیں۔ ہم ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن بشیر بلور کے قتل کے بعد انداز یک دم بدل گیا۔ اب تو غمزدہ و سوگوار غلام احمد بلور کہتے ہیں کہ ہم طالبان سے اسلحہ رکھنے کی بات بھی نہیں کرتے وہ صرف تشدد چھوڑ دیں اور مذاکرات کی میز پر آ جائیں ہم سارا خون معاف کرنے کو تیار ہیں۔ اس غرض کے لیے وہ ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے اپنے تئیں ایک آل پارٹیز کانفرنس کی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے جس پر جماعت اسلامی، جے یو آئی اور قومی وطن پارٹی کو تحفظات ہیں۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین کہتے ہیں کہ ہم تحفظات دور کرنے کے لیے متعلقہ جماعتوں کے پائوں پکڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ 

مذاکرات کی اس فضا میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان ملا احسان نے ویڈیو پیغام جاری کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان، سید منور حسن اور نواز شریف ضمانت دیں تو ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اس پیشکش کے بارے میں کوئی واضح اشارہ تو نہیں دیا، البتہ طالبان امریکہ مذاکرات کے موقع پر دوحہ میں ان کی موجودگی اس جانب اشارہ ہے کہ وہ اہم کردار ادا کرنے کے موڈ میں ہیں۔ میاں نواز شریف نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ طالبان کی پیشکش کا فائدہ اٹھائیں۔ سید منور حسن نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ہم سے جو بن پڑا کریں گے۔ 

یہ خوش آئند امر ہے کہ بندوق کی بجائے اب مذاکرات کی باتیں ہر طرف سے ہو رہی ہیں، لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ دیا گیا ہے کہ مذاکرات کے عمل میں پاکستان اور القاعدہ کنارے پر ہیں۔ امریکہ طالبان کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اس عمل میں قابل قبول ہیں لیکن جو آگ پاکستان میں لگی ہے اس کو بجھانے میں امریکہ کو کوئی دلچسپی ہے اور نہ مولانا فضل الرحمان طالبان کی پیشکش کو زیادہ سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے امریکہ کے فرنٹ لائین صوبے کا حق کمال حد تک ادا کر دیا ہے اور گذشتہ روز اپنے والد کی جگہ حکومتی عمل میں شریک ہارون بلور نے امریکی قونصل جنرل سے ملاقات میں بجا طور پر کہا کہ امریکہ ہماری قربانیوں کا اعتراف کرے اور مسئلہ حل کرنے میں ہماری مدد کرے۔
 
امریکی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والی اے این پی مذاکرات کے عمل میں سب سے زیادہ سنجیدہ ہے لیکن اصل فریق حکومت پاکستان اس سلسلے میں زیادہ سرگرمی نہیں دیکھا رہی ہے۔ لندن سہ فریقی مذاکرات کے باوجود پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان برف پگھلتی نظر نہیں آ رہی۔ پاکستان کا اصل مسئلہ تو یہاں پر ہونے والے خودکش حملے ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ خودکش حملے دراصل قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں کا انتقام ہیں۔ جن میں طالبان کی قیادت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے خیال میں یہ حملے حکومت پاکستان اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی ایماء پر ہو رہے ہیں چنانچہ وہ انتقام لینے کے لیے ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ 

پورے پاکستان اور کے پی کے میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے روکے جائیں۔ جواب میں طالبان پشاور اور کے پی کے میں خودکش حملے روک دیں گے۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو امریکہ سے بات کرنی اور منوانی ہوگی، لیکن سوال پھر بھی وہی ہے کہ اصل فریق القاعدہ کے بغیر کیا طالبان سے کوئی معائدہ ممکن ہو گا اور کیا اس کی کوئی ضمانت دی جا سکے گی۔ القاعدہ امریکہ کی دشمن ہے لیکن طویل جنگوں کے اختتام پر دشمن ہی مذاکرات کرتے ہیں۔ ابتداء میں شائد انا کی وجہ سے القاعدہ سے بات کرنا مشکل ہو گا لیکن یہ کرنا ہوگا۔ براہ راست نہ سہی بالواسطہ مذاکرات جسے عرف عام میں ٹریک ٹو یا بیک چینل ڈپلومیسی کہتے ہیں کی بنیاد رکھنی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 239130
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش