0
Sunday 31 Mar 2013 17:31

صاف شفاف انتخابات، الیکشن کمیشن کا امتحان

صاف شفاف انتخابات، الیکشن کمیشن کا امتحان
تحریر: ناظر بھٹی

پاکستان میں عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ کاغذات نامزدگی کے بعد ان کی جانچ پڑتال میں دوہری شہریت اور جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل ہونے والوں کے ساتھ ساتھ یوٹیلٹی بل جمع نہ کروانے والے امیدواروں کو بھی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فوج کی چھتری کے بغیر جمہوری نظام کے پانچ سال مکمل ہونے کا کریڈٹ جہاں صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو جاتا ہے، وہیں جس طرح متحرک میڈیا دیکھا گیا ہے۔ اس میں یقینی طور لوگوں کی نظام حکومت میں شمولیت اور خود اعتمادی میں بہتری آئی ہے اور اسے قابل تحسین کہا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے تمام اداروں نے کمر کس لی ہے کہ اگر میاں نواز شریف نے غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ نہ دے کر جمہوریت کے تسلسل میں اپنا حصہ ڈالا ہے، تو وہیں قومی شناختی کارڈ اور ووٹرز لسٹیں بنانے کے ادارہ نادرا، قومی احتساب بیورو (نیب)، الیکشن کمشن اور عدلیہ نے بھی تعاون کیا ہے، جو کہ من حیث القوم ترقی کی طرف ایک قدم ہے، کبھی ووٹرز کی تعداد اتنی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ٹرن آوٹ اتنا اچھا ہوتا تھا۔ 

پارلیمنٹ کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے سے لوگوں کا جمہوری نظام پر اعتماد بڑھا ہے کہ اب ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا جا رہا ہے اور پارلیمان کو مدت پوری کرنے دی گئی ہے۔ دوسرا یہ کہ پہلے تو وہ ووٹ کسی اور کو ڈالتے تھے اور نکلتے کسی اور کے حق میں تھے۔ آج پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو جہاں تحریک انصاف سے خطرہ ہے، وہیں ایم کیو ایم مینڈیٹ کا بھی پول کھول رہا ہے کہ کسے پولنگ اشٹشوں پر خوف کا عالم طاری کرکے لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے اور ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق میں بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کی طرف سے دولت کی نمائش اور اسلحے کے زور پر ووٹرز کو متاثر کرنے اور خوف زدہ کرنے کا عمل کسی حد تک روک گیا ہے۔ کسی کمزور امیدوار کو اسلحے کے زور پر ڈرایا دھمکایا جاتا تھا تو کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا تھا، مگر آج اتنی بڑی تعداد میں نجی ٹی وی چینلز نے کام آسان بنا دیا ہے۔ جس سے آہستہ آہستہ گھٹن کا ماحول ختم ہو رہا ہے اور پاکستانی معاشرے میں  openness آرہی ہے۔ 

پاکستان کی 19 کروڑ آبادی میں سے تقریباً 9 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، جو اٹھارہ سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں۔ ان کے شناختی کارڈز بن چکے ہیں اور وہ نادرہ کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ رجسٹرڈ ووٹوں میں سے ایک کروڑ تو ووٹرز کی وہ تعداد ہے جو کہ تمام مراحل سے گذر کر صاف شفاف ہوچکے ہیں اور اس میں عدلیہ کا بڑا اہم کردار ہے کہ سپریم کورٹ نے بوگس ووٹوں کے اندراج کو حذف کروایا، جن پر کئی جماعتیں بڑی دیر سے جیتتی آ رہی تھیں۔

اب گیارہ مئی کو جب انتخابی میدان لگے گا تو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو اندازہ ہوگا کہ اس کا کتنا ووٹ بینک ہے۔ پتہ چلے گا کہ لاہور کس جماعت کا قلعہ ہے، البتہ کراچی میں ایم کیو ایم کو سیاسی طور پر اتنے خطرے کا سامنا نہیں جتنا کہ نون لیگ کو لاہور میں تحریک انصاف سے ہے۔ تحریک انصاف لاہور کی موثر سیاسی حقیقت ہے کہ انتخابات کا ماحول بھی نظر آ رہا ہے اور میدان بھی نظر آ رہا ہے اور میدان بھی سب کے لیے کھلا ہے۔ قوم کس کو اپنا حکمران بنانا چاہتی ہے، اس کا اندازہ ان اتنخابات میں ہو جائے گا، اور انتخابات میں کئی ابہام بھی دور کریں گے۔ کئی بلیک میلرز سے جان چھوٹے گی اور امید ہے کہ پاکستان صیح جمہوریت کے سفر پر چل پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 250286
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش