1
0
Thursday 4 Apr 2013 18:32

مولانا فضل الرحمان کا سونامی کو جواب

مولانا فضل الرحمان کا سونامی کو جواب
تحریر: ناظر بھٹی

جمعیت علمائے اسلام نے مینار پاکستان پر جلسہ بعنوان "اسلام زندہ باد کانفرنس" میں اپنا انتخابی منشور پیش کرکے اپنے تئیں پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے خدوخال پیش کیے۔ ملک بھر سے مندوبین کے اجتماع سے خطاب میں مقررین نے جس بات پر زور دیا وہ مولانا فضل الرحمان کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنا تھا۔ بار بار سابق وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمد اکرم درانی، سینیٹر ڈاکٹر خالد سومرو، مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر مقررین نے کہا کہ جے یو آئی کو عوام ووٹ دیں تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بعد پنجاب کے عوام کی خدمت میں بھی جے یو آئی اسلام کا تصور سیاست اور ریاستی ڈھانچہ پیش کرے گی۔ 

مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر جتنے بھی مقررین تھے، ان میں سے کسی ایک کی تقریر سے نہیں لگتا تھا کہ یہ کسی فرقے کی نمائندہ جماعت کا اجتماع ہے۔ اسلام زندہ کانفرنس میں کسی فرقے کے خلاف کوئی بات اشارے کنائے میں بھی نہیں کی گی۔ جو کہ میرے خیال میں خوش آئند ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ پاکستان میں کسی ایک فرقے یا نمائندہ کی جماعت ہونا کوئی مسلہ نیہں، لیکن پیغام قومی اور آفاقی ہو تو معاشرے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ جلسے میں ہندو، سکھ اور مسیحی برادری سے بھی نمائندگی تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر کے شروع میں ہی انہیں خوش آمدید کہا۔ انہون نے جے یو آئی کے کارکنوں سے کہا کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور پارلیمان کے ذریعے ہی اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اگر پورے ملک کا اقتدار حاصل کرنا ہے تو کارکن کسی مسلک کے بارے مین نفرت کے جذبات نہ رکھیں۔ 

مجھے یہاں مولانا فضل الرحمان کا پروٹوکول، ناکے وہ جملے بھی یاد آ رہے تھے، جو کہ 2010ء میں تحریک تحفظ ناموس رسالت کے جلسے میں مال روڈ لاہور پر جب اسلامی تحریک پاکستان کے قائد علامہ ساجد علی نقوی اسٹیج پر تقریر کرنے آئے تو اہل تشیع کے خلاف تکفیری گروپ سپاہ صحابہ کے غنڈوں نے نعرے بازی شروع کر دی اور قاتل قاتل ساجد نقوی قاتل کے نعرے لگائے۔ تو بغیر کسی خوف اور توقف کے علامہ ساجد علی نقوی نے اپنی تقریر مکمل کی تو مولانا فضل الرحمان نے بعدازاں اپنے خطاب میں کہا کہ اسٹیج پر موجود ہر مقرر رسول اللہ کا نمائندہ ہے اور ہر جماعت کا کارکن دوسری جماعت کے لیڈر کی اپنے لیڈر سے زیادہ عزت کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ شیعہ سنی اختلاف تاریخی ہے۔ اس لیے ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرکے ہی ملک کو چلایا جاسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ شیعہ سنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے تمام مسلک کی نمائندہ جماعتوں نے بڑی کوششیں کی ہیں۔ آپ اس فضا کو خراب نہ کریں۔
 
مولانا فضل الرحمان کا ووٹ بینک تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں زیادہ ہے، مگر لاہور کی سیاسی اہمیت اور مینار پاکستان کی تاریخ حیثیت نے اسلام زندہ باد کانفرنس کو چار چاند لگا دیئے۔ بلاشبہ عمران خان سے بڑا اجتماع نہ ہی سہی مگر ایک موثر اجتماع ضرور تھا کہ جس میں خواتیں کی کوئی نمائندگی نہ تھی۔ ہر طرف مولانا صاحبان ہی نظر آتے تھے، جن کا زیادہ تعلق خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقوں سے تھا۔ جلسے میں دوسری کسی جماعت کی نمائندگی بھی نہ تھی۔ شاید اس میں کسی کی کوشش بھی نہیں کی گی تھی کہ مولانا فضل الرحمان کی اپنی سیاسی سوچ ہے۔ 

اسلام زندہ باد کانفرنس دراصل عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمان پر تنقید کا جواب تھا اور جلسے میں عمران خان پر تقریروں میں خوب تنقید کی گئی کہ وہ مبینہ طور پر یہودی لابی کا ایجنٹ ہے۔ کچھ مولانا صاحبان نے اپنی تقریروں میں ایسے شرمناک ذو معنی جملے بھی کہے کہ جن کو دھرانا شائستگی کے خلاف ہوگا۔ مگر سفید ریش علماء کی زبان سے ایسی باتیں اچھی نہ لگیں۔ 
 جلسے میں مولویوں کا جیالاپن بھی چھایا رہا، جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ مفتی محمود اور آصف علی زرداری کی جگہ مولانا فضل الرحمان کے ناموں کے نعرے لگائے جاتے رہے، لیکن ایک بات اٹل ہے کہ مذہبی جماعتوں کی اصل قوت دینی مدرسوں کے طلبا ہی ہوتے ہیں اور یہی معاملہ مینار پاکستان پر پر ہونے والی اسلام زندہ بادہ کانفرنس میں تھا۔ اسی وجہ سے اسٹیج سے بار بار میڈیا رپورٹنگ پر تنقید بھی کی جاتی رہی۔ لیکن مسلم لیگ نون کے قلعہ میں اتنا بڑا جلسہ یقیناً ایک بڑا کارنامہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر دینی جماعت ایسا کرنے لگے تو ملکی معاملات میں خاصی بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 251271
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

janab ye sub baten durust sahi lakin America or saudi arab ki advic pe taliban se le ke sipahe yazid ki sarparsti ke hawawle se ap kya farmaen ge??
ہماری پیشکش