0
Saturday 1 May 2010 14:07

سید حسن نصراللہ مجاہدین کا فخر

سید حسن نصراللہ مجاہدین کا فخر
 آر اے سید
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے مصر کی عدالت کی جانب سے حزب اللہ کے مجاہدین پر غزہ پٹی میں استقامت کی مدد کرنے کے الزام کو قابل فخر قرار دیا ہے۔سید حسن نصراللہ نے مصر ميں کچہ مجاہدین پر غزہ پٹی کی استقامتی فورسز کی مدد کرنے کےالزام کو سیاسی اور ظالمانہ قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ مصری عدالت کے جج کا یہ فیصلہ سفید جھوٹ ہے،جس میں اس نے مجاہدین کو قانون شکن،مجرم اور دہشتگرد کہا ہے۔سید حسن نصراللہ نے تاکید کے ساتھ کہا کہ ان مجاہدین کا گناہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے ملت فلسطین کی جائز جدوجہد میں ان کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھایا ہے۔حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ یہ ہمارے لئے باعث فخر ہے کہ تمام عرب اور اسلامی اقوام جان لیں کہ ہم الہی احکامات کے مطابق اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بہ شانہ رہیں گے۔
مصر کی عدلیہ نے ایک فیصلے میں چھبیس افراد کو جن میں کچہ کا تعلق حزب اللہ سے ہے،غزہ پٹی میں فلسطینی مجاہدین کی حمایت اور مدد کرنے کے الزام میں چھ ماہ سے پچیس سال تک کی قید کی سزا سنائی ہے جبکہ چار افراد کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔مصر کی اسرائیل نوازی کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہی،تاہم غزہ پر صہیونی جارحیت کے بعد اس میں کافی شدت دیکھنے میں آئی، چنانچہ اس مظلوم اور بے دفاع شہر کے محاصرے کے لئے حکومت مصر نے جو قدم اٹھائے ہیں ان کے پیش نظر حزب اللہ کے جوانوں کے خلاف حکومت مصر کا عدالتی فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔
اطلاعات کے مطابق غزہ کے مظلوم اور نہتے بچوں عورتوں اور بوڑھوں کی مدد و حمایت مصر کی نظر میں اتنا سنگین جرم ہے اس کی پاداش میں متعدد افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے اور اگر اس کا بس چلتا تو بعید نہیں تھا کہ وہ سب کو شوٹ کر دیتی۔غزہ پر حملے اور حالیہ محاصرے کے حوالے سے بڑی طاقتوں کا منفی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔آج بھی صیہونیوں نے غزہ کے مسلمانوں کا محاصرہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے غزہ کے باشندے انتہائی کسمپرسی کی زندگي گزارنے پر مجبور ہیں۔فلسطین کے مرکز اطلاعات اور عرب اخبارات کےمطابق غزہ کی پٹی پر بسنے والے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگي بسر کر رہے ہیں، 40 فیصد کے پاس کوئی روزگار نہیں۔3500 ورکشاپ، فیکٹریاں اور کمپنیاں بند ہو چکی ہیں۔10 لاکھ فلسطینی زندہ در گور ہیں۔50 فیصد بچے غیر معیاری خوراک،ادویہ اور انسانی امداد کی قلت کی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہیں۔پانی کا 90 فیصد حصہ پینے کے قابل نہیں۔50 فیصد رہائیشیوں کے لئے ہفتے میں تین دن سے زيادہ پینے کا پانی بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ایک دن میں کم سے کم بجلی کی بندش 8 گھنٹے ہوتی ہے۔یہاں کے تعلیمی نظام کی صورتحال انتہائي مخدوش ہے۔قابض قوتوں نے تعلیمی عمل کے تسلسل کے لئے ضروری تعمیرات، اسٹیشنری کی فراہمی پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے۔اس شعبے میں بہت سے اہم پروجیکٹس صیہونی قوتوں کے محاصرے کی وجہ سے مکمل طور پر کھٹائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ 
غزہ کے محاصرے کے خلاف شدید احتجاج کرنے والی عوامی کمیٹی کے صدر" جمال خضرمی" کا کہنا درست ہے : اسرائیل کی حمایت تو امریکا،برطانیہ سمیت کئی طاقت ور ممالک ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں،لیکن فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں 58 اسلامی ممالک خصوصا" عربوں کی طرف سے جاندار آواز اٹھائی جا رہی اور نہ ہی سفارتی سطح پر کوئی مؤثر تحریک نظر آتی ہے۔واضح رہے کہ امریکہ حماس کو ختم کرنے کے لئے مصر کو سالانہ اربوں کی ڈالر کی مدد دے رہا ہے۔
اس سے قبل اطلاعات ملی تھیں کہ مصر نے غزہ سرحد پر کیمرے اور حساس آلات نصب کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔مصری حکومت یہ کام امریکی فرانسیسی اور جرمن ماہرین کی مدد سے کر رہی ہے اور اس کے لئے امریکی حکومت نے کروڑوں ڈالرمصری حکومت کو دیئے ہیں۔ان کیمروں کو رفح کے جنوب سے بحیرہ روم کے ساحل تک کے طویل علاقے پر نصب کیا جا رہا ہے،جس کا مقصد غزہ میں محصور فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ہے۔امریکہ اور اسرائیل کا شیطانی گٹھ جوڑ نہ صرف فلسطین کو تیزي سے نگلنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ تمام اسلامی ممالک پر تسلط اور امت مسلمہ کی بربادی صیہونی پروٹوکولز میں شامل ہے۔
صیہونی پروٹوکول کے مطابق صیہونی ریاست کو منی اسرائیل سے گریٹر اسرائیل میں تبدیل کرنا ہے۔ غاصب اسرائیلی حکومت کے قومی پرچم پر اگر غور کیا جائے تو اس پر دو نیلی پٹیاں اسرائیل کی حدود اور ان دو پٹیوں کے درمیاں ستارہ داؤدی عظیم تر اسرائیل کی علامت ظاہر کرتا ہے۔صیہونی ریاست کے قیام سے لیکر آج تک صیہونی سازشوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت امریکی اور برطانوی حمایت اور خطیر یہودی سرمائے کے بل بوتے پر اپنے دیرینہ استعماری اور سامراجی عزائم کی طرف تیزي سے بڑھ رہی ہے۔
نومبر 1948ء میں غاصب صیہونی ریاست کا کل رقبہ سات ہزار نو سو ترانوے مربع کلومیٹر تھا جس میں جون 1967ء کی جنگ کے بعد ستائیس ہزار مربع کلومیٹر کا فوری اضافہ ہو گیا۔اسرائیل گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل نئی صیہونی بستیاں تعمیر کر رہا ہے۔غزہ،غرب اردن،قدس شہر سمیت کئی علاقوں میں تعمیر کردہ نئی رہائشی کالونیاں بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کی کھلی ورزی شمار ہوتی ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق غاصب اسرائیل کو نئی بستیاں قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گزشتہ سال جب امریکی صدر باراک اوباما نے مشرق وسطی کا دورہ کیا تھا تو اس وقت امریکی صدر نے کہا تھا کہ اسرائیل یہودی مکانات کی تعمیر کا سلسلہ فوری طور پر روک دے کیونکہ ان بستیوں کی تعمیر سے قیام امن کے منصوبوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔امریکی حکام نے باراک اوباما کے اس بیان کے بعد بھی عالمی رائے عامہ پر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی اور نئی تعمیرات کی مخالف کی،بلکہ اسی درمیاں امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کے تعلقات میں خودساختہ کشیدگي کو بھی ہوا دی گئی۔کون نہیں جانتا کہ امریکی مدد اور حمایت کے بغیر غاصب اسرائیلی حکومت دو قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔اسرائيل کی پشت پر چونکہ عالمی طاقتیں ہیں اور یہ تمام طاغوتی طاقتیں گریٹر اسرائیل کی حامی ہیں۔بہرحال غزہ کے مظلوم شہریوں کی حمایت حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے بقول مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہے اور سزائیں دیکر لوگوں کو اس کام سے نہیں روکا جا سکتا۔
خبر کا کوڈ : 24846
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش