0
Thursday 14 Feb 2013 13:38

حقیقی انقلاب

حقیقی انقلاب
تحریر: سید رضا نقوی 

ایک سچے انقلاب کی تعریف مقصود ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ حقیقی انقلاب وہی ہے جس میں کسی معاشرہ کے تمام امور بنیادی طور پر انقلاب کے مقاصد کی طرف اس طرح تیزی کے ساتھ حرکت کریں کہ انکا اصل محور اور معیار، انقلاب کا بنیادی نقطہ نظر اور نظریہ ہو۔ تمام جدوجہد چاہے وہ فردی ہو یا اجتماعی، علمی ہو یا صنعتی، سیاسی ہو یا قانونی، رفاہ عامہ کی غرض سے ہو یا خدمت خلق کے جذبے کے تحت، ان سب کا اصل پیمانہ اور میزان وہی نقطہ نظر ہو، جس کے لئے انقلاب برپا ہوا ہے۔ ہر عمل و حرکت ۔۔۔۔۔سکوت و گفتگو، تیزی و سستی، اجتماع و افتراق، دوستی و دشمنی، صلح و جنگ، تعریف و تنقید، تعمیر و تخریب، انقلاب کے اصل ہدف و مقصد تک رسائی حاصل کرنے کی غرض سے ہی ہونا چاہئے۔
 
یہی وہ جذبہ ہے جو انفرادی کوششوں کو اجتماعی کوشش میں تبدیل کر دیتا ہے اور ان کوششوں کا پھل کسی خاص فرد تک مخصوص ہونے کے بجائے پورے معاشرے کو ملتا ہے۔ نظریہ انقلاب گویا قبلے کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے اور ایسے انقلابی معاشرے میں تمام افراد ایک ہی مقصد و ہدف کیلئے کام کرتے ہیں، انانیت و خودپسندی کا نام و نشان نہیں ملتا، تضاد و اختلاف، جنگ و نزع، رقابت و حسد، فریب و ریاکاری، جھوٹ و بہتان طرازی جیسے الفاظ اپنے معنی کھو دیتے ہیں اور اتحاد و ہم آہنگی، محبت و آتشی، تعاون و ہمدردی، خلوص اور نیک نیتی کے جلوے اپنی اصل آب و تاب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ زبانیں مختلف مگر بات ایک، قلم بے شمار لیکن تحریر یکساں، اذہان بے شمار لیکن فکر ایک، قلب میں امنگیں انگنت لیکن دھڑکن یکساں۔۔۔۔۔اسے کہتے ہیں حقیقی انقلاب۔

دنیا میں رونما ہونے والے مختلف انقلابات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یقیناً وہ انقلابات جو انبیائے الہی کی ذریعے رونما ہوئے، عمیق ترین اور شاندار ترین انقلاب کہے جانے کے مستحق قرار پائیں گے اور انہی انقلابات کے گہرے نقوش ہمیں معاشرے پر بھی ملیں گے۔ تمام اولوالعزم پیغمبر ایک مستقل انقلابی منشور کے حامل نظر آتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر سب کے سب ایک ہی ہدف و مقصد کے داعی اور علمبردار رہے ہیں۔ آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام کے تمام رہبران انقلاب گویا ایک ہی زنجیر سے منسلک رہے ہیں اور ان سب کے انقلاب کا محور اسلام اور عقیدہ توحید رہا ہے۔ بھلا وہ کونسا انقلاب ہوسکتا ہے جو اسلام و شریعت پر مبنی انقلاب سے زیادہ جامع اور ہمہ گیر انقلاب ہو۔

جہاں انقلاب کے ان تینوں عناصر پر نظر نہیں ہوتی اور انقلاب محض بشری اغراض و مقاصد، وقتی جوش و خروش یا وقت اور ماحول کے عمل در عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پہلے جہاں ایک قوم، طبقہ اور حالات اور ماحول کا شکار رہے ہوں، انقلاب کے بعد دوسری قوم اور دوسرے افراد انکی جگہ لے لیں، پہلے جس معاشرے میں سماجی و اقتصادی بدحالی رہی ہو، وہاں اب اخلاقی و مذہبی بدحالی پھیلنا شروع ہو جائے اور اہل مذہب کا استحصال ہونے کے بجائے خود مذہب کا استحصال ہونے لگے، انفرادی غلامی سے نکل کر اجتماعی غلامی کی زنجیریں پہن لیں، غریبوں اور کمزوروں کا حق شخصی ملکیت سے نکال کر قومی پلیٹ فارم سے مخصوص افراد میں تقسیم و نیلام کر دیا جائے اور بہتر سے بہتر کی طرف بڑھنے کے فطری رحجان کو مشترکہ منافع کی جاذب نظر تلوار سے کاٹ کر انسان کے جذبہ عمل کو ناکارہ کر دیا جائے۔۔۔ایسا انقلاب حقیقی انقلاب نہیں ہوسکتا۔

اسکے علاوہ کوئی بھی تحریک اور انقلاب کتنا ہی اچھا اور ہمہ گیر کیوں نہ ہو، اگر اپنے اصل مقصد و ہدف سے منحرف ہوجائے تو بے وقت ہو کر رہ جاتا ہے۔ تاریخ جدید کے عالمی ورق پر ابھرنے والے انقلابات یقیناً اپنی انہی بنیادی کمزوریوں کا شکار ہوئے اور اصولاً ہونا بھی چاہئے، کیونکہ جب تک ایک ہمہ گیر نقطہ نظر نہ ہو، انقلاب اپنے ہدف و مقصد تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا، ہمہ گیر انقلاب کیلئے ہمہ گیر نقطہ نظر بھی ضروری ہے، اسی لئے اسلام نے اپنے انقلاب کا اصل محور عقیدہ توحید کو قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران 34 سال کے طویل عرصے سے مشکل و دشوار ترین راستوں سے گزرتا اپنی منزل کی جانب پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے ۔۔۔۔۔ نہ جوش میں فرق ہے اور نہ ہی سوچ میں۔ ہدف ایک ہے، مقصد ایک ہے۔

جب انقلاب ہمہ گیر ہو اور اسکی بنیاد عقیدہ توحید پر ہو تو مشکلات کی پرواہ کیے بغیر عوام آگے بڑھتے رہتے ہیں اور انکے قدموں میں لرزش پیدا نہیں ہوتی، بلکہ ہر آنے والی مشکل انکی استقامت میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ ایک طرف عقیدہ توحید اور دوسری طرف حکومت قائم (عج) کیلئے زمینہ کی ہمواری نے اس انقلاب کو ہمہ گیر بنا دیا۔ جو ہر روز یہ سوچ کر صبح کرتے تھے کہ بس آج شاید انقلاب اسلامی کا آخری دن ہوگا، وہ مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ ظہور امام زمانہ (عج) کیلئے زمینہ کی ہمواری قوم کو قوت و توانائی عطا کرتی ہے۔ امام خمینی (رہ) نے انقلاب اسلامی کو ظہور امام زمان (عج) کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا:
’’آئمہ معصومین علیھم السلام اور امام زمانہ (عج) کے اس ملک کو ایسا ہونا چاہئے کہ آنحضرت کے ظہور تک اپنے استقلال کو قائم رکھے اور اپنی تمام طاقت کو امام (ع) کی خدمت کیلئے قرار دے، جو اس جہاں کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور مستضعفین پر ہونے پر ظلم و ستم کا خاتمہ کریں گے۔ (صحیفہ نور، ج۱۴، ص۱۹۵)‘‘

ایک اور جگہ فرماتے ہیں: 
"ہم اللہ تعالٰی کے لطف و کرم سے تمام اسلامی ممالک سے ظالموں کے ظلم و ستم کا قلع قمع کریں گے اور اپنے انقلاب (جو درحقیقت احکام محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کو بیان کرنے والا سچا انقلاب ہے) کو صادر کرکے ان ظالموں کے تسلط کا خاتمہ کریں گے اور اللہ تعالٰی کی مدد سے مصلح کل امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے لئے میدان ہموار کریں گے۔" (صحیفہ نور، ج۲۰،ص۱۳۲)
تو اب ہم اسلامی بیداری کو حالات و واقعات کا پیش خیمہ ہی سمجھتے رہیں گے یا اس بات پر قانع ہوجائیں گے کہ اسلامی بیدری دراصل اسی ہمہ گیر انقلاب اسلامی کی بدولت ہے اور اس انقلاب اسلامی کی کرنیں جہاں جہاں پڑ رہی ہیں، وہاں وہاں روشنی پھیلاتی جا رہی ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی رہبر معظم حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے بھی فرمایا ہے: ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح اس انقلاب کے ذریعے امام عصر علیہ السلام کا ظہور ایک قدم نزدیک ہوا ہے، اسی انقلاب کے ذریعے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہونا چاہئے، یعنی یہی انقلاب کرنے والے لوگ ہی اپنے اقدامات کے ذریعے اس انقلاب کو امام زمانہ علیہ السلام کے انقلاب سے متصل کرسکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی ان دونوں انقلاب کے باہمی واسطے کے بارے میں فرماتے ہیں: امام زمانہ علیہ السلام جس مقصد اور ہدف کے لئے ظہور کریں گے، ہمارا انقلاب اس ہدف کے راستے کا ایک عظیم اور لازمی آغاز ہے ۔۔۔۔‘‘
خبر کا کوڈ : 239575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش