0
Sunday 5 Apr 2009 11:09

آئی ایس آئی.... امریکی تنقید کے نشانے پر

آئی ایس آئی.... امریکی تنقید کے نشانے پر
 پاکستان آج مختلف محاذوں پر عالمی دباو میں آیا ہوا ہے۔آئی ایس آئی کے ادارے پر بطور خاص اغیار کی توجہ مرکوز ہے۔امریکی پریس اور امریکی ارباب اختیار نے بطورِ خاص اس ادارے کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اور اسے تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھیرایا جارہا ہی۔ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی ”آئی ایس آئی“ جنوبی افغانستان میں جاری طالبان کی جنگی کارروائیوں کی مدد کر رہی ہے۔ساتھ ہی امریکی صدر اوباما کی جانب سے افغانستان کے لیے نامزد امریکی سفیر جنرل کارل نے بھی اسی قسم کا الزام عائد کیا ہے۔جنرل موصوف کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کی جانب سے طالبان اور دوسری عسکریت پسند تنظیموں کو امداد فراہم کرنے کے قوی شواہد موجود ہیں۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ امریکی ارباب ِ اختیار اور امریکی میڈیا کی یہ دیرینہ آرزو ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے خلاف دشنام طرازی کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی ایک ایسے ادارے کا نام ہے جو وطنِ عزیز کی سلامتی کے لیے ہمہ وقت کوشاں دکھائی دیتا ہے اور امریکا‘ بھارت اور دوسرے پاکستان دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں کا فوری تدارک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔آئی ایس آئی کا یہ فعال کردار ہمارے بدخواہوں کو کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔کچھ عرصہ قبل ہمارے بدخواہوں نے یہ بے پرکی اڑا دی تھی کہ حکومت نے آئی ایس آئی کے بال و پر نوچنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اس سوچ کی تشہیر کرنے میں امریکی دباو کا تذکرہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ بعد ازاں ممبئی حملوں کا ملبہ بھی آئی ایس آئی پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔اس ضمن میں نیویارک ٹائمز کی آئی ایس آئی سے متعلق رپورٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دیتی ہے۔تسلیم کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے آئی ایس آئی سے متعلق نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کو محض سنسنی خیزی قرار دے کر نظرانداز کردیا تھا‘ تاہم رسمی ردعمل ظاہر کرنے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔حقیقت یہ ہے کہ ”نیویارک ٹائمز“ کی یہ رپورٹ پاکستان کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت ہے‘ لہٰذا اس کے خلاف حکومت کی جانب سے سخت احتجاج کیا جانا چاہیے۔ اس تناظر میں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ امریکا کی خفیہ ایجنسیوں از قسم ایف بی آئی اور سی آئی اے نے ہمارے ملک میں اپنے نیٹ ورک کا سلسلہ بہت وسیع کر رکھا ہے اور انہی کی رپورٹوں پر ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے پورے تسلسل کے ساتھ کیے جارہے ہیں‘ اور ان حملوں میں بے گناہ شہری لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے شہریوں کو اغوا کرکے گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں میں پہنچایا جارہا ہے۔یہ سب کچھ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں پر کیا جارہا ہے۔وطن عزیز کو گزند پہنچانے میں جو کسر رہ گئی ہے وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ پوری کرنے میں سرگرم عمل ہے‘ اس ایجنسی کے تربیت یافتہ افراد یہاں کئی بار گرفتار بھی ہوچکے ہیں تاہم تخریب کاری کی ان کارروائیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔مگر ستم یہ ہے کہ امریکی حکام اور میڈیا کو اپنی اور بھارتی ایجنسیوں کی کارروائیاں تو نظر نہیں آتیں مگر آئی ایس آئی کا وجود ان کے اعصاب پر کوہِ گراں بنا ہوا ہے اور اس ادارے نے پاکستان دشمن عناصر کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آئی ایس آئی کا وجود ہمارے قومی وقار کی ایک روشن علامت بن چکا ہے۔اس تناظر میں ہمارے ارباب اختیار پر لازم ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے حوالے سے کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہ کریں۔ اخبار ”نوائے وقت“ نے اپنے ایک ادارتی نوٹ (مطبوعہ 30 مارچ2009ئ) میں لکھا ہے کہ امریکا نے آئی ایس آئی پر دباو بڑھانے کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کی کارروائی مکمل کرلی ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک مولن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے بعض عناصر طالبان اور القاعدہ کی مدد کر رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے مائیک مولن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئی ایس آئی کو القاعدہ اور طالبان کی مدد سے روکنے کے لیے پاکستان پر دباو بڑھائیں گے۔ہمارے خیال میں ہالبروک کا یہ بیان ہمارے داخلی معاملات میں صریح طور پر مداخلت کے مترادف ہے اور ہمیں موصوف پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ پاک فوج اور آئی ایس آئی کا کام پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔امریکی عزائم کو عملی جامہ پہنانا نہیں۔ امریکا بہادر کی بے قراریوں کا جب ہم ذرا غور سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ امریکا کے مذموم عزائم میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی اور پاکستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دینا شامل ہے۔اور قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں سے بے گناہ انسانوں کی ہلاکتیں اور اب بلوچستان میں بمباری کے منصوبے بھی اسی سازش کی کڑیاں ہیں۔ اس ضمن میں بدیہی حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں آئی ایس آئی اور فو ج کے متعدد افراد شہید ہوچکے ہیں‘ اس کے باوجود امریکی اکابرین کو ہمارے کردار پر شبہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر آئی ایس آئی نے طالبان کا ساتھ دیا ہوتا تو امریکا افغانستان میں اتنے عرصے تک قدم نہ جما سکتا۔ آئی ایس آئی کو اپنے فرائض کا بہ خوبی علم ہے اور وہ انتہائی خوش اسلوبی سے وطنِ عزیز کی سلامتی کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ملکی مفادات کے حوالے سے اس تنظیم کا کردار انتہائی اہم اور قابل تحسین ہے۔رہی بات امریکی اکابرین کے تحفظات کی‘ تو اس ضمن میں ہمیں زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔استعماری قوتوں سے خیر کی توقع رکھنا کبھی سودمند ثابت نہیں ہوتا۔

خبر کا کوڈ : 2471
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش