7
0
Wednesday 13 Feb 2013 01:45

غیر اسلامی حکومت میں شراکت

غیر اسلامی حکومت میں شراکت
تحریر: سید میثم ہمدانی
mhamadani@ymail.com 

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، دین مبین اسلام نے بشر کی تمام ضروریات کا حل پیش کیا ہے اسکی وجہ اس دین کا خالق کی جانب سے ہونا اور فطری ہونا ہے، چونکہ یہ دین خالق کی جانب سے ہے اس لئے مخلوق کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والا ہے اور چونکہ فطری ہے انسان کی طبع اور مصلحت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسلام نے سیاست اور حکومت کے میدان میں بھی انسان کو لاوارث نہیں چھوڑا۔ اسلام کے مطابق انسان پر حاکمیت کا حق صرف خداوند تبارک و تعالی کو ہے اور حق حاکمیت مطلقہ مختص ہے خدا کی ذات سے چونکہ وہ خالق ہے اور مدبر الامور ہے۔ خدا نے انبیاء اور رسل کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ہے اور زمین پر حاکمیت کا حق خدا کے بھیجے گئے نمائندوں کو حاصل ہے اسی وجہ سے اگر کوئی ان الہی نمائندوں کے مدمقابل کھڑا ہو جائے تو وہ ظالم اور باغی ہے۔ علمائے مکتب اہلبیت کے مطابق انبیاء کے بعد یہ حق حاکمیت اوصیاء کو حاصل ہے اور اسی وجہ سے رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد حق حاکمیت ان کے خلفاء اور اوصیاء سے مختص ہے کہ جو امام علی علیہ السلام کی ذات سے لیکر حضرت مھدی موعود عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف تک معین اور مشخص ہیں۔ آپ حضرات کی زندگی میں حق حاکمیت آپ سے مختص ہے اور تمام امور آپ کی اجازت اور اذن سے جائز قرار پاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ غیبت کبری کے زمانے میں جب امام معصوم پردہ غیبت میں موجود ہیں تو مومنین کی عرفی حکومتوں کے ساتھ شراکت داری اور رابطہ کی کیا حیثیت ہے؟ آیا عرفی حکومتوں کے ساتھ رابطہ رکھا جاسکتا ہے اور ان میں شراکت کی جا سکتی ہے؟ 

یہ سوال کوئی آج کا سوال نہیں ہے۔ قدیم زمانے سے یہ سوال موجود رہا ہے اور معاشرے کے متدیینین افراد فقہا اور دینی علما کے نظریہ کے مطابق عمل کرتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس مختصر مقالے میں ہم اس موضوع کا ایک علمی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے اور اس بحث سے کسی قسم کے شرعی حکم کا استنباط کرنا صحیح نہیں ہو گا چونکہ اس سلسلے میں ہمیں چاہیئے کہ اپنی شرعی ذمہ داریوں کی تشخیص کیلئے مرجع تقلید کے فتوی کے مطابق عمل کریں۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ابتدائی نظر میں اسلام کے نظریہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ایسے نظام کہ جو دین مبین اسلام کی بنیاد پر قائم نہ ہوں، غیراسلامی نظام کہلائیں گے۔ اب ان غیر اسلامی نظاموں کیلئے ضروری نہیں ہے کہ اس کے حاکم بھی غیر مسلم اور کافر ہوں بلکہ عین ممکن ہے حاکم بھی مسلمان ہو لیکن یہ نظام اسلامی اصولوں کے مطابق نہ ہو اور اس کو غیر اسلامی نظام کہا جائے۔ حکومت کا قیام اور حکومت کا وجود چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی عقلاً ضروری ہے اور اسکی نفی محال ہے۔ امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:" و انہ لابد للناس من امیر، بِراً او فاجر۔۔۔۔۔ و یقاتل بہ العدو و تامن بہ السبل"یعنی سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ لوگوں کے لئے کوئی امیر ہو چاہے نیک ہو یا فاجر۔ لوگ اس کی مدد سے دشمنوں کے خلاف جنگ کریں اور راستوں کو پر امن رکھیں۔ (نہج البلاغہ) حضرت آیت اللہ جوادی آملی (زید عزہ) ایک جگہ فرماتے ہیں: "معاشرے میں قانون اور نظم کا وجود ایسی ضرورت ہے کہ جس سے کوئی عاقل انسان انکار نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی عاقل انسان اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ معاشرہ نظم و قانون کے بغیر ہو، اگرچہ یہ قانون انسان کے محدود ہونے اور اس کی آزادی کے کم ہونے کا سبب ہی کیوں نہ بنے۔ اگر انسانی معاشرے میں نظم اور قانون موجود نہ ہو تو ہرج و مرج (افراتفری) اور فساد پایا جائے گا اور معاشرے کو تباہ و برباد کر دے گا" (نظام سیاسی از نگاہ آیت اللہ جوادی آملی/ دانشگاہ باقر العلوم قم)۔ 

آئمہ اور فقہا کے احوال و اقوال کے مطالعہ سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ غیر اسلامی حکومت کے ساتھ شراکت یا رابطہ چند شرائط کے تحت صحیح اور جائز ہے اور ان تمام شرائط میں بھی جو بنیادی شرط موجود ہے وہ یہ ہے کہ ایسا رابطہ ظالم کے ظلم میں مدد اور فاسد کے فساد میں شامل ہونے کا باعث نہ ہو۔ ان شرائط کو کہ جنکا تفصیلی بیان آگے چل کر ہو گا تین اقسام میں بیان کیا جا سکتا ہے۔۱: مومنین کی مدد اور نصرت ۲: مصلحت ۳: امر بالمعروف اور نہی از منکران شرائط کے ساتھ آئمہ اور فقہا نے غیر اسلامی حکومت کے ساتھ رابطے اور شراکت کو جائز قرار دیا ہے اور بلکہ بعض اوقات تو واجب بھی قرار دیا ہے۔ امام موسی کاظم (علیہ السلام) خلافت عباسی کو غاصب اور باطل حکومت جانتے تھے اور ایسی حکومت میں کام کرنے کو حرام سمجھتے تھے۔ امام (علیہ السلام) نے صفوان جمّال، شتربان کو سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: کیوں تم نے اپنے اونٹ ہارون کو کرایہ پر دیئے۔ آپ (علیہ السلام) نے صفوان سے فرمایا: تمہارے کام صحیح ہیں سوائے ایک کام کے۔ اس نے عرض کی مولا وہ کونسا کام ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا: اپنے اونٹ ہارون الرشید کو کرایہ پر دینا۔ صفوان نے اس گفتگو کے بعد اپنے تمام اونٹ بیچ دیئے، لیکن اس کے باوجود امام (علیہ السلام) نے حکومت وقت میں اپنے افراد کو باقی رکھا اور ان کو مومنین کی ضروریات کو پورا کرنے کی تاکید فرماتے رہے۔ امام (علیہ السلام) کی جانب سے عباسی حکومت میں موجود میں چند اصحاب کے نام یوں بیان کئے گئے ہیں :۱: علی ابن یقطین ۲: حفص ابن غیاث کوفی (قضاوت کے عہدے پر) ۳: فضل بن سلیمان (منصور، مہدی اور محمد بن اسماعیل کا کاتب، وزیر اور والی) ۴: حسن بن راشد (مہدی،ہادی اور رشید کے وزیر) (اعلام الھدایہ، ج ۹، ص ۱۴۲ الی ۱۴۶)۔

حضرت علی ابن یقطین (علیہ الرحمۃ) اپنے زمانے کے آگاہ انسانوں میں سے تھے۔ آپ دردمند، متفکر شخصیت اور بزرگ محدث تھے۔ باکفایت سیاستدان اور باقدرت وزیر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ امام صادق (علیہ السلام)اور امام کاظم (علیہ السلام) کے نزدیک عظیم مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔ آپ کا پورا نام علی کوفی ابن یقطین ابن موسی تھا۔ آپ سن ۱۲۴ ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ آپ بنی امیہ اور بنی مروان کے خلاف عوامی بغاوت کا حصہ رہے۔ آپ کے والد گرامی بھی اموی حاکموں کے خلاف فعال رہے اور اسی وجہ سے مخفیانہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ (رجال کشی، ص ۷۳۶)عبداللہ ابن یحیی کاملی سے روایت ہے کہ امام موسی کاظم (ع) نے ایک مرتبہ کہ جب علی ابن یقطین دور سے آ رہے تھے تو آپ کو دیکھ فرمایا: اگر کوئی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب کو دیکھ کر خوشحال ہونا چاہتا ہو تو اس مرد (علی بن یقطین) کو دیکھے۔ محفل میں حاضر ایک شخص نے سوال کیا: آیا وہ اہل بہشت ہے؟ آپؑ نے فرمایا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اہل بہشت ہے۔ (آیت اللہ خوئی/ معجم رجال الحدیث/ ج ۱۲/ ص ۳۲۹)۔ علی بن یقطین نے امام موسی کاظم (علیہ السلام) سے اجازت چاہی کہ میں (حکومت) میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دوں اور خلافت عباسی سے دوری اختیار کروں۔ امام ؑ نے آپ کو اس کام سے منع کیا اور فرمایا:"اس کام کو انجام نہ دو چونکہ ہم تمہیں چاہتے ہیں اور تمہارے دینی بھائی تمہارے ذریعہ عزت حاصل کرتے ہیں۔ امید ہے کہ خدا تمہارے ذریعہ کمی کو پورا کرے اور اصلاح کرے یا مخالفین کے غصہ سے اپنے اولیاء کو محفوظ رکھے۔ 

اس کے بعد آپ نے فرمایا اے علی: تمہارے اعمال کا کفارہ یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ احسان اور نیکی کرو۔ تم میرے لئے ایک بات کی ضمانت کرو میں تمہارے لئے تین چیزوں کی ضمانت کرتا ہوں۔ تم قبول کرو کہ ہمارے دوستوں سے ملاقات نہ کرو گے مگر یہ کہ ان کی مشکل کو حل اور انکی ضرورت کو پورا کرو اور ان کا احترم کرو۔ میں تمہارے لئے ضمانت کرتا ہوں کہ تمہارے اوپر کبھی بھی قید کا سایہ نہ پڑے، ہرگز تلوار کی تیزی تمہارے بدن کو نقصان نہ پہنچائے اور کبھی بھی فقر (تنگدستی) تمہارے گھر میں داخل نہ ہونے پائے۔ اے علی: جو کوئی بھی کسی ایک مومن کو خوشحال کرے، سب سے پہلے اس نے خدا کو خوشحال کیا اور پھر پیغمبرؐ کو اور پھر ہمیں"۔ (ابی جعفر موسی/ اختیار معرفت الرجال/ ص ۷۳۲)۔ 

علی بن یقطین کے ذمہ دو اہم کام تھے:

۱:دربار سے امام کیلئے خبروں کا اہتمام: مرحوم مجلسی نے تحریر کیا ہے:"جب شہید حسین فخ کا قیام شکست سے دوچار ہو گیا اور ان کے ہمراہ افراد کے سر اور بعض اسیر موسی ابن مہدی (خلیفہ عباسی)کے دربار میں بھیجے گئے تو اس نے حکم دیا کہ تمام اسیروں کو قتل کر دیا جائے۔ اس کے بعد باقی علوی افراد کے بارے میں بات شروع ہو گئی یہاں تک کہ امام موسی کاظم (علیہ السلام) کا ذکر ہوا۔ اس نے بہت غصہ سے کہا: آپ کے اذن سے ہی یہ قیام عمل میں آیا چونکہ آپ اس خاندان کے وصی ہیں، خدا مجھے ہلاک کرے اگر میں اسے قتل نہ کروں۔ اس سارے معاملے کو علی بن یقطین نے امام موسی کاظم (ع) کیلئے مکتوب لکھ بھیجا۔ آپ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور صلاح مشورہ کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ کچھ عرصے کیلئے روپوش ہو جائیں، پھر امام نے خلیفہ کی موت کی پیش بینی فرمائی۔
۲:امام اور مومنین کی مالی معاونت: مرحوم کشی نے رجال میں لکھا ہے: علی بن یقطین اپنے دو معتمد ساتھیوں کے ہاتھ امام موسی کاظم (علیہ السلام) کیلئے خطوط اور کثیر اموال بھجوایا کرتے تھے۔ امام ؑ نے خود بنفس نفیس یہ خط اور اموال وصول کئے۔ ایک ملاقات مدینہ سے باہر "بطن الرمہ" کے مقام پر انجام پائی۔ اسی طرح علی بن یقطین ہر سال مومنین میں بہت سے افراد کو حج کیلئے بھیجا کرتے اور اس بہانے ان کی مالی مدد کرتے" شیخ انصاری (رحمۃ اللہ علیہ) مختلف روایات کی تحقیق کے بعد فرماتے ہیں: "ظالم اور جائر ولی کی جانب سے ولایت (ذمہ داری) کو قبول کرنا اس بات سے قطع نظر کہ گناہ اور معصیت کے ہمراہ ہے، بنفسہ اور خودبخود حرام ہے اور اس ولایت کو قبول کرنا گناہ اور معصیب بھی ہے۔" پھر آپ فرماتے ہیں : " جائر اور ظالم والی کی طرف سے ولایت (ذمہ داری) کو قبول کرنے کے واجب ہونے پر اجماع اور اتفاق (فقہا کا اتفاق نظر ) موجود ہے اس وقت کہ جب عوام کی مصلحت اس کام پر قائم ہو" اس بات کیلئے تین دلائل بیان کئے ہیں : ۱: قرآن ۲: سنت : اجماع۔ 

خداوند تبارک و تعالی قرآن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بات کو نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے :قَالَ اجْعَلْنىِ عَلىَ‏ خَزَائنِ الْأَرْضِ إِنىّ‏ حَفِيظٌ عَلِيم (یوسف/ آیت ۵۵) ترجمہ: یوسف نے کہا: مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کریں کہ میں بلاشبہ خوب حفاظت کرنے والا، مہارت رکھنے والا ہوں۔ لہذا شیخ انصاری فرماتے ہیں کہ اگر دو واجب یعنی امر بالمعروف اور نہی از منکر غاصب اور ظالم حکومت میں داخلہ پر متوقف ہوں تو ایسی حکومت میں داخل ہونا واجب ہے" (شیخ انصاری، المکاسب، المسالہ السادسہ و العشرون) اسی طرح گذشتہ زمانے سے بھی یہ مسئلہ بزرگ فقہا کے مدنظر رہا ہے۔ احمد بن عیسی اشعری (خاندان اشعری) مکتب قم کی سرشناس اور فقیہ شخصیت ہیں وہ اپنے دور میں حکومتوں کے ساتھ رابطہ میں تھے۔ نجاشی نے آپ کو "شیخ قمیین و وجھھم و فقیھھم " کا لقب دیا۔ (نجاشی جلد ۱،ص ۲۱۶) شیخ صدوق آل بویہ خصوصا رکن الدین الدولہ دیلمی کے ساتھ اچھے مراسم کے حامل تھے۔ آپ نے عرفی حکومتوں کے نظم و نسق کے حوالے سے ایک کتاب "السلطان" بھی تدوین کی۔ (ایضا، ص ۷۳۷)۔ 

شریف مرتضی جو شیخ مفید کے شاگردوں میں سے ہیں نے عرفی حکومتوں کے بارے میں سیاسی نظریات بیان کئے۔ آپ نے حتی ظالم حکومتوں (حکام جائر) کے بارے میں بھی فقہی نظریات پیش کئے۔ آپ عرفی حکومتوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں، ۱:محقق عادل ۲: مبطل ظالم۔ آپ نے اپنے نظریہ کے بیان میں "حسن قبح عقلی اور شرعی" سے مدد لی۔ آپ اپنے سے ماقبل فقہا کے نظریہ کو کہ جو "مشروط محدود شراکت" کا نظریہ تھا "مشروط مبسوط شراکت" کے نظریہ میں تبدیل کیا۔ آپ امام صادق (علیہ السلام) کی اس حدیث سے تمسک کرتے ہیں: "کفارۃ العمل مع السلطان قضا حوائج الاخوان" آپ فرماتے ہیں کہ امامؑ کے اس کلام سے استفادہ کرتے ہوئے ہم برادران کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مذکورہ ولایت کو حتی قبح سے خارج کرکے حسن کا درجہ بھی دے سکتے ہیں۔ (شریف مرتضی/ج۲/ص ۸۹ الی ۹۷۔کریمی زنجانی اصل/ ۱۶۰ الی ۱۶۱)۔

شریف رضی شریف مرتضی کے برادر بزرگوار بھی اس نظرئیے کے قائل تھے۔ شریف مرتضی کے والد بزرگوار ابو احمد حسین بغداد کی ایک معروف دینی شخصیت تھے۔ آپ اپنے دور کے بادشاہوں کے ساتھ رابطہ میں تھے۔ آپ ہمیشہ بغداد کے مختلف گروہوں اور اسی طرح بغداد کے شیعہ سنی مسلمانوں کے درمیان مشکلات کو حل کرواتے تھے۔ آپ نے آل بویہ اور بنی حمدان کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ شیخ طوسی مکتب بغداد کی اہم شخصیت ہیں۔ آپ نے حکومتی روابط کے حوالے سے ایک اہم کتاب "باب عمل السلطان و اخذ جوائزھم" تحریر کی۔ آپ نے اپنی کتاب "النہایہ مجرد الفقہ و الفتاوی" میں شریف مرتضی کے نظریہ "محقق عادل" کی خارجی مثال بھی پیش کی۔ آپ ظالم حاکم یا جائر سلطان کی جانب سے کسی ولایت (مسئولیت) کو قبول کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں :"اگر انسان کو یقین حاصل ہو جائے یا گمان غالب لاحق ہو کہ اگر ظالم حکمران کی جانب سے کسی مسئولیت کو قبول کرے تو حدود الہی کے اقامہ کا امکان موجود ہے اور امر بالمعروف و نہی از منکر، خمس، زکوۃ کی تقسیم اور برادران کے ساتھ صلہ (رحم) فراہم ہو سکتا ہے اور ان تمام امور میں امر واجب میں خلل واقع ہوتا ہے یا کسی قبیح کی انجام دہی کا موجب نہیں بنتا تو اس صورت میں مستحب ہے کہ وہ کسی جورسلطان کی جانب سے منصب کا متولی ہو جائے ۔ ۔ ۔ "(جعفری، ص ۳۵۶ الی ۳۵۷/ سیاست در اندیشہ و رفتار فقیہان شیعہ)۔

محقق نراقی نے کتاب معراج السعادت میں "اعانت مسلمین و رفع حوائجھم" کی بحث کے ذیل میں حکومتوں کے ساتھ شراکت اور رابطے رکھنے کے بارے میں بیانات فرمائے ہیں۔ آپ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ کس قسم کی شراکت رکھی جائے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں :"جو کچھ آج کل لوگوں کے درمیان شروع ہو چکا ہے اور ان کی رسوم و رواج بھی اسی طرح بن چکی ہیں وہ بےشمار ہے اور ان کا تفصیل سے بیان ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس اگر دین دار مومنین کیلئے میسر ہو کہ ان میں سے بعض کو دفع (دور) کر سکیں تو ان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ گھر میں بیٹھ جائیں اور لوگوں سے قطع تعلق کرلیں اور الگ ہو جائیں، بلکہ ان کیلئے واجب ہے کہ باہر آئیں اور خدا کے دین کی مدد کریں " (ملا احمد نراقی/ عوائد الایام/ ص ۵۲۰ الی ۵۲۱)۔ دور حاضر میں اس عنوان سے بہترین مثال آیت اللہ مدرس کی دی جا سکتی ہے۔ سید حسن مدرس ابن سید اسماعیل ابن عبدالباقی قمشہ ای ایران کے طباطبائی سادات میں سے تھے اور اپنے دور کے معروف فقیہ اور نامور شخصیت تھے۔ امام خمینی (رہ) نے آپ کی بہت زیاد تعریف کی ہے اور بہت سے مقامات پر آپ کو نمونہ اور آئیڈیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ نے ۱۶ سال کی عمر میں حوزہ علمیہ اصفہان کا رخ کیا اور ۱۳ سال تک اس دینی مرکز میں زیر تعلیم رہے پھر آپ نے نجف کا سفر اختیار کیا۔ آپ انقلاب اسلامی ایران سے پہلے کے سامراجی دور میں ایران کی قومی اسمبلی میں مجاہدانہ کردار ادا کرتے رہے۔ امام خمینی (رہ) نے ایک دفعہ سن ۱۹۶۵ء میں ایران میں کاپیٹالیشن (capitulation) قانون کی مذمت میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:"علما کی ذمہ داری ہے کہ ملت کو آگاہ کریں، حکومت پر اعتراض کریں کہ کیوں ایسا کام انجام دے رہی ہے؟ کیوں ہمیں بیچ رہے ہیں ؟ آیا ہم ان کے غلام ہیں۔ وہ ہمارے وکیل نہیں ہیں۔ اگر وکیل (نمائندے)بھی ہوں تو ملک سے خیانت کرنے کے بعد خودبخود اپنی وکالت سے ساقط ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ملک سے خیانت کی ہے، اس حکومت نے ملک سے خیانت کی ہے ، اسلام سے خیانت کی ہے ۔ ۔ ۔ اگر اس اسمبلی میں کوئی ایک ملّا ہوتا تو ان کے منہ پر مارتا۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایسے کام نہ ہونے دیتا۔ ۔ ۔ ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کام کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ (امام خمینی، صحیفہ نور، جلد ۱۹، ص ۶۶۹)۔

آیت اللہ سید حسن مدرس اپنے دور میں کہ جب انگلستان چاہتا تھا ایران میں جمہوری حکومت کے قیام کے ذریعے ایران کے وسائل پر قابض ہو جائے تو فرماتے ہیں، " میں حقیقی جمہوری کا مخالف نہیں ہوں، اوائل اسلام کی حکومت بھی تقریباً بلکہ تحقیقاً جمہوری حکومت تھی، لیکن یہ جو جمہوری حکومت ہم پر تھونپنا چاہتے ہیں وہ ملت ایران کے ارادے اور ملت ایران کی رضامندی سے نہیں ہے، بلکہ انگریز یہ چاہتا ہے کہ ملت پر ایسی حکومت کو تھونپ دیا جائے، ایسی حکومت کہ جو سو فیصد کٹھ پتلی ہو اور اسکی مرضی کے مطابق کام کرے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ احمد شاہ (اس وقت کا ایرانی بادشاہ) کے معاہدوں سے راضی نہیں ہے اور اس کی مخالفت کی وجہ سے اس سے انتقام لینا چاہتا ہے۔ اگر حقیقتا جمہوریت کے لئے کوئی آزاد فکر اور محب وطن امیدوار ہوتا تو میں حتماً اس کی حمایت کرتا اور اس کی ہر قسم کی مدد اور تعاون سے دریغ نہ کرتا" (حسین مکی/ تاریخ بیست سالہ ایران)۔

امام خمینی (رہ) ایک جگہ انتخابی امیدواروں کیلئے فرماتے ہیں،
"کوشش کریں مرحوم مدرس جیسے افراد کا انتخاب کریں، البتہ مرحوم مدرس کی مانند افراد اتنی جلدی میسر نہیں ہوتے، شاید کوئی ایک انسان مدرس جیسا مل جائے، ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو مسائل کو تشخیص دے سکیں، ایسے لوگ نہ ہوں کہ جو روس یا امریکہ کی ایک دھمکی سے ہی ڈر جائیں، ایسے لوگ ہوں جو ڈٹ جائیں اور مقابلہ کریں، (صحیفہ نور، ج ۱۸، ۱۹۸)۔ امام خمینی (رہ) ایک اور مقام پر مرحوم مدرس کی تعریف کرتے ہوئے اور میدان میں حاضر رہنے کی تاکید فرماتے ہوئے کہتے ہیں، "ایسا نہ ہو کہ اب چونکہ میرے چاہنے کے مطابق نہیں ہے تو میں بھی الگ ہو کر بیٹھ جاؤں ۔ ۔ ۔ مرحوم مدرس نے کہا تھا، میں جمہوری کا مخالف ہوں ۔ ۔ ۔ لیکن اگر جمہوری ہوئی تو تب بھی الگ نہیں رہوں گا، میں میدان میں حاضر رہوں گا۔ (صحیفہ نور، ج ۱۹، ص ۱۹۶) آج کل پاکستان میں بھی انتخابات کا وقت ہے اور مکتب اہل بیت کے پیروکار بھی تاریخی بیداری کے دور سے گزر رہے، جو کچھ بیان ہوا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مومنین میں سے وہ لوگ جو اس نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور سیاسی شراکت اور مشارکت کی جانب بڑھ رہے ہیں ان کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیئے کہ سب سے زیادہ مشترک عنصر یا وہ شرط کہ جس کے تحت مومنین اور پیروان اہل بیت (علیھم السلام) کو غیر عادل نظام میں شراکت کی اجازت ہے وہ مومنین کی خدمت اور مومنین کی مدد ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مومنین کی خدمت کا نعرہ تو ہو لیکن ساری عمر اپنی کوٹھیاں بنانے اور بینک بیلنس اکٹھے کرنے میں گذر جائے۔ 

آخر میں ہم غیر اسلامی نظام میں شراکت کے حوالے سے امام و رہبر کے فتاوی ذکر کر دیتے ہیں تاکہ موضوع زیادہ روشن ہو جائے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ اگر علمائے کرام کا سکوت ظالم کی تقویت کا باعث بنے یا اس کی تائید کا موجب ہو یا اس کا باقی محرمات انجام دینے کی جرائت کا باعث بنے تو واجب ہے حق کا اظہار اور باطل انکار اگرچہ فعلاً تاثیر نہ بھی رکھتا ہو (توضیح المسائل امام خمینی ، مسئلہ نمبر۲۷۹۵) اگر علمائے کرام کا سکوت اس بات کا باعث ہو کہ عوام ان کے بارے میں بدگمان ہو جائیں اور ان کو ظالم حکومت کا ساتھ دینے کی تہمت لگائیں تو واجب ہے کہ حق کا اظہار کریں اور باطل کا انکار، اگرچہ وہ جانتے ہوں کہ "محرَّم" کو روک نہیں سکتے اور ان کا اظہار ظلم کے ختم کرنے میں کوئی اثر نہیں رکھتا ۔( توضیح المسائل امام خمینی ، مسئلہ نمبر۲۷۹۶) اگر بعض علمائے کرام کا ظالم حکومت میں ورود اس بات کا باعث ہو کہ منکراتی مفاسد کی روک تھام کی جا سکے تو واجب ہے اس ذمہ داری کو قبول کیا جائے، مگر یہ کہ کوئی اہم مفسدہ اس پر مترتب ہو، مثل ان کے اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے لوگوں کے عقائد متزلزل ہوتے ہوں یا ان علما کا لوگوں کی نظر میں موجود اعتماد ضائع ہوتا ہو کہ اس صورت میں جائز نہیں ہے۔( توضیح المسائل امام خمینی ، مسئلہ نمبر۲۷۹۷) آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (مدظلہ العالی)۔ استفتآت (توضیح المسائل):س ۱۰۸۷: اگر علمائے کرام کا ظالمین اور سلاطین جور کے ساتھ رفت و آمد یا معاشرت ان کو ظلم سے منع کرنے کا باعث ہو تو آیا یہ کام جائز ہے یا نہیں؟ آپ جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر کسی عالم کیلئے ثابت ہو جائے کہ اس کا ظالم کے ساتھ رابطہ اس کے ظلم کے منع کا باعث ہو گا اور اس کی نہی از منکر موثر ہے یا کوئی مہم مسئلہ اس کے ظالم کے پاس جانے اور اس اہتمام کا سبب ہو تو (اس رابطہ رکھنے میں) مضائقہ نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 239231
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

آپ نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے روایات کا سہارا لیا اور ساتھ امام خمینی کا حوالہ دیا۔ اگر آپ کی بات درست ہو تو پھر امام خود کیوں پارلیمنٹ میں نہیں گئے، حتی مشروط کی راہ کو بھی اختیار نہیں کیا؟ امام نے کیوں انتخابی سیاست کو اختیار نہیں کیاَ؟
Iran, Islamic Republic of
عصر حاضر کی سیاست کو امام خمینی آپ سے زیادہ سمجھتے تھے اور امام کو ان روایتوں کا آپ سے زیادہ علم تھا۔اس کے باوجودامام خود پارلیمنٹ میں نہیں گئے، حتی مشروط کی راہ کو بھی اختیار نہیں کیا۔ امام نے انتخابی سیاست کو بھی اختیار نہیں کیاَ۔روایتیں جوڑ لینے سے مغالطہ اور پروپیگنڈہ تو کیا جاسکتا ہے، لیکن حقیقت کا رستہ نہیں روکا جاسکتا۔
سلام آغا صاحب، اچھا کالم تھا مگر کچھ اور بھی سوال ہیں، مثلاّ جب لوگ اسبلی میں چلے جائیں گے تو کیا وہ ہیڈ اف اسٹیٹ کو ووٹ دینگے، یا پوری اسمبلی کو ہیڈ آف اسٹیٹ کو منتخب کرنے کی کوشش کرنے سے روکیں گے؟ کیونکہ ایک اسلامی ریاست کا ہیڈ تو صرف نبی، امام یا مجتہد عادل ہوسکتا ہے، اب باتقویٰ لوگ کم ہوں یا زیادہ ان کے پاس کیا راستہ ہوگا؟ آپ یہ بات ابھی سے سب پارٹیز کو اور عوام کو بتا کر انھیں ایجوکیٹ کریں، تاکہ ہر کوئی اسلامی طریقہ کار سے واقف ہوجائے اور اگر کوئی اور راہ حل ہے تو وہ بھی ابھی عوام سے شیر کر دیں۔ شکریہ
imam khomaiyny parlimant main nahin gaiy lakin ayt mudariis jaisay afrad ki himayat kee. agar imam ka parlimant main na jana aap ki daliil haiy to Hazrat Ali ibn yaqteen ko bhi ghalat kahain jo hakoomat main shamil huai, jab ka imam musa kazim a.s iss hakoomat main shamil nahin thaiy. bhi baat smajhnay ki haiy ka moomneen kay faiday ka lia hakmoot main shamil hua ja sakta hay balkay baaz aowqat wajib bhi haiy. shaheed muthahry inqilab say pahlay iran ki unversties main lecture daytay thay lakin imam khumainy nahin daiytay thay. imam khumaiyny bahut say kamm nahin kartaiy tha lakin un say manna bhi nahin kia. abb wo tmam kam ham choor dain. zara fikr karian bhi jan
Iran, Islamic Republic of
امام خمینی نے آیت اللہ مدرس کے مشن کو آگے بڑھایا، آپ دوبارہ پھر سے لوگوں کو آیت اللہ مدرس سے بھی پرانے زمانے میں لے جاکر بادشاہت کے قدموں میں بٹھانا چاہتے ہیں۔
Iran, Islamic Republic of
علی ابن یقطین کو معصوم نے براہ راست نصب کیا تھا۔ علی بن یقطین الیکش لڑ کر نہیں گے تھے۔ اب بھی اگر کوئی مخلص ہوکر گمنامی کے ساتھ کسی پوسٹ پر شیعوں کی خدمت کرتا ہے تو ہم سب کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔
چھپ کر ظالموں سے مظلوموں کا دفاع کرنا اور بات ہے جبکہ سیاسی طور پر ظالموں کو مضبوط کرنا اور ان کی گود میں بیٹھنا یہ دوسری بات ہے۔
مغالطہ ممنوع ہے۔ سب نے خدا کو جواب دینا ہے۔
اپنے عزیز دوستوں کو ایک نکتہ کی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ آیا ہم لوگ امام خمینی سے پہلے والے حالات میں زندگی کر رہے ہیں یعینی ہمارے پاکستان کے حالات مشروطہ والے ہیں یا امام خمینی والے ہمیں پاکستان کے معروضی خیالات کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ اس پاکستان میں تمام تکفیری گروہ آپ لوگوں کے خلاف الائنس بنائے بیٹھے ہیں، دشمن ہر طرح سے آپ کو کچلنے کے لیے تیار ہے۔ کیا ایسے میں آپ کو قدرت اختیار کرنا چاہیئے یا نہیں، حداقل آپ کی آواز لوگوں تک اور قومی دھارے میں ہونی چاہیئے یا نہیں !!!
ہماری پیشکش