QR CodeQR Code

طاغوت کا عملی انکار

3 Apr 2013 11:51

اسلام ٹائمز: فی الوقت انتخابات میں حصہ لے کر قوم کو سیاسی طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ انتخابات کے بائیکات کی۔ موجودہ حالات میں انتخابات کا بائیکاٹ سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا اور شیعہ قوم کی عقب نشینی سے تکفیری اور استعماری ایجنٹ مضبوط ہوں گے اور شیعہ قوم کمزور۔ تکفیریوں کی مضبوطی اور شیعہ قوم کی کمزوری یقیناً طاغوت کی ایک بڑی فتح ہوگی نہ کہ شکست۔ لیکن باشعور شیعہ قوم ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی۔ انشاءاللہ پاکستان کی شیعہ قوم علم حضرت عباس علمدار (ع) کے سائے تلے اکٹھے ہو کر طاغوتی سازشوں کو ہر موڑ پر ناکام کرتے ہوئے اس کے تمام خواب خاک میں ملا دے گی اور طاغوت کا عملی میدان میں انکار کرے گی۔


 تحریر: عون علوی
aownalavi@yahoo.com

اس وقت وطن عزیز میں انتخابات کی گہما گہمی ہے۔ سیاسی دنگل ایک دفعہ پھر سج رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مگن ہیں۔ نئی نئی سیاسی جماعتیں اور طرح طرح کے اتحاد معرض وجود میں آرہے ہیں۔ دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملت جعفریہ پاکستان کی دو جماعتیں بھی میدان سیاست میں اتر چکی ہیں۔ تاہم بعض قد آور علمی و دینی شخصیات کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان کا رائج نظام طاغوتی ہے، لہذا اس میں شمولیت جائز نہیں ہے اور ملت جعفریہ کو انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ قوم کے پیر و جوان اسی الجھن میں گرفتار ہیں کہ آیا انتخابات میں حصہ لیں یا نہ لیں؟ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کا صحیح علمی حل پیش کرکے ملت کے جوانوں کو مخمصے سے نکالا جائے۔

قرآن مجید اور احادیث معصومین (ع) پر گہری نگاہ رکھنے والے علمائے دین کی ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ اسلام میں حاکمیت کا حق صرف اور صرف قادر مطلق کی ذات والا کو ہی حاصل ہے۔ حق ولایت و حکومت صرف اور صرف اللہ ہی کے شایان شان ہے۔ اللہ کے بعد یہ حق انبیاء و آئمہ علیہم السلام کو حاصل ہے۔ مہدی برحق (عج) کی غیبت کے زمانے میں حکومت و ولایت کا بار گران مجتہدین عظام کے کندھوں پر آگیا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق انبیاء (ع)، آئمہ (ع) اور مجتہدین کی حکومت کے سوا تمام حکومتیں طاغوتی ہیں۔ علماء نے حاکم کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں: حاکم عادل اور حاکم جائر۔ پیغمبر گرامی اسلام (ص) کے بعد اسلام میں حاکم عادل کا مصداق صرف اور صرف آئمہ اہلبیت (ع) اور فقہاء ہیں۔ ان کے سوا مسند حکومت پر بیٹھنے والا ہر شخص خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان، شیعہ ہو یا سنی حاکم جائر ہے۔

قرآن مجید نے طاغوت کی اطاعت اور اس کے ساتھ تعاون سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ امام صادق (ع) نے عمر ابن حنظلہ والی مشہور روایت (جو کہ نظریہ ولایت فقیہ کی سند کے طور پر پیش کی جاتی ہے) میں حاکم جائر کو طاغوت قرار دیتے ہوئے اس کی اطاعت سے سختی سے منع کیا ہے۔ امام معصوم (ع) کے ایک با وفا صحابی نے عباسی خلیفہ کے ساتھ حج کی غرض سے اونٹ کرائے پر دینے کا معاملہ طے کیا تو آپ (ع) نے اس کی اس قدر سرزنش کی کہ اس صحابی نے اپنے تمام اونٹ ہی بیچ ڈالے اور اس طرح خلیفہ کو اونٹ کرائے پر دینے سے بچ گیا۔ شیخ صدوق (رہ) سے لے کر علامہ حلی (رہ) تک اور علامہ حلی (رہ) سے امام خمینی (رہ) تک تمام فقہاء کی متفقہ رائے ہے کہ حاکم جائر (طاغوت) سے تعاون اور اس کی حکومت کا حصہ بننا حرام ہے۔ ان علماء کے مطابق چونکہ امام معصوم (ع) اور مجتہدین کے سوا کسی کو بھی حکومت کا حق حاصل نہیں ہے، لہذا شریعت اسلام کے حکم اولی کے مطابق حاکم جائر کے ساتھ ہر قسم کا تعاون اور اس کی حکومت میں ہر طرح کی شمولیت حرام ہے۔

اگرچہ اسلام کا حکم اولی یہی ہے کہ حاکم جائر کے ساتھ تعاون اور اس میں شمولیت حرام ہے، لیکن ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ناطے سے اسلام نے بعض خاص حالات کے لئے احکام ثانوی بھی بیان فرمائے ہیں۔ دین اسلام ہی کی تعلیمات کے مطابق بعض صورتوں میں حاکم جائر کی حکومت میں شمولیت اور اس کے ساتھ تعاون نہ صرف جائز ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ایسا کرنا انسان کے لئے مستحب یا واجب ہو جائے۔ جہاں قرآن مجید سختی سے طاغوتی حکومت کا جزء بننے کی مذمت کرتا ہے، وہاں اللہ کے عبد مخلص حضرت یوسف (ع) کی حاکم مصر کی حکومت میں خزانہ داری کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔ جہاں امام صادق (ع) طاغوتی حکومت کے ساتھ تعاون کی شدید مذمت کرتے ہیں، وہاں یہ فرماتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ سلطان جائر کی حکومت میں شمولیت کا کفارہ یہ ہے کہ مومنین کی فلاح کے کام کئے جائیں۔

اگرچہ امام علی (ع) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کو مشروع نہیں سمجھتے تھے، لیکن جب بھی اسلام و مسلمین کی مصلحت نے تقاضا کیا تو آپ نے ان کو ایسے مفید مشورہ دیئے کہ وہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہو جاتے۔ اگرچہ امامت و خلافت ایک الٰہی امر ہے اور امام و خلیفہ کے انتخاب کا اختیار صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے اور اس کے سوا خلیفہ کے انتخاب کے تمام نظام اور فارمولے طاغوتی ہیں، لیکن اپنے حق کے حصول کے لئے امیرالمومنین (ع) نے شوریٰ کا بائیکاٹ نہیں کیا اور اس میں شرکت کرکے ظاہری خلافت کے حصول کے لئے جدوجہد کی۔ اگرچہ امیر کائنات (ع) اپنے دور کے موجودہ نظام کو غیر مشروع جانتے تھے، لیکن پھر بھی جب خلیفہ کے گھر پر حملہ کیا گیا تو آپ نے حسنین کریمین (ع) کو اس کی جان بچانے پر مامور فرمایا۔ وہی امام حسین (ع) جنہوں نے کربلا میں غاصب خلیفہ کے خلاف قیام کرکے حریت کی اعلٰی ترین داستان رقم فرمائی، مدینہ میں اپنے پدر بزرگوار کے فرمان پر خلیفہ سوم کے گھر کا پہرا دیتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ امام رضا (ع) قیام امام حسین (ع) کے سب سے بڑے مبلغ تھے، لیکن زمینی حقیقتوں کا مکمل ادراک رکھنے کی بدولت آپ نے مامون کے خلاف قیام کے بجائے اس کی ولی عہدی کو قبول فرما کر مذہب حقہ کی ترویج فرمائی۔ آئمہ (ع) کے بعض اصحاب خاص نے بھی بعض حکومتوں میں شمولیت اختیار کی۔ حضرت سلمان فارسی (رض) جو کہ قطعاً خلفاء کی حکومت کو غیر مشروع جانتے تھے، خلیفہ ثانی کے دور میں امام علی (ع) کی اجازت سے امیر مدائن رہے۔ امام صادق (ع) کے صحابی نجاشی اہواز کے گورنر رہے۔ علی ابن یقطین سمیت امام کاظم (ع) کے چار باوفا اصحاب حکومتی عباسی میں اہم عہدوں پر کام کرتے رہے۔

شاید یہی وہ دلائل تھے جن کے پیش نظر شیخ صدوق (رہ) سے لیکر علامہ حلی (رہ) تک اور علامہ حلی (رہ) سے لیکر امام خمینی (رہ) تک تمام فقہاء نے چند صورتوں میں طاغوتی حکومت میں شمولیت کو جائز قرار دیا ہے۔ شیخ صدوق، شیخ مفید، سید مرتضٰی، شیخ طوسی، ادریس حلی، علامہ حلی، محقق حلی، شہید اول، شہید ثانی، محق کرکی، شیخ بہائی، علامہ مجلسی، شیخ مرتضٰی انصاری، صاحب جواہر، امام خمینی اور آیت اللہ خوئی (رحمۃ علیہم اجمعین) وہ فقہاء ہیں جو حاکم جائر کے ساتھ تعاون اور اس کی حکومت میں شمولیت کو حرام جانتے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ بعض حالات میں جن کا ذکر آگے آئے گا حاکم جائر کے ساتھ تعاون یا اس میں شمولیت کو جائز قرار دیتے تھے، بلکہ بعض علماء نے بعض مواقع پر ایسے تعاون اور شمولیت کو مستحب اور واجب تک قرار دیا ہے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ بعض علماء نے کچھ حکومتوں میں شمولیت بھی اختیار کی۔ مثلاً جامع نہج البلاغہ سید رضی (رہ) نے آل بویہ کی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ سید مرتضٰی (رہ) بنی عباس کی حکومت میں عمارت حج و حرمین اور قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز رہے۔ خواجہ نصیر الدین طوسی (رہ) ہلاکو خان کے وزیر و مشیر رہے۔ علامہ حلی (رہ) سلطان محمد خدا بندہ کی حکومت میں، محقق کرکی شاہ طہماسب کی حکومت میں، شیخ بہائی و علامہ مجلسی اور میر داماد صفوی بادشاہوں کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ صفوی بادشاہت کے دوران کئی علماء اور مجتہدین نے حکومتی مشینری میں اہم عہدوں پر فائز رہ کر جو خدمت انجام دی، اسی کی بدولت ایران میں تشیع نے ترقی کی منازل طے کیں۔ شہید اول تحریک سربرداران کے حاکم علی مؤید سبزواری سے رابطے میں تھے اور تحریک سربرداران کی فرمائش پر ہی آپ نے مشہور کتاب لمعہ دمشقیہ تحریر فرمائی۔ شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری اکبر بادشاہ اور جہانگیر کے دور میں لاہور کے قاضی تھے۔ ہوسکتا ہے کوئی ان علماء پر درباری ہونے کا گمان کرے۔ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ:

"ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ علماء عوامی مخالفت کے باوجود اسلام، دینداری اور مذہب حقہ کی ترویج کی خاطر سلاطین کے ساتھ منسلک ہوئے اور ان سلاطین کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے ترویج مذہب تشیع پر مجبور کیا۔ یہ لوگ درباری علماء نہیں تھے۔۔۔۔۔ یہ لوگ سیاسی اور دینی اہداف رکھتے تھے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ انسان جیسے ہی یہ سنے کہ مثلاً 'علامہ مجلسی، محق ثانی (کرکی) اور شیخ بہائی کے سلاطین سے روابط تھے اور وہ ان کے پاس جاتے تھے، ان کا ساتھ دیتے تھے' تو وہ یہ گمان کرنے لگے کہ وہ جاہ طلب تھے۔۔۔"

آج کے دور میں بھی شہید مدرس، آیت اللہ کاشانی، سید موسٰی صدر، حزب اللہ اور عراقی علماء کی مثالیں موجود ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ لبنان میں آج بھی فرانس کا دیا ہوا نظام رائج ہے۔ اس کے باوجود آج کے دور میں ولایت فقیہ کے سب سے بڑے حامی سید حسن نصراللہ اسی نظام میں رہ کر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ عراقی شیعوں نے علماء کی ہدایات کے مطابق انتخابات میں حصہ لے کر سیاسی طاقت حاصل کی اور امریکہ کو عراق سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کا سیاسی نظام آج سے کئی گنا بدتر تھا، لیکن شہید عارف حسین الحسینی (رہ) نے اس وقت سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور "سبیلنا" کے نام سے ملت جعفریہ کو سیاسی منشور دیا۔ باوجود اس کے کہ اسلام کے نزدیک نظام ولایت کے سوا ہر حکومت طاغوتی ہے اور امام (ع) اور ولی فقیہ کے سوا ہر حاکم جائر ہے۔ ایران اسلام و مسلمین کی مصلحتوں کی خاطر مسلسل بشار الاسد کی حکومت کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اقوام متحدہ امریکہ کا بغل بچہ ہے اور اس کی بنیاد ہی ویٹو جیسے ظلم پر رکھی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود امام خمینی (رہ) نے ایران کو اس کا رکن رہنے دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہید رجائی، آیت اللہ خامنہ ای (اپنی صدارت کے دوران) اور احمدی نژاد بارہا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اقوام عالم کے سامنے اپنے موقف کو بیان کرتے آئے ہیں اور اسلام و مسلمین کا دفاع کرتے رہے ہیں۔

اس سب کچھ کے باوجود یاد رہے کہ فقہاء نے ہر کسی کو اجازت نہیں دی کہ وہ ظاغوتی حکومتوں سے تعاون کرے، یا ان میں شمولیت اختیار کرے۔ صرف اور صرف با تقویٰ اور عادل علماء کو اجازت ہے کہ وہ ایسی حکومتوں کے ساتھ تعاون یا ان میں شمولیت کا فیصلہ کریں۔ علماء بھی یہ فیصلہ چند شرائط کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ جو بھی ان شرائط کے ساتھ حاکم جائر کی حکومت میں شامل ہو، وہ سید مرتضٰی (رہ) کے بقول ظاہری طور پر تو اس حاکم جائر کا کارندہ ہوگا، لیکن چونکہ وہ یہ کام آئمہ (ع) کے فرمان کی تکمیل اور خوشنودی الہی کے حصول کے لئے انجام دے رہا ہوگا، لہذا حقیقت میں وہ امام زمان (عج) کا نمائندہ ہوگا۔ 
فقہاء نے طاغوتی حکومت میں شمولیت یا اس کے ساتھ تعاون مندرجہ ذیل صورتوں میں جائز قرار دی ہے:
1۔ کفار اور اسلام دشمن عناصر کے خلاف جہاد کے لئے۔
2۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر۔
3۔ مومنین کی مصلحت کی خاطر، یعنی مومنین کو کسی ضرر سے بچانے یا ان کی کسی منفعت کی خاطر۔
4۔ تقیہ کی صورت میں

اس وقت پاکستان میں ایک طرف امریکہ، برطانیہ و اسرائیل کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس اثر و رسوخ کو کم کرنے کی ضرورت ہے، دوسری جانب سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات تکفیری گروہوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ تکفیری گروہ سیاست میں حصہ لے کر سیاسی طور پر مضبوط ہو رہے ہیں۔ تکفیریوں کا منشور تو قوم کے سامنے آ ہی گیا ہے۔ وہ واضح طور پر چاہتے ہیں کہ شیعہ قوم کو کمزور کیا جائے اور کسی بھی کلیدی عہدے پر کوئی شیعہ نہ آنے پائے۔ تکفیریوں کو سیاسی طاقت حاصل کرنے سے روکنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ انتخابات کے بائیکاٹ سے ممکن نظر نہیں آرہا۔ یہاں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ استعمار دشمنی شیعہ قوم کی شناخت ہے۔ ہم استعمار کے ساتھ کسی طور پر بھی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ لہذا شیعہ قوم یہ کبھی گوارا نہیں کرسکتی کہ امریکہ نوازوں کے تعاون سے تکفیریوں کو کمزور کرے، اور سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو کم کرے۔ ہمیں امریکہ کو بھی پاکستان سے نکالنا ہے اور تکفیریوں کا جینا بھی حرام کرنا ہے اور یہ دونوں کام بیک وقت کرنا مشکل تو ہوسکتا ہے ناممکن نہیں ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ کسی طور پر بھی نہیں چاہتا کہ پاک ایران گیس منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ پائے۔ وہ اگلی حکومت پر بھرپور دباؤ ڈالے گا کہ وہ اس معاہدے کو منسوخ کرے۔ اگر تکفیری پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں تو وہ بھی یہی کوشش کریں گے کہ پاکستان اس معاہدے سے دست بردار ہو۔ اگر انتخابات میں شیعہ قوم بائیکاٹ کا راستہ اپناتی ہے تو تکفیری گروہوں کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے اور وہ اپنے مزموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں تشیع کے اصولوں کے مطابق اسلامی انقلاب لانا یا ولایت فقیہ کے نظام کا نفاذ جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ فی الوقت انتخابات میں حصہ لے کر قوم کو سیاسی طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ انتخابات کے بائیکات کی۔ موجودہ حالات میں انتخابات کا بائیکاٹ سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا اور شیعہ قوم کی عقب نشینی سے تکفیری اور استعماری ایجنٹ مضبوط ہوں گے اور شیعہ قوم کمزور۔ تکفیریوں کی مضبوطی اور شیعہ قوم کی کمزوری یقیناً طاغوت کی ایک بڑی فتح ہوگی نہ کہ شکست۔ لیکن باشعور شیعہ قوم ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی۔ انشاءاللہ پاکستان کی شیعہ قوم علم حضرت عباس علمدار (ع) کے سائے تلے اکٹھے ہو کر طاغوتی سازشوں کو ہر موڑ پر ناکام کرتے ہوئے اس کے تمام خواب خاک میں ملا دے گی اور طاغوت کا عملی میدان میں انکار کرے گی۔ انشاءاللہ:
طاغوت کا دل گھبرائے گا غازی کا علم لہرائے گا


خبر کا کوڈ: 251090

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/251090/طاغوت-کا-عملی-انکار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org