0
Thursday 28 Feb 2013 23:51

ایران گیس پائپ لائن پر امریکی برہمی

ایران گیس پائپ لائن پر امریکی برہمی
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم
 
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ 1979ء سے 1989ء تک جب پاکستان سویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کیلئے امریکہ کے ساتھ کھڑا رہا تو سویت انخلا کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان پر یہ کہہ کر پریسلر ترمیم لاگو کر دی کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت بننے کیلئے ضروری حد عبور کرچکا ہے۔ اب 9/11 کے بعد جب امریکہ افغانستان میں بے مقصد جنگ کے لئے کود پڑا تو پاکستان کے ارباب اختیار نے اپنی کرسیاں اور اقتدار کے تحفظ کے لئے ملکی مفادات داؤ پر لگا دیئے۔ دوست ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات میں صرف یوٹرن ہی نہیں لیا بلکہ سارے سفارتی اداب کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان کے پاکستان میں تعینات سفیر ملا ضعیف کو غیر قانونی طور پر بے عزت کرکے امریکہ کے حوالے بھی کر دیا۔ اپنے ہوائی اڈے، زمینی راستے اور بندرگاہوں کی سہولیات بھی فرعون قوت کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔ اس کے صلے میں پاکستان کو کیا ملا؟ ہمارے 40000 بے گناہ پاکستانی بھائی شہید کر دئیے گئے۔ ان میں سے 5000 فوجی تھے، جن میں سے کچھ کی تو گردنوں پر چھریاں بھی چلائی گئیں۔ ڈرون حملوں نے اتنی تباہی مچائی کہ خود امریکی دانشور اس انسانی حقوق کی پامالی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر چیخ اٹھے۔ 

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر گیری ڈی سولس نے کہا
"CIA Civilians, planning drone attacks, are unlawful combatants directly engaged in conflict. They need to be prosecuted."
یعنی سی آئی اے کے کارندے غیر فوجی ڈرون حملے کرکے مروجہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ان پر مقدمات چلنے چاہئیں۔
امریکی سفارت کار کے بھیس میں ریمنڈ ڈیوس جیسے بھیڑئے کی دہشتگردی سب کے ذہن میں تازہ ہے۔ پھر سلالہ پر براہ راست حملہ اور ہمارے 25 فوجی نوجوانوں کی شہادت ہوئی۔ ایبٹ آباد پر حملہ جو دراصل پاکستانی ریاست، حکومت اور عسکری قیادت کے وقار پر بدقسمتی سے ایک اتحادی کا حملہ تھا، نے امریکہ کو ننگا کر دیا، اور اب جب کہ امریکہ افغانستان میں شکست کھا کر واپس جانے پر مجبور ہے تو امریکی حکومت نے پریسلر ترمیم کی طرح کی پاکستان پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دینی شروع کردی ہیں۔ 

اب تازہ بہانہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا ہے، جو پاکستان کے معاشی ڈھانچے کی لائف لائن ہوگی۔ ایران ہمارا پڑوسی مسلمان ملک ہے، جس کے پاس گیس کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ پاکستان کا آج سب سے بڑا مسئلہ بھی انرجی کا بحران ہی ہے تو ہم ایران سے گیس کیوں نہ لیں؟ امریکہ نے ہندوستان کے ساتھ ایٹمی پلانٹ لگانے کا معاہدہ کیا، جو پُرامن مقاصد کے لئے بتایا گیا لیکن ہمارے اتحادی نے ہماری انرجی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا۔ پھر ہیلری کلنٹن نے ہمارے تھرمل پلانٹس کو Optimize کرنے کی بات کی، لیکن وہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اب اگر صدر آصف علی زرداری واقعی سنجیدگی کے ساتھ چین کو گوادر بندرگاہ دینے اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک قابل تعریف عمل ہے۔ پاکستانی قوم توقع کرتی ہے کہ اگر زرداری صاحب کے ان جرات مندانہ اقدامات کے پیچھے کوئی نئی ہیرا پھیری نہیں تو یہ واقعی ایک احسن قدم ہے، لیکن سوچنا یہ ہے کہ یہ اقدام پانچ سال کے دور حکومت کے اختتام پر کیوں اٹھائے گئے۔ اب تک تو گوادر بندر گاہ Operational ہونی چاہئے تھی اور ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن بچھ جانی چاہئے تھی۔ 

بہرحال دیر آید درست آید۔ اس لئے ہم اس کو قابل قبول سمجھتے ہیں، لیکن اب امید کی جاتی ہے کہ دو ہفتوں کے بعد قائم ہونے والی عبوری اور انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی مستقل حکومتیں بھی ان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ رہیں گی اور امریکی دباؤ کے آگے سرنگوں نہیں ہونگی۔ آج Rule of Law کے بعد انرجی کا قحط پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس کے لئے فوری اقدامات کرنے چاہیں، جن میں انرجی کی چوری اور لائن Losses کو روکنا، تھرمل پلانٹس کی حا لت کو بہتر کرنا، Wind اور سولر انرجی کی حوصلہ افزائی، ایران سے گیس پائپ لائن کو فوری ممکن بنانا، بھاشا ڈیم پر ایمرجنسی بنیادوں پر کام مکمل کروانا اور مزید یہ کہ نئے چھوٹے بڑے ڈیم بنوانا شامل ہے۔ 

کالا باغ ڈیم پر ایک قومی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، جس کو ملکی اور بین الاقوامی تکنیکی پیشہ ور ماہرین مکمل بریف کریں۔ اس کے بعد یہ کمیشن قرآن کریم پر حلف لے کر یہ فیصلہ کرے کہ کیا یہ ڈیم تکنیکی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کے لئے مفید ہے یا نہیں اور کیا اس کی مخالفت کرنے والے صرف اپنے محدود سیاسی مفادات اور صوبائی تعصب کو ہوا دینے کے لئے غلط بیانی کر رہے ہیں، یا وہ حق پر ہیں اور کیا درست ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ پانی میں ڈوب جائے گا اور صوبہ سندھ بنجر بن جائے گا۔ کیا یہ ڈیم واقعی صرف صوبہ پنجاب کو فائدہ دے گا یا یہ پورے پاکستان کے لئے مفید ہے۔
 
جوڈیشل کمیشن کے اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد اگر کالا باغ ڈیم کے خلاف واویلا کرنے والوں کے اعتراضات جائز ثابت ہوں تو اس منصوبے کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے۔ لیکن اگر اس منصوبے پر اعتراضات کرنے والوں کی بددیانتی ثابت ہو جائے تو پھر ان کے خلاف ذاتی سیاسی مفادات کے حصول کے لئے قومی مفادات سے غداری کرنے کے الزام میں مقدمات چلنے چاہیں اور عدالتیں ان کو ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے سیاست سے ہمیشہ کے لئے نکال دیں۔ اس کے علاوہ آئیں میں ترمیم کرکے یہ یقینی بنایا جائے کہ آئندہ کبھی بھی مفاد پرست معاشی نوعیت کے منصوبوں پر اپنی گٹھیا سیاست نہ چمکا سکیں۔
خبر کا کوڈ : 243208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش